بحر ہند کے جزیرہ نما ملک کی اہمیت: صبیح احمد

0

صبیح احمد

مالدیپ میں جب سے نئے صدر محمد معزو کی حکومت آئی تھی، ہندوستان کے ساتھ اس کے تعلقات مسلسل خراب ہوتے جا رہے تھے۔ کشیدگی اس قدر بڑھ گئی تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی مذاکرات بھی ٹھیک سے نہیں ہوپا رہے تھے۔ لیکن 9 سے11 اگست تک وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے مالدیپ کے سہ روزہ دورے کو ہندوستان اور بحر ہند کے اس جزیرہ نما ملک کے درمیان تعلقات میں بہتری کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ دورہ ہند مخالف مہم چلانے والے محمد معزو کے صدر منتخب ہونے کے بعد نئی دہلی-مالدیپ کے تعلقات میں آنے والی تلخی کے بعد ہوا ہے۔ ناخوشگوار تعلقات کے پس منظر میں جے شنکر کے دورے کا مقصد ہندوستان اور مالدیپ کے درمیان شراکت داری کو مزید مضبوط کرنا تھا۔ اس دورے سے چین کی پریشانیوں میں اضافہ یقینی ہے۔ ادھر ایک اور قریب ترین پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں پرتشد ہنگامہ آرائی اور ایک جمہوری طور پر منتخبہ حکومت کی بے دخلی کے بعد جے شنکر کا مالدیپ کا دورہ سفارتی طور پر کافی اہمیت کا حامل ہے۔
جے شنکر کا یہ دورہ مالدیپ کے صدر محمد معزو کے دورۂ ہند کے بعد ہوا ہے۔ محمد معزو مودی حکومت کی حلف برداری میں شرکت کے لیے دہلی آئے تھے۔ وزیر خارجہ کا دورہ اس لیے بھی بہت اہم ہے کہ انہوں نے کشیدگی کے باعث جنوری 2023 سے مالدیپ کا دورہ نہیں کیا تھا۔ مالدیپ ہندوستان کا ایک اہم سمندری پڑوسی ملک ہے۔ یہ ہندوستان کی ’نیبر ہڈ فرسٹ‘(پڑوس پہلے) پالیسی اور ہمارے وژن ’ساگر‘ کے نقطہ نظر سے بہت اہم ہے۔ اس دورے کا مقصد شراکت داری کی مضبوطی اور دوطرفہ تعلقات کو آگے لے جانے کے راستے کی تلاش تھا۔ ہندوستانی وزیرخارجہ کا جس طرح خیر مقدم کیا گیا اور مالدیپ کی جانب سے اس دورے کو جتنی اہمیت دی گئی، اس کی بنیاد پر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ دورہ کافی حد تک کامیاب رہا۔ اس دورے کی اہمیت اس لیے بھی کافی زیادہ ہے کیونکہ صدر معزو ہندوستان مخالف مہم چلا کر اقتدار میں آئے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے ہندوستان کی طرف سے تحفے میں دیے گئے ہیلی کاپٹر اور ڈورنیئر طیارے چلانے والے تقریباً 80 ہندوستانی فوجی اہلکاروں کو ہٹانے تک کا مطالبہ کر ڈالا تھا۔ اب ان فوجی اہلکاروں کی جگہ ہندوستانی سویلین فوجی اہلکاروں نے لے لی ہے۔
محمد معزو کو چین کا حامی تصور کیا جاتا ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد وہ روایت شکنی کر کے چین کا دورہ کر بھی چکے ہیں۔ اس سے قبل مالدیپ کے صدر کی یہ روایت رہی تھی کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد وہ اپنے پہلے دورہ پر ہندوستان آتے رہے ہیں۔ صدر معزو نے چین کے ساتھ مالدیپ کے تعلقات کو بہت آگے بڑھایا ہے۔ اس سال کے شروع میں چین کے دورہ کے موقع پر صدر ژی جنپنگ کے ساتھ ملاقات کے دوران معزو نے 20 معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔ دونوں رہنماؤں نے مل کر کام کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ معزو نے چین کے ساتھ فوجی معاہدہ بھی کیا تھا جو ہندوستان کو قطعی پسند نہیں آیا تھا، کیونکہ مالدیپ ہندوستان کا قریب ترین پڑوسی ہے۔ مالدیپ بحر ہند میں واقع ہے جو کہ تزویراتی لحاظ سے ہندوستان کے لیے کافی اہم ہے۔ مالدیپ کے صدر نے چینی ’جاسوس جہازوں‘ کو مالدیپ کے پانی میں داخل ہونے کی بھی اجازت دے دی ہے۔ سری لنکا میں بھی چین نے اسی طرح بحری جہاز بھیجے تھے لیکن بعد میں ہندوستان کے بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے سری لنکا نے ایک سال کے لیے ایسے جہازوں کی آمد پر پابندی لگا دی۔ جب صدر معزو نے ہندوستانی فوجی اہلکاروں کو نکالنے کی بات کی تو کشیدگی کافی بڑھ گئی تھی۔ یہ فوجی اہلکار جن کی تعداد 100 سے کم تھی، بنیادی طور پر بحر ہند کے جزیرہ نما ملک میں انسانی امداد اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے کاموں میں مصروف تھے۔ جزیرہ نما ملک پر ہندوستان کے احسانات کا جب اندازہ ہوا تو صدر معزو کے رویے میں اچانک کافی تبدیلی آگئی اور انہیں ہندوستان کی ضرورت کا بھرپور احساس ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے ہندوستان کے تئیں گرمجوشی دکھانی شروع کر دی۔ یہاں تک کہ جب انہیں وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں مدعو کیا گیا تو وہ خود شریک ہوئے۔
بہرحال وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا مالدیپ کا حالیہ دورہ ہندوستان اور مالدیپ کے تعلقات کے لیے ایک اچھی علامت ہے۔ اس سال جون میں وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جے شنکرنے پہلی بار مالدیپ کا دورہ کیا ہے۔ یہ دورہ ایسے وقت ہوا جب اس سال جون میں وزیراعظم نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے صدر معزو نئی دہلی آئے۔ اس سے قبل مالدیپ کے وزیر خارجہ موسیٰ ضمیر نے رواں سال مئی میں ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔ اس دوران انہوں نے کہا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمی تھی اور اب ہم اس مرحلے سے آگے بڑھ چکے ہیں۔ اب تو مالدیپ ہندوستانیوں کو راغب کرنے کے لیے ہندوستان میں ’سیاحتی روڈ شو‘ بھی چلا رہا ہے، جس میں وہاں کے وزیر سیاحت ابراہیم فیصل ایک فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ نئی دہلی کی ’نیبر فرسٹ‘ پالیسی کے تحت مالدیپ ہندوستان کے لیے تزویراتی طور پر کافی اہم ہے، کیونکہ یہ بحر ہند میں واقع ہے۔ ہندوستان اور مالدیپ کے درمیان نسلی، لسانی، ثقافتی، مذہبی اور تجارتی تعلقات قدیم زمانے سے ہیں اور قریبی، دوستانہ اور کثیر جہتی ہیں۔ حالانکہ 2008 سے مالدیپ میں سیاسی عدم استحکام نے ہندوستان-مالدیپ کے تعلقات کے لیے خاص طور پر سیاسی اور اسٹرٹیجک شعبوں میں اہم چیلنجز پیدا کیے ہیں۔
اگرچہ ہندوستان مالدیپ کا ایک اہم شراکت دار بنا ہوا ہے، لیکن نئی دہلی اپنی پوزیشن کے حوالے سے لاپرواہ نہیں رہ سکتا اور اسے مالدیپ میں ہونے والی پیش رفت پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کو جنوبی ایشیا اور آس پاس کی سمندری حدود میں علاقائی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے انڈو پیسفک سیکورٹی خطہ میں اہم کردار ادا کرنا ہوگا، کیونکہ ہندوستان کے پڑوس میں چین کی اسٹرٹیجک موجودگی میں اضافہ ہوا ہے۔ جنوبی ایشیا میں چین کی ’اسٹرنگ آف پرل‘ (موتیوں کی مالا) کی تعمیر میں مالدیپ ایک اہم ’موتی‘ کے طور پر ابھرا ہے۔ حالانکہ اس سال مارچ میں ہندوستان کے خلاف اپنی خارجہ پالیسی کے موقف سے اچانک تبدیلی کے بعد صدر معزو نے کہا ہے کہ ہندوستان ان کے ملک کا سب سے قریبی اتحادی بنا رہے گا اور امید ظاہر کی کہ نئی دہلی بحر ہند کے جزیرہ نما ملک کو قرض کی ادائیگی میں راحت فراہم کرے گا۔ انہوں نے یہ بھی امید ظاہر کی کہ ہندوستان گزشتہ چند سالوں میں ان کے ملک کی حکومتوں کے ذریعہ لیے گئے بھاری بھرکم قرض کی ادائیگی کے لیے ’قرض راحت‘ کے اقدامات کو شامل کرے گا۔ ہندوستان نے یہ درخواست قبول کرلی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے مالدیپ کی وزارت خزانہ کے ذریعہ جاری50ملین ڈالر کے سرکاری ٹریژری بل کو پچھلی سبسکرپشن کی میچورٹی پر مزید ایک سال کے لیے سبسکرائب کیا ہے۔ حالیہ دنوں میں ہندوستان مالدیپ کے اڈو میں غیر تباہ کن سامان بھیج رہا ہے۔ ان تمام باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے جے شنکر کا مالدیپ کا موجودہ دورہ کافی اہم ہو جاتا ہے۔
ہندوستان کے قریب ترین پڑوس میں معاشی اتھل پتھل کے درمیان، بشمول بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کا ایک عوامی بغاوت کے نتیجے میں ملک سے فرار ہونا، 2021 میں فوجی بغاوت کے بعد میانمار میں خانہ جنگی، نیپال میں بار بار حکومت میں تبدیلیاں اور بحر ہند کا دوسرا پڑوسی سری لنکا اب بھی 2022 میں پیدا ہونے والے معاشی بحران سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے، جے شنکر کا دورہ مالدیپ نہ صرف نئی دہلی کے لیے بلکہ خطہ ہند-بحرالکاہل میں چینی تسلط کو روکنے کی کوشش کرنے والی دیگر تمام اہم طاقتوں کے لیے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ خطہ جاپان کے مشرقی ساحل سے لے کر افریقہ کے مشرقی ساحل تک پھیلا ہوا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS