کمبھ حادثہ کیلئے انتظامیہ کی نا اہلی ذمہ دار: عبدالماجد نظامی

0

عبدالماجد نظامی

کمبھ کا میلہ ہندو سماج کے لیے بڑی روحانی اہمیت کا حامل ہے اور اسی لیے ہر امیر و غریب، شہری و دیہاتی، بچے اور بوڑھے سے لے کر خواتین تک کے لیے یہ یکساں اہمیت رکھتا ہے۔ ہندوستان کی کہانیوں میں اس میلہ کے حوالہ سے سیکڑوں داستانیں اور کہاوتیں مشہور ہیں۔ کمبھ کے میلہ میں امڈنے والی بھیڑ کے حوالہ سے ہمارے ملک کے اندر کمبھ کے میلہ میں ملنے اور بچھڑنے کی کہانی اتنی دلخراش اور دلچسپ دونوں ہی بیک وقت ہے کہ شاید ہی کوئی گوشۂ ملک ایسا ہوگا جہاں اس کی مثالیں نہ دی جاتی ہوں۔ اس کا مطلب کمبھ میں امڈنے والی بھیڑ اور اس کے نتیجہ میں رونما ہونے والے حادثات ہماری قومی زندگی کا حصہ ہیں۔ کمبھ کے میلہ میں آزاد ہندوستان کے اندر پہلا بڑا حادثہ 1954 میں پیش آیا تھا جس میں لوگوں کی جانیں گئی تھیں اور زخمی بھی ہوئے تھے۔ اس کے بعد80کی دہائی میں ایسا ہی واقعہ وقوع پذیر ہوا۔

بہت قریب کی تاریخ میں گوا کا حادثہ اور اس کے بعد الٰہ آباد کے کربناک حادثے لوگوں کو یاد ہوں گے۔ ان تمام واقعات سے اتنا سبق تو انتظامیہ کو سیکھ ہی لینا چاہیے تھا کہ جب انسانوں کا سیلاب مذہبی تقدس کے جذبات کے ساتھ کمبھ کے مقام پر آئے گا تو اس کے لیے کس قدر چاق چوبند نظم و انصرام کی ضرورت پیش آئے گی۔ میڈیا میں شب و روز اس بات کا پروپیگنڈہ اترپردیش کی سرکار کر رہی تھی کہ کروڑوں لوگ کمبھ میں مقدس ڈبکی کے لیے آ رہے ہیں اور ان کی ہر نقل و حرکت پر مسلسل نظر رکھی جا رہی ہے تاکہ کوئی ناگہانی واقعہ پیش نہ آئے۔ لیکن ان تمام دعوؤں کا کھوکھلا پن مونی اماوسیہ میں ایک سے دو بجے کے درمیان اس وقت واضح ہوگیا جب بھیڑ کے انتظام کا سارا عمل ہی بے بنیاد ثابت ہوگیا۔

انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ لوگوں کی ریل پیل میں وہ رکاوٹیں ہٹ گئیں جو بھیڑ کو کنٹرول کرنے کے لیے لگائی گئی تھیں جب کہ دوسری جانب عینی شاہدوں اور اس افسوسناک حادثہ میں زندہ بچ جانے والے متاثرین کا کہنا ہے کہ جب وہ سنگم پر مقدس ڈبکی کے لیے جا رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ اسی طرف وہ بھیڑ چلی آ رہی ہے جو ڈبکی لگا کر واپس آ رہی تھی۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ لوگوں کے آنے اور جانے کا انتظام الگ الگ راستوں کے ساتھ نہیں کیا گیا تھا۔ اتنے جم غفیر کی موجودگی میں ادنیٰ درجہ کی لاپروائی اور معمولی سی چوک سے بھی بڑے حادثے وقوع پذیر ہوجاتے ہیں۔

سنگم پر مونی اماوسیہ کو بھی یہ حادثہ اسی لیے ہوا کیونکہ اس کے نظم و انتظام میں جس درجہ کی چوکسی برتنے اور فل پروف سیکورٹی ہندو عبادت گزاروں کو مہیا کروانے کی ضرورت تھی، اس کا دھیان نہیں رکھا گیا یا اہلکاروں کے ذریعہ سستی برتی گئی۔ عام انسانوں کو اس حادثہ کے لیے ذمہ دار اس لیے نہیں مانا جانا چاہیے کیونکہ ان میں نہ تو اتنی صلاحیت ہوتی ہے کہ اتنے بڑی مناسبت کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کر سکیں اور نہ ہی ان سے یہ توقع کی جانی چاہیے کہ وہ مشین کی طرح ایک خاص دائرہ میں گردش کریں گے اور اس لیے کوئی حادثہ نہیں ہوگا۔ یہ ذمہ داری اس سرکار کی ہوتی ہے جس کا انتخاب عوام کرتے ہیں اور پھر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ان کا خیال رکھا جائے گا۔ سرکار سے عوام کی یہ امید بے جا قطعاً نہیں ہے۔

سرکار کا وجود ہی ایسے مواقع پر بہتر کارکردگی کے لیے ہوتا ہے۔ سرکار کے پاس تمام جدید وسائل اور قدیم تجربات ہوتے ہیں جن کا استعمال کرکے بہتر انتظام کیا جا سکتا ہے۔ آج کے دور میں جبکہ ٹیکنالوجی اور وسائل نقل و حمل کی فراہمی نے ماضی کے مقابلہ انسانی زندگی کو زیادہ آسان بنا دیا ہے، کمبھ جیسے میلوں میں ایسے واقعات کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے تھی کیونکہ ڈرون، ہائی ریولوشن کیمرے، ندیوں اور سمندروں تک پر کم مدت میں راہداری تیار کرنا اور ہر پل کی خبر اور ہر نقل و حرکت پر نظر جیسے کام کو آسان بنانے کے تمام وسائل کا مہیا ہونا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کافی ہونا چاہیے کہ قیمتی انسانی زندگیاں اس طرح چشم زدن میں انتظامی لاپروائی یا کوتاہی کی وجہ سے لقمۂ اجل نہ بن جائیں۔

اترپردیش کی سرکار کو اس بات کے لیے ذمہ داری لینی چاہیے کہ اس نے چونکہ اپنی تمام تر توجہات کو پروپیگنڈوں پر مرکوز رکھا اور مقدس کمبھ کے ہر لمحہ کو اپنے سیاسی مقاصد کے استعمال میں لگائے رکھا، اس لیے سیکورٹی سے متعلق جو بنیادی اور اہم مسئلے تھے، ان کا خاطرخواہ خیال نہیں رکھا جا سکا۔ اگر میڈیا کو پروپیگنڈہ کے آلات کے بطور استعمال کرنے کے بجائے انہیں اس بات کی آزادی دی جاتی کہ وہ ناقدانہ انداز میں کمبھ کے تمام پہلوؤں پر رپورٹنگ کریں تو اس کا پورا امکان تھا کہ انتظام و انصرام میں موجود چھوٹے بڑے تمام خلل پر نظر رکھی جاتی اور بر وقت ان کا ازالہ کیا جاتا اور اس طرح وہ قیمتی زندگیاں آج اپنے اہل خانہ کے ساتھ خوشی کے لمحات جی رہی ہوتیں اور کمبھ کے روحانی قصے گاؤں محلوں میں سنا کر اپنے حقیقی مالک سے قربت کے لافانی احساسات بانٹ رہی ہوتیں۔

لیکن کمبھ کا یہ دردناک واقعہ بتاتا ہے کہ ہمارے ملک میں عام انسانوں کی زندگیوں کی اتنی بھی اہمیت نہیں رکھی گئی ہے کہ وہ مقدس روحانی موقعوں پر بھی خوشیوں کے لمحات کو جی اور محسوس کر سکیں۔ ساری توجہات و عنایات صرف ان لوگوں کے لیے خاص ہوتی ہیں جنہیں وی آئی پی کے مبغوض لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ کمبھ کے حالیہ میلہ میں بھی صرف امت شاہ کے لیے جو انتظام کیا گیا تھا، اس کی تفصیل پڑھ لیں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ عام انسانوں کے مقابلہ میں ہمارے وی آئی پی حضرات کے لیے کس قسم کا فل پروف سیکورٹی نظم کیا جاتا ہے۔ عوام کو کوسوں دور ان کے گھروں اور تنگ بازاروں میں گھنٹوں اس وقت تک محصور رکھا جاتا ہے، جب تک وی آئی پی قافلہ چشم و نگاہ سے بالکل دور نہ چلا جائے۔ انسانی زندگیوں کے درمیان موجود یہ خلیج اور نابرابری جب تک ختم نہیں ہوگی اور ہر انسان کی زندگی کی قیمت و اہمیت یکساں نہیں مانی جائے گی تب تک قیمتی جانوں کی یہ ارزانی باقی رہے گی۔ تیس زندگیاں جو کمبھ میں اکارت تباہ ہوئیں، ان کی ذمہ داری انتظامیہ قبول کرے اور آئندہ ایسے حادثے پیش نہ آئیں اس کو یقینی بنائے تبھی یہ مانا جائے گا کہ سرکار اپنے کام کے تئیں سنجیدہ ہے۔

(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS