ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
سات برسوں کے قطع تعلق کے بعد مشرق وسطیٰ کی دو بڑی طاقتیں سعودی عرب اور ایران نے 10 مارچ 2023 بروز جمعہ کو اچانک سے یہ اعلان کیا کہ وہ اپنے مابین تعلقات کی بحالی کے لیے راضی ہوگئے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان اس مقصد کی خاطر بات چیت کا سلسلہ گزشتہ ایک برس کی مدت سے جاری تھا اور عراق و عمان اس معاملہ میں ثالثی کا کردار ادا کر رہے تھے، البتہ کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آ رہی تھی۔ مشرق وسطیٰ امور کے تجزیہ نگاروں کو بھی کبھی ایسا محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ ان دونوں حریف طاقتوں کے درمیان جاری بات چیت کا کوئی قابل ذکر نتیجہ بر آمد ہوگا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کے درمیان کوئی ایسا مضبوط اور طاقتور ملک ثالثی کی ذمہ داریاں نہیں نبھا رہا تھا جو دونوں ممالک پر یکساں طور پر اثر انداز ہو سکے اور شک و بے اعتمادی کی صورت میں ضامن کی حیثیت سے خود کو پیش کر سکے۔ اس کمی کی تلافی اس وقت ہوگئی جب چین نے غیر متوقع ڈھنگ سے سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کا کردار نبھانے کے لیے نہ صرف اپنی دلچسپی کا اظہار کیا بلکہ خود چینی صدر شی جن پنگ نے اس کوشش کو کامیاب بنانے میں غیر معمولی دلچسپی لی اور بالآخر اس کا مثبت نتیجہ سامنے آیا۔ یہ کامیابی کتنی غیر متوقع تھی اس کا اندازہ سعودی عرب کے معروف تجزیہ نگار عبدالرحمن الراشد کے اس مضمون سے لگایا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے اس پیش رفت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’بیجنگ میں جو معاہدہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہوا ہے وہ تمام معیاروں کے اعتبار سے ایک نہایت بڑا واقعہ ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ یوں مانو جیسے کوئی بم پھوٹ گیا ہے جس کی بازگشت لگاتار سنائی دی ہے اور مستقبل میں اس کے اثرات ہماری توقعات سے کہیں بڑھ کر سامنے آئیں گے۔ ہمیں اس کی گہرائی و گیرائی اور اس کے تمام پہلوؤں نیز مستقبل قریب میں امکانات کے جو دروازے کھلیں گے ان کا انتظار کرنا ہوگا۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا ہے کہ چونکہ یہ معاملہ ایران کا ہے، اس لیے احتیاط کا پہلو ہمیشہ دھیان میں رکھنا ہوگا۔ عبدالرحمن الراشد کے اس آخری جملہ سے ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان بے اعتمادی کی فضا کتنی گہری ہے۔ بے اعتمادی کی یہی گہری فضا ہی مشرق وسطیٰ کے پورے خطہ کے لیے سوہان روح بنی ہوئی ہے۔ اس کے لیے دونوں ممالک مسلم دنیا کی قیادت کے لیے اپنی دعویداری کو لے کر اس قدر سنجیدہ ہیں کہ دونوں ہمیشہ ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان دونوں شیعہ اور سنی بلاک کی اس رقابت نے مسلم دنیا کو بھی انتشار و خلفشار کی آماجگاہ بناکر رکھ دیا ہے، البتہ اس وقت مناسب نہیں ہے کہ ان جھگڑوں کی تفصیلات یہاں درج کی جائیں۔ ابھی تو بس اس بات کی توقع کی جانی چاہیے کہ یہ دونوں طاقتیں جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں، ایک ساتھ آ جائیں اور مسلم دنیا میں بے چینی اور عدم استحکام کی جو صورت حال قائم ہے، اس کے خاتمہ کے لیے سنجیدہ کوشش کریں۔ اس موقع پر قارئین کو مختصراً یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ کیا حالات تھے جن میں دونوں ممالک نے اپنے سفارتی تعلقات کو ختم کر لیا تھا تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ اس بحالیٔ تعلقات کی کیا اہمیت ہے۔ ماضی قریب میں اس کا آغاز 2011 میں ہوا جب پورے عالم عربی میں عرب بہاریہ کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ بحرین، یمن اور شام تک اس کی گرم ہوائیں تیزی سے پہنچ چکی تھیں۔ ایران نے اس موقع کا فائدہ اٹھایا اور اپنے ماتحت تنظیموں کو شام و یمن اور بحرین میں متحرک کر دیا۔ بحرین میں سعودی عرب کی مداخلت کے بعد احتجاجوں کو ختم کرنا ممکن ہوپایا لیکن یمن میں ایران کی پروردہ جماعت حوثی لگاتار اپنے آقاؤں کے اشارہ پر کام کرتی رہی اور بالآخر نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ یمن کی عالمی طور پر معترف حکومت جس کی قیادت اس وقت عبد ربہ منصور ہادی کر رہے تھے اس کو حوثیوں نے یمن کی راجدھانی صنعاء چھوڑنے پر مجبور کر دیا اور طویل مدت تک ریاض سے یمن کے صدر اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ ملک شام میں بھی ایران نے مداخلت کی اور اپنے انقلابی گارڈ کے اعلیٰ افسر قاسم سلیمانی کی قیادت میں وہاں کی اپوزیشن جماعتوں کو کچل کر رکھ دیا۔ اس کے علاوہ حزب اللہ کے مسلح افراد نے بھی شام میں ایرانی مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ یہ سارے واقعات چل ہی رہے تھے کہ اسی دوران 2 جنوری 2016 کو سعودی عرب نے تقریباً 50 لوگوں کو پھانسی دے دی۔ اس پھانسی والے واقعہ میں اہم بات یہ تھی کہ ان میں ایک بڑے شیعی عالم نمر النمر بھی تھے۔ جب ان کی پھانسی کی خبر عام ہوئی تو تہران میں النمر کے حامیوں میں بڑا اشتعال پیدا ہوگیا اور وہ احتجاج کرتے ہوئے سعودی عرب کے سفارت خانہ تک پہنچ گئے اور بڑا واویلا مچایا۔ اگر معاملہ اتنا ہی ہوتا تو شاید صورت حال کو سنبھالا جا سکتا تھا۔ لیکن معاملہ اس سے آگے بڑھ گیا۔ ایران کے اعلیٰ ترین لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے قسم کھا لی کہ وہ اس پھانسی کے خلاف الہی انتقام لیں گے۔ اس واقعہ کے بعد 3 جنوری کو سعودی عرب نے ایران کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو ختم کر لیا۔ اس کے بعد بھی حالات کی کشیدگی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ 7 جنوری 2016 کو ایران نے اپنے ازلی حریف سعودی عرب پر یہ الزام عائد کر دیا کہ یمن میں واقع اس کے سفارت خانہ پر سعودی عرب نے فضائی حملہ کیا ہے۔ سعودی عرب نے اس کو ایران کا پروپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے اس الزام کو مسترد کر دیا۔ اس کے بعد 29 مئی 2016 کو ایران نے سیاسی جھگڑے کو مذہبی رنگ اس وقت دے دیا جب اس نے اعلان کر دیا کہ وہ اپنے حاجیوں کو سعودی عرب حج کی ادائیگی کے لیے روانہ نہیں کرے گا۔ ایران کا الزام تھا کہ سعودی عرب اس کے حاجیوں کو ’’سبوتاژ‘‘ کرے گا اور ان کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں دی گئی ہے۔ یہ دونوں ممالک اس کے بعد بھی مسلسل برسر پیکار رہے اور 14 ستمبر 2019 کو جب سعودی عرب کے تیل کے پروسیسنگ کی سہوتوں پر حملہ ہوا اور اس کے نتیجہ میں سعودی عرب کا نصف سپلائی چین متاثر ہوا تو اس موقعہ پر بھی سعودی عرب نے ایران کو اس کے لیے مورد الزام ٹھہرایا لیکن ایران نے اس بات سے انکار کیا، البتہ ایران کی پروردہ یمنی جماعت حوثی نے اس حملہ کی ذمہ داری قبول کی تھی جو بالواسطہ طور پر ایران کے مفاد میں کام کرتی ہے۔ اب تک کے دور کو مشرق وسطیٰ میں ایرانی عروج کے دور سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ایران کو پہلا دھچکا تب لگا جب 3 جنوری 2020 کو امریکہ نے ڈرون حملہ میں قاسم سلیمانی کو بغداد میں ختم کر دیا۔ قاسم سلیمانی نے اب تک اکیلے ہی اس خطہ کو ایران کے کنٹرول کے لائق بنایا تھا۔ اس کی موت کے بعد ایران اس کا کوئی بدل پیش نہیں کر سکا اور لبنان و یمن اور عراق و شام ہر جگہ ایران کا اثر و رسوخ کم ہونے لگا۔ یمن کے حوثیوں تک پہنچنے والے ہتھیاروں پر پابندیاں عائد کی جانے لگیں اور بالآخر اقوام متحدہ کی نگرانی میں جنگ بندی ہوئی جس کی مدت اکتوبر 2022 میں ہی ختم ہو چکی ہے لیکن اس پر عمل اب تک جاری ہے۔ عراق میں بھی ایرانی ملیشیاؤں کے لیے دقتیں بڑھتی گئیں اور سیاسی و اقتصادی حل کا راستہ ڈھونڈا گیا جس کے لیے سعودی عرب نے خاطر خواہ محنت کی۔ اس کے علاوہ ایران کا سیٹیلائٹ اسٹیٹ لبنان حزب اللہ کے باوجود بکھراؤ کا شکار ہوگیا اور سعودی عرب نے تب تک تعاون سے انکار کر دیا جب تک وہ ایران کے اثر و رسوخ سے باہر نہ آ جائے۔ سعودی تعاون کے بغیر آج لبنان کی حالت ناگفتہ بہ بنی ہوئی ہے۔ ان حالات میں 9 اپریل 2021 کو ایران اور سعودی عرب نے پہلی بار بات چیت کا سلسلہ بغداد میں شروع کیا اور ستمبر 2021 تک چار راؤنڈ بات چیت چلی جن میں عراق اور عمان نے ثالثی کی ذمہ داریاں نبھائیں، البتہ 13 مارچ 2022 کو ایران نے ایک بار پھر بات چیت کے سلسلہ سے خود کو الگ کر لیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس بار بھی سعودی عرب نے جن لوگوں کو پھانسی دی تھی ان میں 41 شیعہ شامل تھے۔ بس فرق یہ تھا کہ ایران نے اس کو ایک مسئلہ بنانا مناسب نہیں سمجھا۔ 21 اپریل 2022 کو پانچویں راؤنڈ کی بات چیت کا آغاز ہوا۔ 19 اکتوبر 2022 کو خامنہ ای کے مشیر اعلیٰ نے سعودی عرب میں ایرانی سفارت خانہ کھولنے کی پیشکش کردی۔ اس کے بعد 9 دسمبر 2022 کو چینی صدر شی جن پنگ نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور اس کے ما بعد 16 فروری 2023 کو ایرانی صدر رئیسی کا دورۂ چین پیش آیا۔ اب جمعہ کو سعودی- ایران بحالیٔ تعلقات کی بات اچانک سامنے آئی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چین نے گویا امریکہ کو ہٹاکر عالمی قیادت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے کا اعلان کر دیا ہے جس کا راستہ ایک بار پھر مشرق وسطیٰ سے گزر رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں امریکہ و چین کی رسہ کشی پر انشاء اللہ اگلے کالم میں بات ہوگی۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں