وزیراعظم مودی کے اہم دورے

0

دو ملکوں کے تعلقات مستحکم بنانے میں ان کے سربراہوں اور نمائندوں کا بڑا اہم رول ہوتا ہے۔ اسی لیے یہ دیکھا جاتا ہے کہ کرسی اقتدار سنبھالنے کے بعد لیڈر نے پہلا غیر ملکی دورہ کس ملک کا کیا، اپنی مدت کار میںکس ملک کے کتنے دورے کیے، کیا وہ کسی ایسے ملک بھی گیا جہاں اس کے پیش رو نہیں گئے تھے۔ ان نکات کی روشنی میں وزیراعظم نریندر مودی کے حالیہ غیر ملکی دوروں کو بھی دیکھا جانا چاہیے، کیونکہ جاپان، پاپوا نیو گنی اور آسٹریلیا کے یہ دورے بہت اہم ہیں۔ ان دوروں میں وزیراعظم مودی نے ہندوستان کے موقف کو ایک بار پھر واضح کیا اور عالمی برادری کو ہندوستان کے بڑھتے دائرۂ اثرکو بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ 24 فروری، 2022 کے بعد سے یہ دباؤ بنانے کی کوشش ہوتی رہی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی یوروپی ممالک کی طرح ہندوستان بھی روس سے تعلقات منقطع کر لے مگر اس نے ایسا نہیں کیا اور روس سے تجارت جاری رکھی ہے،البتہ ہندوستان نے جنگ کو کبھی جائز نہیں ٹھہرایا ہے۔ ہندوستانی وزیراعظم مودی نے اچانک کیف کا دورہ اس طرح نہیں کیا جیسے امریکی صدر بائیڈن اور جاپانی وزیراعظم کیشیدا نے کیا مگر ہندوستان کا یوکرین سے رابطہ قائم رہا ہے۔ اس کے باوجود جی-7 کے سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے وزیراعظم نریندر مودی جاپان کے شہر ہیروشیما گئے تو یوکرین کی موجودہ صورتحال پر یہ کہتے ہوئے ہندوستان کا موقف واضح کر دیا کہ ’یوکرین کی موجودہ صورتحال کوئی سیاسی یا اقتصادی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے، انسانی اقدار کا مسئلہ ہے۔‘ وزیر اعظم نے کہا کہ ’ ہندوستان یوکرین کی مدد کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا۔‘ امید کی جانی چاہیے کہ ان ملکوں کو یوکرین کی جنگ پر ہندوستان کے نظریے کو سمجھنے میں آسانی ہوگی جو اب تک اسے سمجھ نہیں سکے تھے، ہندوستان کی حکومت سے اب انہیں کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ جاپان میں وزیر اعظم نریندر مودی نے بنفس نفیس یوکرینی صدر زیلنسکی سے ملاقات کی ہے اور یہ ملاقات بھی یہ بات ثابت کرتی ہے کہ ہندوستان کی ایک آزاد خارجہ پالیسی ہے، وہ کسی ملک کے دائرۂ اثر میں نہیں ہے، البتہ اس کے تعلقات روس اور امریکہ دونوںسے اچھے ہیں۔
امریکہ کے صدرجو بائیڈن کو پاپوا نیو گنی اور آسٹریلیا جانا تھا۔ یہ دونوں ممالک محل وقوع کے لحاظ سے اہمیت کے حامل ہیں۔ آسٹریلیا کواڈ کا حصہ ہے اور اوکس کا بھی حصہ ہے جبکہ ادھر کے برسوں میں چین نے پاپوا نیو گنیکو دائرۂ اثر میں لینے پر زیادہ توجہ دی ہے۔ چینی فوجیوں نے اس کے فوجیوں کو ٹریننگ دی ہے۔ چینی کمپنیوں نے پاپوا نیو گنی کے دوسرے بڑے شہرلائے میں ایئرپورٹ اوربندرگاہ کے ڈیولپمنٹ میں اہم کردار ادا کیا ہے، اس لیے بائیڈن کے پاپوا نیو گنی کے دورے کی بڑی اہمیت تھی مگر انہیں یہ دورہ کینسل کرنا پڑا، البتہ ہندوستان کے وزیراعظم پاپوا نیو گنی کے دورے پر گئے۔ ایئر پورٹ پر پاپوا نیو گنیکے وزیراعظم جیمس ماراپے نے وزیراعظم نریندر مودی کا جس طرح سے پیر چھوکرآشیرواد لیا اور ان کا استقبال کیا، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ پاپوا نیو گنی ہندوستان کی اہمیت سے واقف ہے، وہ جانتا ہے کہ ہندوستان کا ساتھ اس کے لیے باعث اطمینان ہوگا۔ بائیڈن کے دورہ کینسل کرنے کے باوجود نیوی لینڈکے وزیراعظم کرس ہپکنز پاپوا نیو گنی کے دورے پرآئے اور یہ بات بتائی کہ وہ ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی سے ملنے کے لیے آئے ہیں، اس سے بھی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس خطے کے ملکوں کے لیے ہندوستان کی بڑی اہمیت ہے۔ دراصل وہ جانتے ہیں کہ ابھرتے چین کا مقابلہ کرنے کے لیے ہندوستان کا ساتھ ان کے لیے حوصلہ افزا ہوگا۔ دوسری طرف ہندوستان بھی یہ جانتا ہے کہ مختلف گروپوں میں اس کا شامل ہونا ٹھیک ہے مگر یہ ضروری ہے کہ مختلف ملکوں سے اس کے باہمی تعلقات بھی مضبوط ہوں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ کواڈ کا اجلاس کینسل ہوا مگر وزیراعظم نے آسٹریلیا کا دورہ کینسل نہیں کیا۔ بڑی تعداد میں ہندوستانی طلبا پڑھنے کے لیے آسٹریلیا جاتے ہیں۔ آسٹریلیا ان گنے چنے ملکوں میں شامل ہے جس سے ہمارے ملک ہندوستان کے اچھے تعلقات ہیں۔ ہندوستان خاصی اشیا آسٹریلیا سے امپورٹ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ چین کے بڑھتے دائرۂ اثر کے مدنظر بھی آسٹریلیا کا ساتھ اس کے حق میں ہے، اس لیے یہ کہنے میں تأمل نہیں ہونا چاہیے کہ وزیراعظم مودی کے جاپان، پاپوا نیو گنی اور آسٹریلیا کے دورے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS