اعلیٰ تعلیم کیلئے پوسٹ میٹرک اسکالرشپ کا نفاذ : ڈاکٹر جاوید عالم خان

0

ڈاکٹر جاوید عالم خان

مرکزی حکومت مختلف پسماندہ طبقات کی اعلیٰ تعلیم کو فروغ دینے کیلئے پوسٹ میٹرک اسکالرشپ اسکیمیں چلا رہی ہیں۔ ان پسماندہ طبقات میں دلت، آدی واسی، بیکورڈ کلاس، اقلیت اور معذور لوگ شامل ہیں۔ دلتوں کیلئے پوسٹ میٹرک اسکالرشپ کی شروعات 1944 میں کی گئی تھی، بعد میں آدی واسیوں، بیکورڈ کلاس، معذوروں کیلئے بھی الگ سے پوسٹ میٹرک اسکالرشپ کا نفاذ شروع ہوا۔ اقلیتوں کیلئے پوسٹ میٹرک اسکالرشپ کی شروعات 2007-08 میں کی گئی۔
دلتوں کیلئے چلائی جارہی پوسٹ میٹرک اسکالرشپ اسکیم کے تحت مرکزی اور صوبائی حکومتیں بالترتیب60فیصد اور40فیصد اپنی سطح پر خرچ کرتی ہیں، اس لیے اس کو سینٹرلی اسپانسرڈ اسکیم کہا جاتا ہے، وہیں آدی واسیوں کیلئے پوسٹ میٹرک اسکالرشپ میں مرکزی اور صوبائی حکومتیں بالترتیب 75فیصد اور25فیصد بجٹ خرچ کرتی ہیں جبکہ اقلیتوں اور معذوروں کیلئے چلائی جارہی پوسٹ میٹرک اسکالرشپ میں مرکزی حکومت100فیصد بجٹ اپنے ہی ذرائع سے خرچ کرتی ہے۔
اس اسکالرشپ اسکیم کے تحت شمال مشرقی صوبوں، پہاڑی صوبوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کیلئے فنڈ شیئر کا الگ سے انتظام کیا گیا ہے۔ ان علاقوں کو عام صوبوں کے مقابلے اس اسکیم کے اندر کم فنڈ شیئر دینا ہوتا ہے جیسے کہ شمال مشرقی علاقوں کو صرف10فیصد اور مرکز کے زیرانتظام علاقوں کو کچھ بھی نہیں دینا پڑتا ہے۔ اس اسکیم کے تحت دو طرح کی اسکالرشپ سے متعلق سہولیات دستیاب کی جاتی ہیں، پہلا ٹیوشن فیس، دوسرا رکھ رکھاؤ/ مینٹیننس فیس۔ یہ سہولت ہاسٹل میں رہنے والے طلبا و طالبات اور ڈے اسکالرس کیلئے ہے۔ اس کے علاوہ اسکیم کے تحت جو رقم دی جاتی ہے، وہ مختلف کورسوں کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔ اس اسکیم میں درجہ گیارہویں سے پی ایچ ڈی تک کے طالب علموں کو شامل کیا گیا ہے، اس کو چار گروپ میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلے گروپ میں گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ سے متعلق پروفیشنل کورس، دوسرے گروپ میں وہ پروفیشنل کورس آتے ہیں جو ڈپلوما، ڈگری اور سرٹیفکیٹ کورس سے جڑے ہوئے ہیں، تیسرے گروپ میں وہ گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کورس آتے ہیں جو پروفیشنل نہیں ہیں اور چوتھے گروپ میں میٹرک اور غیر ڈگری کورس آتے ہیں۔ بچوں کو اس اسکیم کے تحت ٹیوشن فیس اور مینٹیننس الاؤنس دیا جاتا ہے۔ دلتوں کیلئے پوسٹ میٹرک اسکالرشپ کے تحت ہاسٹل میں رہنے والے بچوں کو سالانہ کم سے کم4000روپے اور زیادہ سے زیادہ13500روپے تک کی رقم ادا کی جاتی ہے، وہیں ڈے اسکالرس کیلئے کم سے کم رقم2500روپے اور زیادہ سے زیادہ7000روپے ہے۔ اس اسکیم سے فیضیاب ہونے کے لیے والدین اور سرپرستوں کے آمدنی کی حد2.5لاکھ روپے رکھی گئی ہے۔ اسکالرشپ کیلئے سالانہ کوٹہ80لاکھ متعین کیاگیا ہے۔
اقلیتوں کیلئے پوسٹ میٹرک اسکالرشپ کے تحت ہر سال نئی اسکالرشپ کیلئے5لاکھ کا کوٹہ متعین کیاگیا ہے۔ بچوں کو دی جانے والی رقم سالانہ2300روپے سے 15000 روپے تک ہے۔ اس اسکیم کو حاصل کرنے کیلئے والدین یا سرپرستوں کی سالانہ آمدنی کی حد2لاکھ روپے رکھی گئی ہے اور30فیصد اسکالرشپ طالبات کیلئے مختص کی گئی ہے۔ 2020-21کے بجٹ کے تجزیہ سے یہ پتا چلتا ہے کہ اس اسکیم کے تحت411کروڑ روپے جاری کیے گئے ہیں جس کا فائدہ 7,20 لاکھ طالب علموں نے اٹھایا ہے۔
آدی واسیوں کیلئے بھی مرکزی حکومت الگ سے پوسٹ میٹرک اسکالرشپ نافذ کررہی ہے، جس میں والدین اور سرپرستوں کیلئے آمدنی کی حد2.5لاکھ روپے رکھی گئی ہے۔
آدی واسی طلبا کو جو رقم ادا کی جاتی ہے، وہ دلت طالب علموں کو دی جانے والی رقم کے تقریباً برابر ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ رکھ رکھاؤ کی رقم کے علاوہ طالب علموں کو تحقیق سے متعلق سفر کے اخراجات، مقالہ(تھیسس)کی ٹائپنگ اور پرنٹنگ سے متعلق اخراجات، طالب علموں کو کتابیں خریدنے کیلئے امداد اور تعلیمی اداروں میں لائبریری بنانے کی سہولت بھی دی جاتی ہے جبکہ یہ سہولتیں اقلیتوں کیلئے چلائی جارہی پوسٹ میٹرک اسکالرشپ کے تحت دستیاب نہیں ہیں۔
پوسٹ میٹرک اسکالرشپ معذور طالب علموں کیلئے بھی الگ سے مہیا کرائی جارہی ہے۔ وہ طالب علم جو ایکٹ کے مطابق40فیصد معذور ہیں، وہ اس اسکیم کو حاصل کرنے کیلئے اہلیت رکھتے ہیں۔ معذور طالب علموں کے والدین اور سرپرستوں کیلئے آمدنی کی حد2.5لاکھ روپے رکھی گئی ہے۔ اس اسکیم کے تحت کتابوں کیلئے امداد، رکھ رکھاؤ کیلئے اخراجات، معذوری الاؤنس اور ٹیوشن فیس کیلئے رقم ادا کی جاتی ہے۔ ہاسٹل میں رہنے والے طالب علموں کو سالانہ 9000روپے سے 11000روپے تک رکھ رکھاؤ کیلئے رقم ادا کی جا تی ہے۔ ڈے اسکالر کے لیے سالانہ5500 روپے سے 7000روپے تک ادا کیے جاتے ہیں۔ معذوری الاؤنس عام طور پر2000روپے سالانہ اور ذہنی یا آنکھوں سے معذور طالب علموں کو4000روپے سالانہ مہیا کرایا جاتاہے۔کتابوں کیلئے1500روپے سالانہ دیا جاتا ہے، وہیں ٹیوشن فیس اور دوسرے تعلیمی اخراجات کے لیے سالانہ 1,50,000 روپے ادا کیے جاتے ہیں۔
تمام زمرے(دلت،آدیواسی، اقلیتی طبقہ اور معذور) کے لیے اسکالرشپ کو حاصل کرنے کیلئے مرکزی حکومت کی سطح پر درخواست کو نیشنل اسکالرشپ پورٹل کے ذریعہ جمع کیا جاتا ہے۔ جولائی یا ستمبر سے درخواست گزاروں کے لیے اسکالرشپ پورٹل کو درخواست جمع کرنے کے لیے کھولا جا تا ہے، درخواست گزاروں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے بینک اکاؤنٹ کی کا پی، گزشتہ سال کی مارکشیٹ، آدھار کارڈ کی کاپی، آمدنی سرٹیفکیٹ، ذات کا سر ٹیفکیٹ اور معذوروں کیلئے معذوری سرٹیفکیٹ اسکالرشپ پورٹل پر جمع کروائیں۔
سینٹر فار بجٹ اینڈ گورنینس اکاؤنٹیبلٹی کی ریسرچ سے پتہ چلتاہے کہ اسکالرشپ کے نفاذ میں بہت سارے چیلنجز ہیں جیسے کہ دی جانے والی رقم موجودہ مہنگائی کے مدنظر کافی کم ہے، اس کو کم ازکم5000روپے ماہانہ ہونا چاہیے۔ وظیفہ کی رقم کافی تاخیر سے موصول ہوتی ہے، مرکزی حکومت کے پاس شکایات کو حل کرنے کیلئے کوئی مناسب ادارہ نہیں ہے۔
اقلیتوں کے لیے نئی اسکالرشپ کا کوٹا5لاکھ رکھا گیا ہے جبکہ دلتوں کیلئے یہ کوٹا80لاکھ متعین کیاگیا ہے۔ اقلیتوں کی آبادی کل آبادی میں21فیصد اور دلتوں کی 16فیصد ہے،تمام زمرے کے لیے والدین کی آمدنی کی حد 2,50000روپے رکھی گئی ہے، وہیں اقلیتوں کیلئے2لاکھ روپے سالانہ رکھی گئی ہے، اس لیے اس اسکیم کے تحت تمام طبقوں کیلئے مختص بجٹ، اہلیت کی شرطیں، اسکالرشپ کوٹا یکساں ہونا چاہیے اور وظیفہ کی رقم میں اضافہ تمام طبقوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔
دلتوں کیلئے پوسٹ میٹرک اسکالرشپ کے تحت دی جانے والی رقم مرکزی اور صوبائی حکومتیں بالترتیب60فیصد اور40فیصد علیحدہ طور پر طالب علموں کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کریں گی لیکن اس کے لیے مرکزی حکومت نے یہ شرط رکھی ہے کہ صوبائی حکومتیں40فیصد رقم طالب علموں کے اکاؤنٹ میں پہلے ٹرانسفر کریں پھر مرکزی حکومت اپنی جانب سے دی جانے والی 60فیصد رقم ان کے اکاؤنٹ میں بھیجے گی۔ تجزیہ سے پتا چلتا ہے کہ اس فنڈ ٹرانسفر کے میکانزم سے طالب علموں کو دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ عام طور سے یہ پایا جاتا ہے کہ صوبائی حکومتیں اپنی خراب مالی حالت کی وجہ سے40فیصد حصہ طالب علموں کو ٹرانسفر نہیں کر پاتی ہیں جس کی وجہ سے مرکز کے ذریعہ دیا جانے والا 60فیصد حصہ طالب علموں کو یا تو تاخیر سے موصول ہوتا ہے یا پھر بالکل ہی ٹرانسفر نہیں کیا جاتاہے۔اگرچہ2023-24 کے بجٹ میں دلتوں کے اسکالرشپ بجٹ کیلئے6700 کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے، اس رقم کے بہتر استعمال کیلئے اسکیم کے تحت موجودہ فنڈ ٹرانسفر کے میکانزم کو پرانے سسٹم کے تحت ہی کیا جانا چاہیے جس میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے ذریعہ طالب علموں کو دی جانے والی رقم کو ایک ساتھ ٹرانسفر کیا جاتاتھا۔
(مضمون نگار سی بی جی اے سے وابستہ ہیں۔)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS