پروفیسر عتیق احمدفاروقی
آج بنگلہ دیش پر پھر سب کی نظر جاٹکی ہے۔ گزشتہ دنوں سے وہاں جو تحریک چل رہی ہے اس میں سماجی واقتصادی مسائل شامل ہیں۔ تحریک چلانے والوں میں زیادہ تر یونیورسٹیوں کے طلبا ہیں ، اُن کا یہ مطالبہ تھا کہ مجاہدین آزادی کوجو 30 فیصد ریزرویشن کا التزام ہے اسے ختم کیاجائے کیونکہ اس سے بیروزگاری میں اضافہ ہورہاہے ۔
یادرہے کہ 1971میں بنگلہ دیش کو الگ ملک دلانے والے مجاہدین آزادی کو ریزرویشن دیاگیا تھا، بعد ازاں ان کے بچوںکو رویزرویشن دیاگیا اور اب یہ نظام قائم کردیاگیاتھا کہ ان کے پوتے پوتیوں کو بھی ریزرویشن دیاجائے گا۔ جس کی وہاں خوب مخالفت ہورہی تھی اور اسی کے تحت وہا ں کے نوجوان سڑکوں پر اترآئے تھے، ویسے اس احتجاج کے بھڑکنے کا ایک سبب سیاسی بھی تھا۔چونکہ مجاہدین آزادی زیادہ تر عوامی لیگ کے حامی ہیں ، تو حزب اختلاف کے ذریعے یہ باربار کہاجاتاتھا کہ یہ عوامی لیگ کے ووٹ بینک ہیں، اس لئے عوامی لیگ ان کو ریزرویشن دے رہی ہے۔ سال 2018میں بھی جب مخالفت ہوئی ، تب عوامی لیگ نے ریزرویشن ختم کردیاتھا۔
حالانکہ عوامی لیگ کی حکومت نے یہ کہاتھاکہ ہم عدالت میں اس فیصلے کو چیلنج کریںگے اوراسے ختم کرانے کی کوشش کریں گے۔ یہ بات کہنی ہی چاہیے کہ حکومت نے اس پورے معاملے کو غلط طریقے سے سنبھالا۔ پولیس نے تشدد وکا سہارا لے کر تحریک کو کچلنے کی کوشش کی۔ دوسری غلطی یہ ہوئی کہ شیخ حسینہ نے ایک غیر ذمہ دارانہ بیان دے دیاکہ جو مظاہرہ کرنے والے ہیں وہ رضاکار ہیں۔ یاد رہے کہ رضاکار ان لوگوں کو کہاجاتاتھاکہ جو بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے وقت پاکستانی فوج کے ساتھ تھے۔ اس کے بعد تو احتجاج کرنے والے طلبا مزید بھڑک اٹھے ۔ طلبہ کو یہ لگاکہ ہم امن کی بات کرتے ہیں،پرہمیں مجرم قرار دیاجارہا ہے۔ اس کے بعد ڈھاکہ میں تشدد بڑھتاگیا اوردوسو سے زائد لوگ ہلاک کئے گئے۔ حکومت نے ریزرویشن کو گھٹاکرپانچ فیصد تک کردیا تھا، اس کے باوجود مظاہرین مطمئن نہیں تھے۔ طلبہ نے شیخ حسینہ سے مطالبہ کیا کہ وہ طلبا کے قتل کیلئے معافی مانگیں۔ مجاہدین آزادی کے نام پر دئے جارہے ریزرویشن کو آئینی طریقوں سے پوری طرح سے ختم کرنے کی ترکیب کریں۔ چونکہ بنگلہ دیش حکومت نے اس سمت میں کوئی پختہ یقین دہانی نہیں کرائی اس لئے طلبا کی ناراضگی بڑھی اورباہر سے کچھ طاقتوں نے ان کی حمایت کی۔ اب دنیا دیکھ رہی ہے کہ تحریک بڑھتے بڑھتے ایسے مقام پر پہنچ گئی ہے جہاں وزیراعظم شیخ حسینہ کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑاہے۔ فوجی سربراہ نے عبوری حکومت بنانے کا اعلان کیاتھا جس کے تحت پچھلے دنوں نوبل امن انعام یافتہ محمدیونس کی سربراہی میں نگراں حکومت نے حلف اُٹھایا جسے انتخابات کے انعقاد کرانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
ویسے بنگلہ دیش میںیہ احتجاج بیک وقت نہیں شروع ہوا، شیخ حسینہ نے کچھ اوربھی حماقتیں کی تھیں یا کچھ بڑی کمیوں پر لگام لگانے میں ناکام رہی تھیں ۔ اول تو جمہوریت کو انہوں نے متاثر کیاتھا ۔ گزشتہ دو انتخابات سے عوام کی شراکت داری بہت کم تھی۔ سال 2024 کے انتخاب میں بمشکل 40فیصد لوگوں نے حصہ لیا، اس میں بھی مخالف پارٹیوں نے الزام لگایاتھاکہ اعدادوشمار سے چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں لوکل باڈیز کے انتخابات میں بھی بے ضابطگیاں دیکھنے کو ملیں۔ جمہوری طریقے سے چناؤ ہونے کے بجائے کنبہ پروری کا بول بالا رہا۔ مقامی باڈیز میں زیادہ تر عہدے ریوڑیوں کی طرح رشتے داروں میں تقسیم کئے گئے۔ بنگلہ دیش میں بدعنوانی بھی بڑھ گئی تھی۔ کنبہ پروری بڑھنے کی شکایت عام لوگ کرنے لگے تھے۔ یہ بات حکومت کے حق میں نہیںتھی ۔ حکومت کہیں نہ کہیں نچلی سطح پر جمہوریت کے جذبے کو قائم نہیں رکھ پارہی تھی۔ علاوہ ازیں جیسا کہ پہلے بتایاجاچکاہے بدعنوانی بھی بڑھ گئی تھی ، ان تمام مسائلوں نے مل کر بنگلہ دیش میں ایک بڑے واقعہ کوجنم دیا۔ توڑ پھوڑ اورتشدد بڑھنے لگا۔ نوبت ایسی آگئی کہ وزیر اعظم کو ملک چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔شیخ حسینہ کو وزیراعظم رہائش گاہ خالی کرکے جانا پڑا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ خاص مخالف پارٹی ، بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی )کے حامی بھی ادھر لگاتار ناراض چل رہے تھے۔ ویسے بی این پی کے لیڈران کم وبیش عوام میں اپنا اعتماد کھوچکے تھے ۔ سال 2014کے چناؤ کا بھی اس نے بائیکاٹ کیاتھاا ورسال 2024 کے انتخابات کا بھی۔ انتخابات کے بائیکاٹ کے سبب نچلی سطح پر بی این پی کی حمایت کم ہوگئی تھی۔ اب اس میں کوئی دورائے نہیں ہوسکتی کہ طلبہ میں پھیلی ناراضگی کا فائدہ بی این پی کے لیڈران نے بھی اٹھایاہے۔ ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ حسینہ حکومت کا کنٹرول کمزو رپڑگیا۔
یہاں سری لنکاکے واقعات کا ذکر کرنا بے معنی نہیں ہوگا۔ جس طرح دارالحکومت کولمبو میں لوگوں نے سڑک پر نکل کر راج پکچھے کی حکومت کو پلٹ دیاتھاٹھیک اسی طرح کے مناظر ڈھاکہ میں بھی دکھے ہیں اوراج پکچھے کی طرح شیخ حسینہ کو بھی ملک چھوڑ کر جانا پڑاہے۔ بہر حال اب بنگلہ دیش میں پروفیسر محمدیونس نے عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر کے طور پر حلف لیا ہے۔ عبوری حکومت کے ارکان غیرسیاسی اور پڑھی لکھی شخصتیں ہیں۔ یونس اورنئی عبوری حکومت کے ارکان کو بنگلہ دیش کے صدر محمدشہاب الدین نے عہدے اوررازداری کا حلف دلایا ہے۔
خیراب بنگلہ دیش میں فوج چاہتی ہے کہ عوام تعاون کریں تو ملک میں ماحول کو سدھار جاسکے۔ اب پہلا سوال تو یہ اٹھ رہاہے کہ بنگلہ دیش میں جو ترقیاتی پروجیکٹ چل رہے ہیں، ان کا کیاہوگا؟ ویسے وہاں کوئی بھی حکومت یہ نہیں چاہے گی کہ ملک کی ترقی رکے۔ ہندوستان ،چین اورجاپان کے ساتھ مل کر بنگلہ دیش اپنے ترقیاتی پروجیکٹوں پرکام کررہاہے۔ سوال یہ بھی کھڑا ہوتاہے کہ ہندوستان کو ابھی کیا کرنا چاہیے؟ ویسے جس لیڈر یا گروپ کو مغربی ممالک کی حمایت حاصل ہوگی اس کے حق میں ہمارا ملک کھڑا ہوجائے گا۔ ہندوستان چاہتاہے کہ بنگلہ دیش میںامن قائم رہے۔ مستحکم حکومت رہے تاکہ ترقی تیزی سے ہو۔ ہندوستان کو کسی خصوصی پارٹی کے ساتھ تعلق نہ رکھتے ہوئے بنگلہ دیش کی ترقی کے حق میں کھڑے رہناچاہے۔ یا درہے کہ پہلے بھی عبوری حکومت کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات اچھے رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں موجودہ عبوری حکومت، یا اگر کوئی اور حکومت بھی ہوگی وہ بھی ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا چاہے گی۔ کیونکہ نہ صرف دونوں ممالک کے سماجی اورثقافتی تعلقات کافی گہرے ہیں ، بلکہ تجارتی مفاد بھی زبردست ہیں۔ ہندوستان یہی امید کرے گاکہ بنگلہ دیش میں جلد امن اوراستحکام قائم ہو۔ بیشک وہاں عوام کے مطابق مسئلہ کا انتظار رہے گا۔
[email protected]