شاہنوازاحمد صدیقی
کیا عالم اسلام سانحات اورحادثات سے سبق سیکھنے کے لیے تیار ہے یا ان ملکوں میں آنے والی تباہیاں اور حادثات اور اس پیمانے کے حادثات جن میں ایک لمحہ میں 40ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے ہیں، ضمیر کو جھنجھوڑنے میں کامیاب رہاہے۔ کیا اس خطے کے حکمراں بدترین واقعات سے سبق سیکھنے کوتیارہیں؟ اب ایسا لگتا ہے کہ اس خطے کے حکمرانوںکی آنکھیں کھل رہی ہیں۔ شام اور ترکیہ میں حال میں آنے والے زلزلے نے سرحدوں کے درمیاں فاصلوں کو کم کرنے میں مدد ملی ہے، خاص طور پر ملک شام جو گزشتہ 12سال سے زائد عرصہ سے خانہ جنگی غیرملکی مداخلت کی مار جھیل رہاہے۔ اسپتال، دواخانے، اسکول، بجلی پانی سپلائی کرنے والے ادارے بہت پہلے تباہ ہوچکے ہیں۔ ایسے حالات میں زلزلوں کی تباہی نے عام آدمی کی زندگی اور محال کردی ہے، اس سانحہ کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے دفتر کے دفتر درکار ہیں مگر اس مضمون کا مرکز عالم اسلام کی مجموعی سیاسی اور آپسی سفارت کاری اور مراسم کی بحالی کی کوشش کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ شام کے پڑوس کے عرب ملکوں کے ساتھ مراسم نہیں ہیں اور 2011کی خانہ جنگی اور قتل عام کے بعد سے سعودی عرب، اردن،مصر،یوای اے وغیرہ میں کوئی رابطہ نہیں ہے۔ اس میں سب سے اہم ملک اردن ہے جس کی بہت طویل سرحد شام سے ملتی ہے۔ اس مصیبت کی گھڑی میں انسانی بنیادوں پرمدد کرنے کے لیے اردن کے وزیرخزانہ نے صدر بشار الاسد سے ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات کو سفارتی حلقوں میں کافی اہمیت دی جارہی ہے۔ وزیرخزانہ ایمان سفادی (Ayman Safadi)نے شام کے زلزلہ متاثرین سے ملاقات کی اور حالات کا خود جائزہ لیا۔ صدربشار الاسد کے دفتر نے اس بابت ایک اہم بیان جاری کیا ہے، جس میں انہوں نے عرب ممالک کے تعاون کے لیے شکریہ ادا کیا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی کی بہت پہلے سے کوشش کی جارہی ہے۔ 2021 میں اردن کے فرمانروا نے بشار الاسد کے ساتھ ٹیلی فون پربات چیت کی تھی۔ دونوں ملکوں کے سربراہان نے اقتصادی بدحالی سے نمٹنے کے اقدامات پر تبادلہ خیال کیاتھا۔ مگراس کے بعد بظاہر کوئی ٹھوس مذاکرات یا رابطہ نہیں ہوا تھا۔ بہرکیف، برسوں کے بعد یواے ای جو کہ سعودی عرب کا سب سے قریبی ساتھی اور معاون ہے، کے وزیرخارجہ عبداللہ بن زیاد النہیان نے بھی صدر بشار الاسد سے ملاقات کی۔یہ بات پیش نظر رہے کہ سعودی عرب اور مصر نے بھی اہل شام کے لیے رسدبھیجی ہے اوراس دکھ کی گھڑی میںدیگر عرب اور مسلم ملکوں نے فیاضی کا مظاہرہ کیا۔ امریکہ جو کہ بشار الاسد کو بالکل برداشت نہیں کرتاہے، اس نے بھی کچھ پابندیوں کو نرم کیا ہے مگر وہ ممالک جو شام کے حکمراں کے ساتھ مراسم کو بہتر کرنے اور اس کو اپنے ہم نوا کے طورپر سمجھنے لگے ہیں، ان کو خطرات سے آگاہ کیا ہے۔ امریکہ نہیں چاہتاکہ پڑوسی عرب اور مسلم ممالک شام کے ساتھ مراسم کو بحال کریں۔
امریکہ اورروس دونوں شام میں ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں، روس بشار الاسد کی مدد کرتارہاہے جب کہ امریکہ شام میں کردوں کو فوجی، اقتصادی اور ہرطریقے سے مددفراہم کررہاہے اور دہشت گرد تنظیم آئی ایس آئی ایس کی سرکوبی میں مدد کررہاہے۔ اردن اورسعودی عرب بھی شام کے باغیوں کی حمایت کررہے ہیں۔ روس کی مدد سے بشار الاسد باغیوں سے کچھ علاقوں کو خالی کرانے میں کامیاب رہاہے۔ خاص طور پر شمالی علاقوں پر اس کو کافی کامیابی ملی ہے۔ عرب اور مغربی ممالک 2011کے مظاہرین کے خلاف وحشیانہ کارروائی کے لیے بشار الاسد کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2011میں کئی عرب اور مسلم ملکوں میں مظاہرے ہوئے۔ یہ مظاہرے اردون، شام، بحرین وغیرہ میں بھی ہوئے تھے اور اس وقت خطے میں موجودہ خانہ جنگی، عدم استحکام کا سبب یہی تحریکیں بتائی گئی تھیں، جن پر کچھ عرب ملکوں نے قابو پالیاتھا مگر اس وقت موقع غنیمت جان کر بڑے پیمانے پرتشدد اورخارجی طاقتوں نے شعلوں کو ہوا دی۔ کئی ملکوں کے ساتھ حساب چکتا کیے گئے۔مصر میں حسنی مبارک، لیبیا میں کرنل معمرقذافی کو اقتدارسے بے دخل کردیاگیا۔ لیبیا کی صورت ابھی بھی قابو سے باہرہے۔ شام میں خانہ جنگی اور غیرملکی مداخلت نے ابھی بھی حالات کو پیچیدہ بنائے رکھا ہے۔ مصرمیں حسنی مبارک بے دخل توہوئے مگر وہاں صرف مختصر مدت کے لیے اسلام پسندجماعت برسراقتدار آئی اور اب فوجی کنٹرول والی عبدالفتح السیسی کی سرکار اقتدار میں ہے۔
تیونس جہاں سب سے پہلے عرب بہاریہ کا آغازہوا، ابھی بھی داخلی سیاسی عدم استحکام کاشکار ہے۔ بہرکیف خطے کے ممالک صورت حال کو تبدیل کرنے اور خطے کے عوام کو فوکس کرکے، اقتصادی حیثیت کو بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں اور اس پرآشوب دور میں جو انتشار، عدم استحکام پیدا ہوا تھا، اس کو دور کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
اس وقت عرب دنیا سے تعلق منقطع ہونے کے بعد اب کئی عرب ممالک چاہتے ہیں کہ شام کو عرب لیگ اور دوسری تنظیموں اور گروپوں میں شامل کرلیاجائے۔ اس بابت الجیریا نے پہل کی تھی۔ اس سے قبل شام کے صدر نے متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا تھا اور انھوں نے یواے ای کے اعلیٰ ترین حکمرانوں سے ملاقات کی تھی۔ اس پر امریکہ نے سخت ردعمل کا اظہار کیاتھا۔ ظاہرہے کہ یوکرین پر حملہ کے بعد حالات کی تبدیلی نے عالمی سیاست کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ یواے ای شام کے معاملہ کے علاوہ دیگر امور میں بھی آزادانہ خارجہ پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وہ دیگرعرب ملکوں کی طرح امریکہ سے اپنادامن چھڑانے کی کوشش کررہاہے۔ روس کے ساتھ یواے ای مراسم کو فروغ دے رہا ہے اور خلیجی ممالک اپنا کنٹرول اور خارجہ حکمت عملی امریکہ کی مرضی کے مطابق وضع کرنے اور چلانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مبصرین کا کہناہے کہ یواے ای کے روس اور چین کے ساتھ مراسم ہیں ۔ وہ امریکہ کے موقف کو اہمیت نہیں دیتا ہے۔ یواے ای کا یوکرین پر بالکل منفرد موقف ہے۔ یواے ای صرف اقتصادی توسیع، خوش حالی کا قائل ہے اور اس سے یواے ای فائنیشیل ایکشن ٹاسک فورس (FATF)کے منصوبے کو آگے بڑھا رہاہے اور شام جیسے بڑے اور اہم ملک کو الگ تھلگ کرکے خطے کی ترقی اور خوش حالی کی کوششوں کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔ یواے ای کے علاوہ بحرین، مصر اوراردن ،شام کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے حامی ہیںجبکہ قطر کی حکمت عملی اس سے بالکل جداہے۔ قطر اورایران کے تعلقات کی گرم جوشی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے مگر قطر کی شام کے معاملہ میں جداگانہ رائے ہے۔ یواے ای کی حکمت عملی کو سفارت کار دوراندیشی پرمبنی قراردیتے ہیں۔ یواے ای نے ترکی، اسرائیل اور شام کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرکے امریکی حلقوں میں تشویش پیدا کردی ہے۔ شام میں حالیہ زلزلے اور دوران خانہ جنگی کی بربادی دوسری طرف ایران پرچوطرفہ دباؤ، روس کاشام سے زیادہ یوکرین میں مصروف ہونابدلی ہوئی صورت حال میں کافی حد تک معاون ہے۔
اس سے قبل بحرین بھی شام کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے لیے راضی ہوگیا ہے اور اس نے اعلان کردیاہے کہ بحرین کے شاہ حماد بن عیسیٰ الخلیفۃ نے واضح کردیا کہ ان کا ملک سعودی عرب سے روایتی مراسم برقرار رکھنا چاہتاہے۔ سعودی عرب نے شام کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے بحرین کے اعلان پر کوئی منفی یا مثبت ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ اس خاموشی کو سعودی عرب کی رضامندی قرار دیاجارہاہے۔ سعودی عرب، عراق کے معاملہ پر بھی مختلف نقطہ نظر کاحامل ہے، اردن اور فرانس عراق میں افہام وتفہیم اورتعمیر نو کی کوششوں میں پیش پیش ہے۔ پچھلے دنوں اسی بابت ایک کانفرنس اردن اور ایک اس سے قبل بغداد میں بھی بین الاقوامی کانفرنس ہوچکی ہے، امریکہ،عراق کے امور پر اپنی منمانی چاہتاہے۔ وہاں اس کی افواج، ماہرین اورسفارت کار الگ حکمت عملی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
اردن کے شاہ حسین (دوم)، شام کے صدر بشارالاسد کے معاملہ میں غیرمعمولی طور پر سرگرم ہیں۔ انھوںنے شام کوعرب لیگ اور عرب ممالک کے ساتھ ملانے کے لیے ایک چھ صفحات پر مشتمل الیکشن پلان تیار کیا ہے۔
یواے ای کے علاوہ الجیریا، مصر ودیگر حلیفوں کا شام کو عرب لیگ میں شامل کرنے کی پرزور وکالت کررہے ہیں اور کئی ملک تو امریکہ کی طرف سے عائد پابندیاں ختم کیے جانے کی وکالت کررہے ہیں۔عرب ملکوں کو نظرآرہاہے کہ شام طویل جنگ کے بعد وہاں تعمیرنو کے پروجیکٹوں اورسرمایہ کاری کے امکانات پر نظرجمائے ہوئے ہیں مگر یہ کوشش صرف تعمیراتی پروجیکٹوں کو حاصل کرنے کالالچ کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ شام جیسے عظیم ملک کو اپنے ساتھ ملانے اوروہاں کے عوام کی تکالیف کوکم کرنے اور خطے میں قیام امن کویقینی بنانے کی سعی ہے۔ اس پر امریکہ روس کو نظرانداز کرنا ہی بہتر ہے۔ خاص طور پر حالیہ زلزلہ کے بعد توعرب اورتمام مسلم اور غیرمسلم یاایشیائی ممالک کو دونوں ملکوں میں تعمیرنو کے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیناچاہتے ہیں۔n