اے یو آصف
میڈیا مانیٹرنگ کی تاریخ میں بھی 25جون ’یوم سیاہ‘ بن گیا جبکہ 1975میں ہندوستان میں ایمرجنسی نافذ کیے جانے کا یہ دن جمہوریت اور میڈیا کے لیے سیاہ تھا ہی۔ واضح رہے کہ 50برس قبل ایمرجنسی کے لگتے ہی سنسر ڈپارٹمنٹ فعال ہوگیا تھا اور متعدد اخبارات و رسائل کے بعض اداریے اور مضامین سیاہی لگ کر ہی شائع ہوتے تھے۔ خیر یہ تو ماضی کی بات تھی، آئیے ذرا غور کریں کہ میڈیا مانیٹرنگ کی تاریخ میں بھی یہ دن سیاہ کیسے بن گیا۔ دراصل یہ وہ دن تھا جب آفتاب طلوع ہوا اور اس کی روشنی کرۂ ارض پر پھیلی تو میڈیا مانیٹرنگ گزشتہ سات برس میں پہلی بار ’نیوز مین آف انڈیا‘ کے لقب سے معروف شفیق الحسن کی پیشن سروس (Passion Service) کی روشنی سے محروم تھی۔ معلومات اور علم کے شائقین واٹس ایپ اور فیس بک پر اسے نہیں دیکھ کر مغموم تھے تو بڑے چھوٹے سبھی صحافی اسے بری طرح مِس کررہے تھے۔ انگریزی روزنامہ ’دی ہندو‘ کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر ضیاء الاسلام کے الفاظ میں ’’یہ پہلی صبح تھی جب میں نے حسب عادت آپ (شفیق الحسن)کے نمبر(واٹس ایپ) کو خبروں کے لیے لگایا۔‘‘ ظاہر سی بات تھی کہ انہیں دیگر متعدد صحافیوں کی مانند مایوسی ہی ہاتھ لگی۔
’پیشن‘ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ اس نے بڑی محنت سے معتبریت کے لحاظ سے خبروں اور مضامین کو منتخب کرکے ترسیل کا ایسا سلسلہ قائم کیا تھا کہ عام صحافی اس پر بھروسہ اور انحصار کرتے تھے کیوں کہ وہ فیک نیوز سے پاک و صاف ہوا کرتا تھا۔ آخر یہی وجہ تو ہے کہ قدرداں صحافیوں میں چوبیس گھنٹے کے اندر ضیاء الاسلام کے علاوہ جو نام سامنے آئے ، ان میں سنتوش بھارتیہ، قربان علی، شاہد صدیقی، فوزیہ عرشی، مرزا اے باقی بیگ، محمد وجیہہ الرحمن، وی ایم ابراہیم، فیروز بخت احمد، خورشیدوانی، تحسین منور، اسمٰعیل وائی سید، فرحت عثمانی، عبدالواحد آزاد، دلنوازپاشا، فیصل علی، ودودساجد اور عبدالماجد نظامی قابل ذکر ہیں۔ اس اہم فہرست میں صحافیوں کے علاوہ نجیب جنگ، ششی تھرور، ایس وائی قریشی، کنوردانش علی، مہیش بھٹ، شاہنوازخاں(ڈی آئی جی، سی آر پی ایف)، کے جے ایس پرساد را۔(نیویارک)، ستیش شرما، نوید حامد، پروفیسر ایم جے وارثی(اے ایم یو)، سراج الدین قریشی، کلیم الحفیظ، محمد رضا فراز، ڈاکٹر سلمان اسد، فیضان مصطفی(وی سی چانکیہ لاء یونیورسٹی)، پروفیسر محمد افشارعالم(وی سی، جامعہ ہمدرد)، ایس ایم خاں، جتیندر پال سنگھ، فرید احمد، کیپٹن کامران نظیر، ہلال احمد(سی ایس ڈی ایس)، عمران ایم خاں، عبداللہ چودھری، صلاح الدین صدیقی، محمد احتشام الحق(کولکاتہ)، ڈاکٹر احسان اللہ قریشی(رکن جوڈیشری انگلینڈ)، پروفیسر ریحان خاں ثوری(جامعہ ملیہ اسلامیہ)، پروفیسر انوار پاشا، سراج احمد، محمد خلیق الرحمن(اے آئی سی سی کو آرڈی نیٹر)، حفیظ الرحمن(جے این یو)، ایم ثاقب، ڈاکٹر اطہر، الٰہی خاں اطہر، ایم اے جوہر(آدتیہ گروپ)، مزین عزیز(سعودی عرب) و دیگر اہم شخصیات کی لمبی قطار ہے۔ اس سے شفیق الحسن اور ان کی خدمات جلیلہ کے اعتراف کا اندازہ ہوتا ہے۔
میڈیا مانیٹرنگ میں شفیق الحسن کی پیشن سروس یقینا نمایاں اور کامیاب ہوکر ابھری ہے۔ 2,537ایام پر مشتمل 7برسوں کا یہ شاندار تجربہ ہے۔ 24جون 2017کو یہ مشن شروع کیا گیا تھا اور اس کا محرک 22جون 2017کو ریاست ہریانہ میں بلبھ گڑھ کے کھنڈاولی گاؤں کے 15سالہ بے گناہ اور معصوم حافظ جنید کی رمضان کے آخری عشرہ میں دہلی سے بلبھ گڑھ کی جانب جاتی ہوئی ٹرین میں ماب لنچنگ کی خبر ہے۔ انہوں نے اس سانحہ کے تیسرے روز سے ہی اپنی میڈیا مانیٹرنگ کا کام شروع کردیا تھا جو کہ 2023 سے ڈیجیٹل سروس میں منتقل ہوگیا۔ راقم الحروف خود حافظ جنید کے اس سانحہ کے فوراً بعد بحیثیت ایڈیٹر چوتھی دنیا اردو کوریج کے لیے ان کے گاؤں کھنڈاولی جاچکا ہے۔ اس وقت اس گاؤں کا منظر بڑا ہی دردناک تھا۔ دہلی یونیورسٹی کے ان دنوں پروفیسر اپوروانند نے اس سانحہ سے متاثر ہوکر انگریزی اخبار میں اپنا مشہور مضمون ’مائی سن جنید‘ لکھا تھا۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ شفیق الحسن نے سچائی کو سامنے لانے کے لیے اس دردناک واقعہ سے منسلک خبروں کی ترسیل سے اپنی مانیٹرنگ سروس کا آغاز کیا اور مسلسل سات برسوں تک بحسن و خوبی چلایا۔ یہ ان کے ہی دل گردے کا کام تھا کہ تن تنہا رضاکارانہ طور پر اسے اب تک جاری رکھا۔ اب اپنی موجودہ صحت کے پیش نظر اسے لمبا بریک دینا چاہتے ہیں۔
شفیق الحسن کی اس میڈیا مانیٹرنگ سروس نے اپنی معتبریت اور مقبولیت کو ثابت کیا ہے۔ تبھی تو کیا صحافی، دانشوران ودیگر اہم شخصیات سبھی ان کی زبردست خدمات کا اعتراف کررہے ہیں اور اس کے اظہار کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس اعتراف کے علاوہ ان سبھی کے نزدیک ضرورت و اہمیت کا پہلو بھی پیش نظر ہے جسے آزادی کے بعد سے مستقل محسوس کیا جاتا رہا ہے اور اس ضمن میں متعدد کوششیں بھی ہوتی رہی ہیں مگر ان سب کوششوں میں شفیق الحسن کی اس کوشش کو سب سے زیادہ مقبولیت ملی ہے۔ ویسے جائز لیتے وقت یہ نکتہ بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ پیشن سروس میں صرف منتخب قومی و بین الاقوامی مواد بشمول اسلام و مسلمانوں سے متعلق چیزیں جوں کی توں پیش کردی جاتی رہی ہیں جبکہ ضرورت اس بات کی بھی رہی ہے کہ ان میں سے بعض مواد کا تجزیاتی مطالعہ ہوتا اور جس انداز میں سیدشہاب الدین اپنے ماہنامہ ’مسلم انڈیا‘ میں ریسپانس لیا کرتے تھے، اس انداز میں ریسپانس لیا جاتا ، چاہے ایشو کوئی بھی کیوں نہ ہو۔ لیکن اس کے لیے الگ سے نظم کرنے کی ضرورت درکار ہے۔
ماضی میں جو چند کوششیں میڈیا مانیٹرنگ کے میدان میں ہوئی ہیں، ان کا تذکرہ یہاں خالی ازدلچسپی نہیں ہوگا۔ ایک کوشش 1989میں معروف مسلم رہنما اور سابق مرکزی نائب وزیر قانون و گورنر بہار مرحوم محمد یونس سلیم کی سرپستی میں ڈاکٹر سید ضیاء الدین احمد ندوی(فی الوقت چیئرمین الحکیم فاؤنڈیشن)، بزنس میں مرحوم شاہد حسن اور سمیع الاسلام اور سماجی کارکن عبدالمالک کے علاوہ راقم الحروف کے ساتھ شروع ہوئی تھی۔ یہ مانیٹرنگ سروس یونس سلیمؒ کی قائم کردہ اسلامک کونسل آف انڈیا کے تحت مہندیان، پرانی دہلی میں واقع مسجد نرسری سے متصل ایک کمرے میں چلتی تھی۔ اس کے فعال کارکنان میں صحافی حامد حسین، ثاقب یٰسین اور سلیم رضا کے علاوہ مشہور دانشور انجینئر محمد رئیس شامل تھے۔ یہ مانیٹرنگ سروس اس لحاظ سے مختلف تھی کہ خبروں و مضامین کا انگریزی، ہندی اور اردو اخبارات سے منتخب کرکے جائزہ لیا جاتا تھا اور پھر ان ہی اخبارات میں مراسلات و مضامین کے ذریعہ جوابات دیے جاتے تھے اور وہ شائع بھی خوب ہوا کرتے تھے۔ اس سروس کو گجرات کے دانشور و صحافی اور تاجر اقبال ورق والا جو کہ بعد میں ’خلیج ٹائمز‘ دبئی کے منیجنگ ڈائریکٹر بھی رہے کا تعاون بھی حاصل تھا۔ مگر تقریباً دو برس بعد یہ مانیٹرنگ سروس دم توڑگئی۔ ویسے اس کے اثرات آج بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔
اسی طرح کی ایک کوشش معروف دانشور ، صحافی اور ماہر قدیم دستاویز خالد صابر اور ڈاکٹر محمد منظور عالم کی سرپرستی میں یونائیٹڈ ماس میڈیا جس کا ایک جز فانا (فیچر اینڈ نیوز اینا لیسس)نام کا خبر وفیچر سروس تھا، کے تحت 1980اور 1990کی دہائیوں میں ہوئی اور دوسری کوشش ہنوز کسی نہ کسی حالت میں چل رہی ہے۔ جبکہ پہلی کوشش محفوظ ضرور ہے یہ دونوں سروسز ہارڈ کاپی میں دستیاب رہیں۔ ویسے یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ یہ دونوں سروسز الگ الگ وقت میں جس شخص کی محنت اور مہارت سے مستفیض ہو کر غیر ڈیجیٹل دور میں بھی منظم ومربوط ہوئیں وہ ایڈووکیٹ صغیر احمد تھے۔ ان دنوں یہ دعویٰ کے ساتھ کہاکرتے تھے کہ اخبارات کے موضوعاتی تراشے الگ الگ فائل میں نمبر ڈال کر اس طرح سلیقے او رنظم سے رکھے گئے ہیں کہ طلب کرنے پر کسی بھی موضوع پر مواد کو 40سے لے کر 60سیکنڈوں میں پیش کیا جاسکتا ہے ۔ راقم الحروف کا تجزیہ ہے کہ ڈیجیٹل کی طرح ان دونوں جگہوں پر ایسی ہی سروسز اسی وقت دستیاب ہوجا یا کرتی تھیں ۔ منصوبوں میں دونوں ادارو ںمیں ان کے مواد کے تجزیاتی مطالعے اور آگے کے کام کی بات شامل تھی لیکن اس سلسلے میں کوئی ٹھوس کام نہیں ہوسکا۔ ویسے دونوں ادارو ںمیں الگ الگ موضوع کے لحاظ سے ہزاروں فائلیں موجود اور محفوظ ہیں۔ ان تفصیلات کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ شفیق الحسن نے سات برسوں کا جو ذخیرہ پرنٹ اور ڈیجیٹل میں جمع کررکھا ہے ، اس سے بھی قبل 1980کی دہائی سے ان دونوں مذکورہ بالا اداروں میں اخبارات کے موجود قدیم مواد اور تمام موضوعاتی مواد بڑے ہی مفید ثابت ہوسکتے ہیں ۔ خالد صابر جو کہ ان دنوں صاحب فراش ہیں، 1980کی دہائی کے آخر میں نیوز فرام انڈیا، (News From India )نام کا ایک ماہنامہ نکالا کرتے تھے جس میں اس کا منتخب مواد شائع ہوتا تھا اور اندرون وبیرون ملک بہت مقبول بھی تھا۔ کچھ مواد تو اس ماہنامہ کی فائلوں میں آج بھی مل سکتا ہے۔
76سالہ کیڈر بیٹر معروف تنظیم جماعت اسلامی ہند جس نے ہندوستان کی تقریباً ڈیڑھ درجن علاقائی زبانوں میں انگریزی ، ہندی، عربی اور اردو کے علاوہ اخبارات ورسائل ، ویب سائٹس اور چینل کا سلسلہ ابتدا سے ہی وقتاً فوقتاً قائم کررکھا ہے، نے میڈیا مانیٹرنگ پر بھی توجہ دی ہے۔ نئی دہلی میں واقع مرکز جماعت میں فروری 2008میں روزانہ میڈیا مانیٹرنگ کے لیے قائم نیوز ڈائجسٹ کو ترتیب دینے والے پہلے مدیر انوار الحق بیگ کا کہنا ہے کہ اخبارات ورسائل میں شائع شدہ مختلف ایشوز پر مواد سے تنظیم اور اس کے ذمہ داران کو واقف رکھنے کے لیے اس سروس کا قیام عمل میں آیا تھا مگر بعد میں اس کے مواد معلومات اور علمی ذوق رکھنے والے افراد کو بھی قابل ذکر تعداد میں ای میل اور واٹس ایپ کے ذریعہ بھیجے جانے لگے۔ اس طرح 2020میں ان افرا دکی تعداد چار ہزار تک پہنچ گئی جن میں مختلف زبانوں کے صحافی حضرات بھی شامل تھے۔ چونکہ اس کا مواد عموماً شام کو ریلیز کیا جاتا تھا، صحافیوں کے درمیان یہ کافی مقبول ہو گیا تھا اور وہ اس سے اپنی اسٹوریز فائل کرتے وقت استفادہ بھی کرتے تھے ۔ لیکن جماعت نے شام کو مواد کے ریلیز ہونے سے تنظیمی طور پر بہت زیادہ فائدہ نہ اٹھانے کی بنا پر اسے 2020میں پونے میں سکونت پذیر مشہور ومعروف کالم نویس اور دانشور ارشد شیخ کے حوالے کردیا اور وہ اسے روزانہ صبح خبروں کے عنوانات اور اس کے لنک (Link)کے حوالے کے ساتھ تقریباً دو ہزار افراد کو ارسال کرنے لگے۔ فی الوقت یہ انہینسڈ (Enhanced)نیوز ڈائجسٹ کے نام سے اپنی خدمت انجام دے رہا ہے۔ اس کے نگراں عارشد شیخ اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عمومی طور پر منظم میڈیا مانیٹرنگ سروس کی یقینا ضرورت ہے جو کہ نہ صرف مواد کو پیش کرے بلکہ ان مواد کا تجزیاتی مطالعہ کرکے حسب ضرورت اقدامات کرے۔ وہ اپنے پیش رو انوار الحق بیگ کی محنت اور مہارت کو سراہتے بھی ہیں۔ (مانیٹرنگ کی کی یہ سروس تو انگریزی میں انجام دی جا رہی ہے۔ قومی زبان ہندی میں بہار لوک سمواد ، Bihar Lok Samvad)کے بینر تلے اکتوبر 2020نے پٹنہ سے سید جاوید حسن کی نگرانی اور سمیع احمد کی مہارت کے ساتھ اپنی خدمات مسلسل دے رہا ہے۔ سمیع احمد جو کہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونی کیشن نئی دہلی سے فارغ ہیں اور ممتاز ٹی وی صحافی نلینی سنگھ کے علاوہ بہار کے چند شہروں میں ہندی روزنامہ ’ دینک ہندوستان‘ کی مختلف اہم ذمہ داریوں کو ادا کرچکے ہیں، اس کے پرنٹ سیکشن کو دیکھتے ہیں جبکہ یوٹیوب ودیگر ذمہ داری کو بہار جماعت کے میڈیا انچارج سید جاوید حسن اداکرتے ہیں۔ بہار لوک سمواد ریاس کے چار بڑے ہندی اخبارات کی مانیٹرنگ کرتا ہے اور تقریباً دو ہزار تعلیم یافتہ طبقے میں واٹس ایپ ودیگر ذرائع سے جاتا ہے۔ سمیع احمد کہتے ہیں کہ اس کی افادیت اور ہردلعزیزی کا تقاضہ ہے کہ ہندی اخبارات میں اس کا دائرہ کار ہندی بیلٹ کے دیگر علاقوں میں بھی بڑھنا چاہیے اور اس کی پہنچ میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔ سمیع احمد کے مطابق اس کا فوکس چھپی اوران چھپی (Chhapi aur Unchhapi)دونوں طرح کے مواد پر ہوتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ معروف صحافی اجیت انجم نے ٹی وی اور یوٹیوب کے تعلق سے کچھ دنوں تک یہ کوشش کی تھی اور یہ پرنٹ اور الیکٹرانک دونوں میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی منظم کوشش ہے، لہٰذا اس کا دائرہ کار ہر لحاظ سے بڑھنا چاہیے کیونکہ اس سے وہ خبریں جو کہ اخبارات کے صفحات میں دب کر رہ جاتی ہیں ، توجہ پاتی ہیں اور موضوع بحث بنتی ہیں۔ اس منظم کوشش کے محرک دراصل خود مشہور عالم دین اور امیر حلقہ بہار مولانا رضوان احمد اصلاحی ہیں۔
میڈیا مانیٹرنگ کی اہمیت ضرورت اور افادیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ میڈیا مانیٹرنگ کی بنیاد پر کتنا بڑا اور اہم کام کیا جاسکتا ہے، اس کی بہترین مثال ایمرجنسی کے ایام میں پبلک اوپینن ٹرینڈس (POT)کا ٹائمز آف انڈیا کے مشہور ومعروف صحافی راجندر سرین کے ذریعہ نئی دہلی میں قائم تھا۔ اس سے کئی بڑے صحافی بشمول دیویندر چنتن (ـDevender Chintan) وابستہ تھے۔ اس کے قیام کا پس منظر یہ ہے کہ ان دنوں ہندوپاک کے درمیان کسی بھی قسم کا تعلق حتی کہ پوسٹل سروس (Postal Service)بھی بند تھا۔ پڑوسی ملک کے تعلق سے واقفیت رکھنے کی غرض سے پاکستان کے تمام اخبارات ورسائل کو ہوائی جہاز سے دوسرے ملک کے راستے سے منگوا یا جاتا تھا اور پھر اردو و انگریزی اس کی خبروں اور مضامین پر مبنی انگریزی میں مواد تیار ہو کر ملک کے اخبارات ورسائل میں کمرشیل بنیاد پر روزانہ اور ہفتہ وار بھیجا جاتا تھا اور وہ POTکے حوالے سے چھپتا تھا۔ اس سے تمام پابندیوں کے باوجود دونوں ممالک ایک دوسرے کے حالات سے واقف رہنے لگے۔ اس طرح دور کے پڑوسی کو قریب لانے میں میڈیا مانیٹرنگ کے ذریعہ یہ کوشش بہت ہی معاون ومددگار ثابت ہوئی۔
شفیق الحسن کی پیشن سروس کے بند ہونے کی خبر سے ایسا لگتا ہے کہ میڈیا مانیٹرنگ خود موضوع بحث بن گئی ہے اور اس کے میر کارواں اور روح رواں ایک ہیرو بن کر ابھرے ہیں۔ ان کی سات سالہ خدمات کا یہ اثر ہوا ہے کہ ان کو حکومت ہند کی جانب سے پدم ایوارڈ دیے جانے کا مطالبہ شروع ہوگیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ مطالبہ کرنے والوں میں خود دہلی کے سابق ایل جی گورنر نجیب جنگ شامل ہی نہیں ، سر فہرست ہے۔ واٹس ایپ اور فیس بک پر پذیرائی کرنے والوں کا تانتا لگ گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ شفیق الحسن نے صحت کے گرائونڈ پر 24جون سے لمبے بریک پر جانے کا اعلان کیا ہے جو کہ فی الوقت مانیٹرنگ سروس کی تعطلی کا نوٹس ہے۔ بجائے اس کے کہ خیر خواہ حضرات ان سے ان کی عملی دشواریوں اور ممکنہ حل پر بات کرتے تاکہ یہ سروس ان کی سرپرسی ہی میں قائم دائم رہے اور انہیں ایک تجزیہ کار ٹیم ودیگر سہولیات فراہم کیا جاسکے مگر اس کے برعکس ہمت افزائی کے بدلے خراج تحسین پیش کرنے کا ایسا تہلکہ شروع ہوگیا ہے کہ مانو کوئی وفیات(Obituary)لکھی جارہی ہے۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ خراج تحسین پیش کرنے والوں میں اب نائب امیر جماعت اسلامی ہند ملک معتصم خاں کا نام نامی بھی دیکھا جارہا ہے جبکہ خود ان کی تنظیم اور ا سکے افراد کے ذریعہ کی گئی بعض کوشش 16برس سے جاری ہے۔ مجموعی طور پر خراج تحسین پیش کیے جانے پر جب شفیق الحسن سے بات ہوئی تو وہ کہنے لگے کہ ’’ میں نے تو سات برس قبل اس مانیٹرنگ سروس کی شروعات معصوم بچے حافظ جنید کی ٹرین میں لنچنگ کی خبر کو توڑ مڑوڑ کر پیش کیے جانے سے متاثر ہو کر کی تھی تاکہ میڈیا میں آرہی صحیح خبروں سے لوگ خود واقف ہو سکیں اور اس کے پیچھے دور دور تک میرے ذہن میں نہ کوئی ایوارڈ لینے اور نہ ہی کسی خراج تحسین کو حاصل کرنے کی بات تھی۔ محنت اور لگن کے ساتھ ساتھ اس میدان میں پیشہ وارانہ مہارت کا استعمال کرتے ہوئے اس عظیم کام کو سات برس تک کیا ہے ، اب دوسرے لوگ آگے بڑھیں اور اسے جاری رکھیں۔
اب سوال یہ ہے کہ خراج تحسین پیش کرنے والی بڑی بڑی شخصیات اور تنظیمیں اور ادارے شفیق الحسن کی اس خواہش پر غور وفکر کرکے کوئی مثبت ریسپانس دے سکیں گی؟
میڈیا مانیٹرنگ کی اہمیت و ضرورت : اے یو آصف
شفیق الحسن کی پیشن سروس کی تعطلی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS