بھکمری کی کوئی ایک وجہ نہیں، مختلف وجوہات ہوتی ہیں، چنانچہ لوگوں کو بھوک سے مرنے سے بچانے کے لیے ان وجوہات کو ختم کرنے پر توجہ دی جانی چاہیے مگر سوال یہ ہے کہ توجہ کون دے؟ اقوام متحدہ کا ورلڈ فوڈ پروگرام اس سلسلے میں کام کرتا ہے مگر وہ کام تبھی بہتر طریقے سے کر پائے گا جب اس کے پاس خاطر خواہ رقم ہوگی جبکہ دنیا کے بیشتر ملکوں کے زیادہ تر لیڈران انسانیت، انسانوںکی فلاح و بہبودکی باتیں توکرتے ہیں، انسانوں کو غذائی امداد فراہم کرنے پرہاتھ دراز نہیں کر پاتے۔ اس سلسلے میں امریکہ ضرور اپنا رول ادا کرتا رہا ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ امریکہ نے اگر واقعی سپرپاور کی پوزیشن کا استعمال دنیا کو غریبی، تشدد، عدم مساوات کے مسئلوں سے نجات دلانے کے لیے کیا ہوتا تو دنیا کی دِشا اور دَشا ہی کچھ اور ہوتی۔ آج ورلڈ فوڈ پراگرام کی طرف سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ اگلے تک تک غذائی بحران اور سنگین ہو جائے گا اور اس کی ایک وجہ یوکرین جنگ بھی ہے مگر جنگیں تو پہلے بھی ہوتی رہی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ روس اور یوکرین دونوں گیہوں پیدا کرنے والے بڑے ملکوں میں شامل ہیں، روس کا شمار تیل پیدا کرنے والے بڑے ملکوں میں بھی ہوتا ہے، اس لیے اس پر عائد پابندیوں کا اثر دنیا کے کئی ملکوں پر پڑنا فطری ہے اور ان ملکوں کے حالات زیادہ خراب ہو جائیں گے جن کے حالات پہلے ہی خراب ہیں مگر تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ افریقہ کے کئی ملکوں کے لوگوں کو بھکمری اب ڈراتی نہیں ہے۔ سوڈان کی تقسیم ان لوگوں کے لیے امید کی ایک کرن تھی جو یہ سمجھتے تھے کہ جنوبی سوڈان کے سوڈان سے الگ ہو جانے سے وہاں کے لوگوں کے حالات بہتر ہو جائیں گے مگر کیا ایسا ہوا؟ اس کا جواب ہے، نہیں!
1991 میں سیاد بری کے اقتدار سے ہٹنے پر صومالیہ کے لوگوں کا جشن منانا فطری تھا مگر وہ جشن آج بے معنی ہوکر رہ گیا ہے، کیونکہ صومالیہ تین حصوں میں بٹ گیا ہے۔ جو حصہ صومالیہ کہلاتا ہے، وہاں مذہب کے نام پر اقتدار کے حصول کے کھیل نے لوگوں کو چکراکر رکھ دیا ہے۔ حالت یہ ہے کہ 2020 میں کورونا کی وجہ سے حج کے لیے زیادہ لوگ نہیں جا سکے تو اس کا اثر صومالیہ کی اقتصادیات پر پڑا، کیونکہ اس کی جی ڈی پی کا 40 فیصد حصہ مویشیوں کو فروخت کرنے سے آتا ہے۔ مویشیوں کی تجارت سے ہی 80 فیصد زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے مگر حج کے لیے زیادہ لوگوں کے نہ جانے سے صومالیہ کے لوگ زیادہ مویشی سعودی عرب سپلائی نہیں کر سکے۔ اس کی وجہ سے ان کے حالات خراب ہوئے۔ اس سے پہلے وہ برسوں کی خانہ جنگی کے ساتھ خشک سالی سے بھی متاثر رہے۔ خانہ جنگی اور دہشت گردی کی وجہ سے یمن کے حالات بھی خراب رہے ہیں، رہی سہی کسر سعودی عرب کی جنگ نے نکال دی،کیونکہ سعودی عرب یہ الزام عائد کرتا رہا ہے کہ حوثیوں کی پشت پر ایران ہے۔ اب بات کچھ بھی ہو،یہ حقیقت ہے کہ یمن کے حالات بد سے برتر بنانے میں جنگ نے اہم رول ادا کیا ہے۔ حالات آج کیا ہوں گے، اس کا اندازہ اس سے بھی لگانا مشکل نہیں کہ یمن جنگ 16 ستمبر، 2014 کو شروع ہوئی تھی تو اسی وقت اس کی 48.6 فیصد آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور تھی۔ دنیا کے کئی اور ملکوں میں بھی حالات اچھے نہیں ہیں۔ ان ملکوں میں سری لنکا بھی اب شامل ہو گیا ہے۔ وہاں شام، لیبیا، عراق جیسے بدتر حالات نہیںہیں مگر امید افزا بھی نہیں ہیں۔n
کئی ملکوں میں حالات پہلے ہی خراب ہیں!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS