جنگ آزادی میں خواتین کا اہم کردار۔

0

ازقلم: شبنم علی۔

جب بھی پندرہ اگست یا ملک ہندوستان کی جنگ آزادی کی بات آتی ہے تو یکایک ذہن میں یہ بات گردش کرنے لگتی ہے کہ اس جنگ آزادی میں تو ملک کے نوجوان کا اہم کردار رہا ہے، اس ملک کی آزادی میں بڑے بڑے مرج مجاہد کا ہاتھ رہا ہے۔
جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ملک کی آزادی میں صرف مردوں کا ہی نہیں بلکہ ملک کی خواتین کا بھی اہم کردار رہا ہے۔
ملک ہندوستان کی خواتین نے نہ صرف اپنے شوہروں اور فرزندوں کو ملک کی آزادی میں حصہ لینے کو اکسایا ہے بلکہ انہوں نے بذات خود جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے، ہڑتالوں میں حصہ لیا ہے، جلسے جلوس میں شرکت کی ہے، یہاں تک کہ بعض خواتین ایسی بھی تھیں جو اپنی تحریروں اور شاعری کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں جنگ آزادی کا حوصلہ پیدا کر رہی تھیں۔
غرض یہ کہ ایسی بے شمار خواتین ہیں جنہوں نے وطن کی آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس میں سر فہرست: جھانسی کی رانی لکشمی بائی، بیگم حضرت محل، بیگم زینت محل، بی اماں، امجدی بیگم، زلیخا بیگم وغیرہ شامل ہیں۔

جھانسی کی رانی لکشمی بائی وہ ہیں جنکے شوہر کے انتقال کے بعد انگریزوں نے لاولدی کا بہانہ بنا کر جھانسی کو اپنے کنٹرول میں کرنے کی کوشش کی جسکی وجہ سے لکشمی بائی نے انکی شدید مخالفت کی اور حکومت کی کمان اپنے منہ بولے بیٹے کے نام پر خود سنبھالی، پھر ایک دن وہ بھی آیا کہ انگریز نے جھانسی پر حملھ کیا تو لکشمی بائی نے انگریزوں کی فوج میں گھس کر انکا مردانہ مقابلہ کیا لیکن آخر کار انگریز فوج سے لڑتے ہوئے وطن کی آزادی کی خاطر شہید ہو گئیں ۔

بیگم حضرت محل وہ ہیں جب انگریزوں نے انکے خاوند نواب واجد علی شاہ پر ریاست اودھ کی سلطنت سے لاپرواہی کا الزام لگا کر انہیں جلا وطن کر دیا تو حضرت محل ہی نے انگریزوں کے خلاف فوجیوں کی رہنمائی کی اور انگریزوں کو اودھ میں کھلی شکست دی۔
اِس جانباز خاتون نے اپنے خاوند کی معزولی و گرفتاری پر سوگ منانے کے بجائے محل کا آرام و آسائش قربان کرکے انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کی تگ و دو میں خود کو جھونک دیا، بیٹے کو اودھ کا بادشاہ بنایا اور صرف گیارہ دن میں لکھنؤ سے انگریزوں کو نکال کر انقلابیوں کی قیادت خود سنبھال لی، ملکہ وکٹوریہ کے اعلان کے جواب میں ایسٹ انڈیا کمپنی سے ہندوستان کی انتظامیہ کا حق چھین لینے کا اعلان کردیا، لکھنو پر انگریزوں کے دوبارہ قابض ہونے پر فیض آباد وغیرہ کے محاذوں پر انگریز فوج کا مقابلہ کرتے ہوئے، سرحد پار نیپال چلی گئیں، نیپال کے ہی کسی گوشے میں حضرت محل کی زندگی کا چراغ گل ہوا، لیکن انگریزوں کے ہاتھ نہ آنے کا عہد پورا کرکے وہ ہندوستانی خواتین کے لیے مثال بن گئیں۔

بیگم زینت محل وہ ہیں جنہوں نے آزادی کے میدان میں تو آکر مقابلہ نہیں کیا بلکہ پردے کے پیچھے سے آزادی وطن کی خاطر کوشش کرتی رہیں، بیگم زینت محل اگر چہ براہ راست انگریزوں کا مقابلہ نہیں کیا لیکن وہ اپنے شوہر بہادر شاہ ظفر کی حوصلہ افزائی پردے کے پیچھے سے کرتی رہیں اور انگریزوں سے لڑائی کے لئے آمادہ کرتی رہیں، بیگم زینت محل آخر تک اپنے شوہر بہادر شاہ ظفر کا ساتھ دیتے رہیں یہاں تک کہ جب بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کے انہیں جلا وطن کردیا گیا تو بیگم زینت محل نے بھی جلاوطنی کی زندگی کو پسند کر لیا لیکن انگریزوں سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔

بی اماں وہ ہیں جو جنگ آزادی کے دو مجاہدین محمد علی اور شوکت علی کی والدہ تھیں، یہ وہ خاتون ہیں جنہوں نے 1921 میں آل انڈیا خواتین کانفرنس کی صدارت کی، مسلم خواتین کے طبقہ میں بی اماں کو بہت احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور وہ ایک قائد کی حیثیت رکھتی تھیں، بی اماں چاہتی تھیں کہ ہندوستان کو آزادی تو ملے ہی، مسلمانوں کو بھی ان کا مناسب حق دیا جائے۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اپنے بیٹوں مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر کو ملک کی آزادی اور حقوق مسلم کی خاطر اپنی زندگیاں قربان کرنے کی نصیحت دے رکھی تھی، اس بات کا اندازہ ان کے اس پیغام سے بھی لگایا جا سکتا ہے جو انھوں نے اپنے دو بیٹوں کو قید کے دوران بھجوایا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ “میرے بیٹوں، بہادر بنو اور لڑائی کو ترک مت کرو، معافی بھی مت مانگو۔”

بات کریں امجدی بیگم کی تو وہ مولانا محمد علی جوہر کی اہلیہ ہیں، امجدی بیگم مولانا محمد علی جوہر کی سیاسی زندگی سے ہمیشہ چڑی رہیں، امجدی بیگم کی طرح تین اور خواتین تھیں جنکا آزادی کی جد وجہد میں بہت اہم رول تھا اور جو مجاہدین آزادی کی شریک حیات بھی تھیں، جنکے بارے میں مولانا حسرت موہانی نے کہا تھا کہ اگر بیگم حسرت، بیگم آزاد، کملا نہرو نہ ہوتیں تو حسرت کسی اخبار کے ایڈیٹر ہوتے، مولانا آزاد الہلال اور البلاغ نکالتے رہتے اور جواہر لال نہرو زیادہ سے زیادہ ایک کامیاب بیرسٹر ہوتے، یہ عورتیں وفا پرست اور ایثار مجسم تھیں، انہوں نے کبھی ہم سے یہ نہ پوچھا کہ لیلائے سیاست کے پرستاروں ! تم جیل جارہے ہو، ہمارا کیا ہوگا۔

رہی بات زلیخا بیگم کی تو وہ مولانا ابوالکلام آزاد کی اہلیہ تھیں، زلیخا بیگم نے جلسے جلوس، اسٹیج یا اخبارات کی سرخیاں بنے بغیر تحریک آزادی میں بھرپور رول انجام دیا اور اپنے شوہر کے قائدانہ کردار کی وجہ سے جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا، انہیں خندہ پیشانی سے قبول کیا۔
غرض یہ کہ جنگ آزادی میں بے شمار خواتین نے ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے جد و جہد کرتے ہوئے پندرہ اگست 1947 کو باقاعدہ طور پر ملک ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرا دیا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS