اترپردیش اور اتراکھنڈ میں دکانوں اور ڈھابوں پر مالکان کی شناخت ظاہر کرنے کے ریاستی حکومتوں کے حکم پر عدالت عظمیٰ کے حکم امتناعی کے بعد ریاست کے لوگوں نے ایک ٹھنڈی سانس ضرور لی ہے لیکن گزشتہ تین دنوں سے کانوڑ یاترا ئوں کے آغاز کے بعد سے متعلقہ علاقوں سے جس طرح کے پر تشدد واقعات اور توڑ پھوڑ کی خبریں موصول ہو رہی ہیں،وہ بے حد تشویشناک اور ڈرانے والی ہیں۔ دو دن پہلے مظفر نگر میں ایک کار کو کانوڑ یاتریوں نے مشتعل ہو کر تہس نہس کردیا تھا،جبکہ کار مالک کا کوئی قصور نہیں تھا،تووہیں کل ایک بے قصور ای رکشہ کے مالک کو بھی لاٹھیوں سے پیٹا گیااور اس کا رکشہ توڑ ڈالا گیا۔آج یوپی کے ہی ضلع مظفر نگر میں کانوڑ یاتریوں نے ایک پٹرول پمپ پر معمولی سی بات پرجم کر ہنگامہ کیا اور وہاں کے عملہ کو مارا پیٹا، مشینوں کے ساتھ توڑ پھوڑ کی۔سبھی معاملات میںپولیس انتظامیہ خاموش تماشائی بنا رہا۔ایسی صورت حال کو دیکھ کر لگ رہا ہے کہ ریاست میں قانونی نظم و نسق نام کی کوئی شئے باقی نہیں ہے اور سڑکوں پر جس طرح سے طوفان بدتمیزی اور غنڈہ گردی کی جارہی ہے، اس کو کوئی روکنے والا نہیں ہے۔
ا یسے موقع پر راہ گیروں اور عام لوگوں کا سڑکوں پر بحفاظت سفر کرپانا کسی خطرہ سے کم نہیں ہے۔ جس طرح سے متعلقہ راستوں کے کچھ ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ہیں، وہ بے حد خوفزدہ کرنے والے ہیں۔ تعجب کی بات ہے کہ اس غنڈہ گردی کو روکنے کے لیے یوپی حکومت کی جانب سے ابھی تک کسی بھی طرح کا کوئی انتباہی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی سیکورٹی دستوں کو اضافی ایکشن لینے کے لیے احکامات ہی دیے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عام لوگ کسی ہنگامی ضرورت میں بے خوف ہو کر اپنے گھروں سے کیسے نکلیں اور ان کی حفاظت کی ذمہ داری کس کے ذمہ ہے؟یہ سوچنا ضروری ہے کہ سڑکوں پر سبھی طرح کے پیشہ سے وابستہ لوگوں کو نکلنا پڑتاہے، کہیں لوگ اسپتال جاتے ہیں تو کوئی دفتر اور کورٹ کچہری کے لیے نکلتا ہے۔تجزیہ کارو ں کا خیال ہے کہ ایسی صورت حال امن و قانون کو تہس نہس کرنے والی ہے جس کے تدراک کی کوششیں ضروری ہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ ہر سال لاکھوں عقیدت مند ہری دوار کا پیدل مشقت بھرا سفر کرتے ہیں اور اپنے کاندھوں پر گنگا جل لاکر مقدس مقامات کی نذر کرتے ہیں۔ یہ واقعی ایک مقدس سفر ہے جو منتوں اور نیک مقاصد سے بھرا ہوتا ہے، ایسے میں پوری یاترا اگر پر امن ہو تو اس کا مزہ ہی کچھ الگ ہوتا ہے۔ دیکھا یہ جارہا ہے کہ کانوڑ یاترا کے ایام میں ہر سال کسی نہ کسی کونے سے توڑ پھوڑ اور تشدد کی خبریں ضرور موصول ہو تی ہیں اور اب یہ سب ہونا عام بات ہوگئی ہے، جو اچھی بات نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یاترا کے دوران کسی بھی طرح کی اشتعال انگیزی سے پرہیز کیا جائے اور باہمی سنجیدگی اور صبر و ضبط کادامن ہرگز نہ چھوڑا جائے تاکہ یاترا پر امن طریقہ سے مکمل ہو اور بحسن و خوبی اختتام کو پہنچے اور اس کا نیک مقصد بھی حاصل ہو۔ وہیں اس کے ساتھ عام لوگ بھی اپنی سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور یاتریوں کا خاص خیال رکھیںتاکہ وہ خود بھی اپنی اپنی منزلو ں تک بخیر و عافیت پہنچ جائیں۔ایسے میں ضروری ہے کہ اس دوران اپنی گاڑیوں کو ان راستوں سے دور رکھا جائے جہاں سے یاتری سفر کررہے ہوں۔اگر جانا نہایت ناگزیر ہوجائے تو بچتے بچاتے کچھ دوری اختیار کر کے گزرا جائے تاکہ گاڑی سے کسی کو چوٹ نہ پہنچے۔لیکن اس دوران دونوں طرف سے خوش اسلوبی سے کسی بھی تنازع کوختم کرنے کی کوشش کی جائے۔اس میں حکومت اور انتظامیہ کا رول سب سے اہم ہے۔یوپی حکومت قانونی نظم و نسق چاق و چوبند ہونے کے جو دعوے کرتی ہے، اس کا اندازہ ان واقعات سے تو لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے امن وقانون کے لیے کیے گئے تمام انتظامات کے دعوئوں کی قلعی کھل گئی ہے۔اترپردیش حکومت کو چاہیے کہ ابھی جبکہ یاترا مکمل ہونے میں کئی دن باقی ہیں،وہ سیکورٹی کے ضروری بندوبست کرے اور عام لوگوں کی جان اور مال کی حفاظت کو یقینی بنائے۔
[email protected]
پر تشدد واقعات تشویشناک
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS