ابونصر فاروق
دنیا میں انسان کو زندگی گزارنے کے لئے بہت ساری چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔اور یہ ساری چیزیں خیرات میں یامفت میں نہیں ملتی ہیں،بلکہ محنت و مشقت سے حاصل کی جاتی ہیں۔اسی عمل کو عربی میں معاش اور اردو میں معاشی سرگرمیاں کہتے ہیں۔عام طور پر لوگ نہیں جانتے ہیں کہ اسلامی شریعت میں فرض نماز کے بعد حلال روزی کمانا فرض قرار دیا گیا ہے جس کے بعد ایک خاص حد تک مال جمع ہوجانے پر انسان کو زکوٰۃ بھی ادا کرنی ہوتی ہے اور مسلسل صدقہ کرنا بھی فرض ہو جاتا ہے۔دین و شریعت سے ناواقف لوگ اس کی اہمیت کو نہیںجانتے اور سمجھتے ہیں کہ اُن کے اختیاراورپسند کی بات ہے کہ وہ چاہیں تو محنت و مشقت سے روپے کمائیں اور چاہیں تو بے کار رہ کر عیش کرتے رہیں۔جن لوگوں میں دنیا کے میدان میں محنت و مشقت سے اپنی جگہ بنانے کی لگن اور حوصلہ نہیں ہوتا وہ زندگی بھر ناکامی ، مایوسی اور ذلت کی آگ میں جلتے رہتے ہیں اور کامیاب لوگوں کو نفرت کی نگاہوں سے دیکھتے رہتے ہیں۔اپنی کمی اور کمزوری اُنہیں دکھائی دیتی ہی نہیں، کہ وہ اگر پیچھے ہیں تو اس میں آگے رہنے والوں کا قصور نہیں ہے بلکہ وہ خود اپنی نااہلی کی وجہ سے اپنی جگہ آگے نہیں بنا سکے۔
دورحاضر میں مادی ترقی اپنی انتہاؤں پر پہنچی ہوئی ہے ۔بازار میں عیش پسندی کے سامانوں کی بھر مار ہے اور اعلیٰ درجہ کی اشتہار بازی کے ذریعہ ارمان اورشوق کی دنیا میں شعلے بھڑکائے جا رہے ہیں کہ تم ان کو استعمال نہیں کیسے کرو گے؟اس سے محروم کیسے رہو گے؟خوب کماؤ اور خوب خرچ کرو۔دولت کمانے میں حلال اورحرام کی بات کرنا پرانے دقیانوسی لوگوں کا کام ہے۔بے جھجھک اور بے شرم بن کر جائز ناجائز جس طرح بھی ہو خوب دولت کماؤ اور زندگی کے مزے لوٹو۔خدا، رسول، آخرت یہ سب صرف وہم وگمان کی باتیں ہیں۔ان کا زمینی سچائی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔چنانچہ اس وقت کی پوری دنیا اسی کلمے پر ایمان لا چکی ہے اور اسی کی پیروی میں دن رات لگی ہوئی ہے۔اُسے نہیں معلوم کہ حد سے زیادہ دولت انسان کو کس طرح سے تباہ و برباد کر دیتی ہے۔حد سے زیادہ دولت کے کیا اور کتنے نقصانات ہیں یہاں اسی کو سمجھایا جارہا ہے:
(1)آخرت کے اجر و ثواب سے محروم ہو جاتا ہے:
ان میں سے کوئی تو ایسا ہے جو کہتا ہے کہ اے ہمارے رب ہمیں دنیا ہی میں سب کچھ دے دے۔ایسے شخص کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ۔(البقرۃ:200)
زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی دھن میں انسان ایسا مست و مگن ہو جاتا ہے کہ اُسے خدا ، رسول اور آخرت کی کوئی پروا ہوتی ہی نہیں ہے۔وہ صرف اپنی دنیا بنانے میں لگا رہتا ہے۔جب اُسے سمجھایا جاتا ہے کہ آخرت کی بھی کچھ فکر کرو تووہ اسے مذاق سمجھتا ہے اور ہنسی میں ٹال دیتا ہے اور اس طرح اپنی دنیا کے ساتھ آخرت بھی برباد کر لیتا ہے۔
(2)حرام خوری کے سبب مر کر جہنم کا ایندھن بن جاتا ہے:
اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال نا روا طریقے سے کھاؤ اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض سے پیش کرو کہ تمہیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداًظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے (البقرۃ:188)اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔احسان کا طریقہ اختیار کرو ، اللہ محسنوں کو پسند کرتا ہے۔(البقرۃ:195)
جو شخص ظلم و زیادتی کے ساتھ ایسا کرے گا(یعنی باطل طریقے سے ایک دوسرے کا مال کھائے گا)اُس کو ہم ضرور آگ میں جھونکیں گے، اور یہ اللہ کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔(النساء:۳۰) حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہﷺنے فرمایا: جس نے اپنے وارث کی میراث کا حصہ کاٹا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جنت سے اُس کا حصہ کاٹ لے گا۔(ابن ماجہ ،بیہقی)
نبی ﷺنے فرمایا :اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ صرف پاکیزہ مال کو ہی قبول کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہی حکم دیا ہے، جس کا اُس نے رسولوں کو حکم دیا ہے۔چنانچہ اللہ نے فرمایا: اے پیغمبرو! پاکیزہ روزی کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ اور مومنوں کو خطاب کرتے ہوئے اُس نے کہا کہ اے ایمان والوجو پاک اور حلال چیزیں ہم نے تم کو بخشی ہیں وہ کھاؤ۔پھر ایک ایسے آدمی کا حضور ﷺ نے ذکر کیا جو لمبی دوری طے کر کے مقدس مقام(خانہ کعبہ) پر آتا ہے، غبار سے اٹا ہوا ہے، گرد آلود ہے اور اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کرکہتا ہے اے میرے رب! اے میرے رب!(اور دعائیں مانگتا ہے ) حالانکہ اُس کا کھانا حرام ہے ، اُس کا پانی حرام ہے، اُس کا لباس حرام ہے اور حرام پر ہی وہ پلا ہے تو ایسے شخص کی دعا کیوں کر قبول ہوسکتی ہے۔( مسلم )
دولت مند بننے کا جنون اس بدنصیب پر ایسا سوار ہوتا ہے کہ یہ حلال اور حرام کے حکم سے بھی غافل اور بے نیاز ہو جاتا ہے اورحرام کو بھی حلال سمجھنے لگتا ہے ۔پھر اپنی حرام خوری کے سبب اللہ اور رسول کی نگا ہ میں کافر بن جاتا ہے۔اس کے بعد اُس کی کوئی عبادت یا کوئی دعا قبول نہیں ہوتی ہے۔نمازی اور حاجی ہوتے ہوئے بھی یہ آدمی کفر کی حالت میں مرتا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم کی آگ میں جلتا رہے گا۔دولت کا لالچی انسان جب ماں باپ کی جائیداد کا آپس میں بٹوارا کرتا ہے تواپنے سگے بھائی بہنوں کے ساتھ بے ایمانی کر کے خود اپنے حق سے زیادہ لے لیتا ہے اوردوسرے حقداروں کو اُن کے حق سے محروم کر دیتا ہے۔یہ ایسا شیطانی عمل ہے جس کا انجام جہنم کی آگ میں جھلسنا طے ہو چکا ہے۔ایسا مسلمان جو نمازی بھی ہے اور حاجی بھی لیکن قریب ترین رشتہ داروں کا حق چھین لینے کے جرم میںدوزخ کا ایندھن بن جائے گا جس کی اس کو ذرا پروا نہیں ہے۔مرنے کے بعد اپنا سب کچھ دوسروں کے لئے چھوڑ کر جہنم میںچلا جائے گا۔
(3) فضول خرچی اُسے شیطان بنا دیتی ہے:
رشتہ دار کو اُس کا حق دو اور مسکین اورمسافر کو اُس کا حق۔ اور فضول خرچی نہ کرو۔فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں۔ اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔(بنی اسرائیل:26/27)جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا ہے، اُنہیں اللہ کے مقابلے میں نہ اُن کا مال کچھ کام دے گا ،نہ اولاد،وہ دوزخ کا ایندھن بن کر رہیں گے ۔ (سورہ آل عمران:10)دردناک سزا کی خوش خبری دو ان کو جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیںاور انہیںخدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ ایک دن آئے گا کہ اسی سونے اور چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اس سے ان لوگوں کی پیشانیوں ، پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا،لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو۔(التوبہ : 34)
حد سے زیادہ دولت کا لالچی مال جمع کرنے کی ہوس میں دوسرے ضرورت مندوں پرخرچ نہیں کرتا ہے، لیکن اپنے شوق ، نام و نمود،دکھاوے اورعیاشی کے لئے بے تحاشہ مال خرچ کرتا رہتا ہے۔ اپنی فضول خرچی کے لئے اس کے پاس دولت کم نہیں ہوتی ہے، لیکن کسی نیک کام میں خرچ کرنے کے لئے یہ غریب اور نادار بن جاتا ہے۔فضول خرچی اسے شیطان کابھائی اور اللہ کا ناشکرا بنا دیتی ہے ،لیکن یہ احمق سمجھتا ہے کہ اس کا نمازی اور حاجی ہونا اُسے جنت میں لے جائے گا۔ہر گز نہیں شیطان کے بھائی اور ناشکرے کا ٹھکانہ تو جہنم ہے۔بدنصیب کو نہیں معلوم کہ اُس کی حد سے زیادہ دولت ہی اُسے جہنم میں آگ بن کر جلاتی رہے گی۔
(4)حد سے زیادہ دولت والا مغرور اور گھمنڈی بن جاتا ہے:
……اللہ ایسے لوگوں کوپسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اور فخر جتاتے ہیں،(الحدید:۲۳)میں اپنی نشانیوں سے اُن لوگوں کی نگاہیں پھیر دوں گاجو بغیر کسی حق کے زمین میں بڑے بنتے ہیں۔ (اعراف:146) اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر، نہ زمین میں اکڑ کر چل،اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے آدمی کو پسند نہیںکرتا ہے۔(لقمان:18)
حد سے زیادہ دولت کا مالک خود سے کمتر لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔اُن سے ہمدردی کی جگہ نفرت کرتا ہے۔ حد یہ ہے کہ اپنے غریب رشتہ داروں کا بھی اپنے یہاں آنا جانا یا اُن کے یہاں آناجانا پسند نہیں کرتا ہے۔اس کا غلط تکبر اورغرور اس کو ایسا شیطان بنا دیتا ہے جو اللہ کی رحمت اور حفاظت سے محروم اور بدنصیب بن کر دنیا میں بے چینی ، بیماری اور ذلت و رسوائی کا عذاب جھیلتا رہتا ہے۔
(5)مالدار کی دولت اُس کی اولاد کے کام نہیں آئے گی:
حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ روایت کرتے ہیں،رسول اللہﷺ نے فرمایا:اللہ اپنے بندوں میں سے دو بندوں کو قیامت کے دن بلائے گا۔اُن دونوں کو اللہ تعالیٰ نے مال اور اولاد کی کثرت سے نوازا تھا۔اُن میں سے ایک سے پوچھے گا اے فلاں! وہ کہے گا بندہ حاضر ہے،ارشاد ہو کیا حکم ہے ؟ اللہ کہے گا میں نے تجھے مال و اولاد کی کثرت سے نوازا تھا؟ وہ کہے گا ہاں میرے رب تو نے بلا شبہہ مجھے بہت سی اولاد اورمال سے نوازا تھا۔اللہ تعالیٰ کہے گا میں نے تجھے جو مال دیا تھا اُس کا تونے کیا کیا ؟ اُس سے کس طرح کے کام کیے؟وہ کہے گا اے رب میں نے وہ مال اپنی اولاد کے لیے چھوڑا تاکہ میرے بعد وہ تنگ دستی کا شکار نہ ہوں۔اللہ تعالیٰ کہے گا اگر تم حقیقت واقعہ کو جان لیتے تو بالکل نہیں ہنستے اور ہمیشہ غمگین رہتے۔لے میں تجھے بتاتا ہوں تیری اولاد تنگ دستی کی زندگی گزار رہی ہے(تیرا منصوبہ تیری اولاد کے کام نہ آیا)پھر دوسرے کو بلائے گااور اسی طرح کا سوال اُس سے کرے گا۔وہ کہے گا اے میرے رب میں نے تیرا بخشا ہوا مال تیری بندگی کی راہ میں خرچ کر دیا اور اپنی اولاد کے متعلق تیرے کرم پر بھروسہ کیا اور اس یقین کے ساتھ انہیں تیرے کرم کے حوالے کیا کہ تو اُنہیں برباد نہ ہونے دے گا۔اللہ تعالیٰ کہے گا سن اپنی اولاد کے سلسلہ میں تو نے جس بات پر اعتماد کیا تھا، تیرے مرنے کے بعد میں نے اُنہیں وہی چیز دی ہے۔وہ خوش حالی اور تونگری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ (طبرانی)
(6)نبیﷺ کی بد دعا لینے والا بن جاتا ہے:
حضرت ابوذر غفاری ؓ روایت کرتے ہیں،میں رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا۔ اُس وقت نبیﷺکعبہ کے سایے میں بیٹھے تھے۔ جب نبیﷺ کی نظر مجھ پر پڑی تونبیﷺنے فرمایا: وہ لوگ مکمل طور پر تباہ و برباد ہونے والے ہیں۔ میں نے دریافت کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان، کون لوگ تباہ و برباد ہونے والے ہیں؟نبیﷺ نے فرمایا: وہ لوگ تباہ و برباد ہوں گے جو مالدار ہونے کے باوجود راہ خدا میں مال خرچ نہیں کرتے۔ کامیاب و کامراں صرف وہ ہوںگے جو اپنی دولت لٹائیں،سامنے والوں کو دیں، جو پیچھے ہیں ان کو دیںاور بائیں طرف کے لوگوں کو دیں اورایسے مالدار بہت ہی کم ہیں۔ (بخاری ، مسلم)
جب نبیﷺیہ فرما رہے ہیں کہ وہ دولت مند جو اللہ کی راہ میں غریبوں اور محتاجوںپر اپنی دولت خرچ نہیں کرتا ہر طرح سے تباہ وبرباد ہونے والا ہے تو اب کون ہے جو ایسے انسان کی شفاعت کر کے اُسے جنت کا حقدار بنا پائے گا ؟
(7)آخرت کے حساب کتاب میں ناکام ہو جائے گا:
رسول اللہﷺ نے فرمایا:قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی عدالت سے آدمی ہٹ نہیں سکتا جب تک اُس سے پانچ باتوں کے بارے میں حساب نہ لے لیا جائے۔ اس سے پوچھا جائے گا(1) عمر کن کاموں میں گزاری؟ (2)جوانی کس مشغلہ میں گھلائی؟(3) مال کس طرح کمایا ؟(4) مال کن کن کاموں میں خرچ کیا؟(5)دین کا جو علم حاصل کیا اُس پر کہاں تک عمل کیا ؟ (ترمذی)
دنیا کی زندگی میں مست و مگن رہنے والا جو آخرت کو بھولا ہوا رہتا ہے اُس کو احساس ہی نہیں ہوتاکہ اللہ تعالیٰ نے اُس کو جو بے شمار دولت دی ہے اُس کا وہ قیامت کے دن حساب لے گا۔جو آدمی اپنے خرچ کا حساب نہیں رکھتا ہے وہ کبھی اپنے خرچ کا حساب دے ہی نہیں سکتا ہے۔ جب ضرورت سے زیادہ دولت کادنیا دار مالک اللہ کے سامنے آخرت میں کھڑا ہوگا اور اللہ اُس سے دولت کا حساب مانگے گا تو وہ بتا ہی نہیں پائے گا اور پھر اُس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔
غور کیجئے ،جو لوگ آج اس خیال سے حد سے زیادہ دولت کما رہے ہیں کہ یہ دولت اُن کے بیوی بچوں کے کام آئے گی، نبی ﷺ فرما رہے ہیں کہ ایسے آدمی کو آخرت میں معلوم ہوگا کہ اُس کی دنیا میں چھوڑی ہوئی دولت اُس کی اولاد کے کام نہیں آئی۔مگر نبیﷺ کی اس بات کی اہمیت اُن لوگوں کے نزدیک ہے ہی نہیں نہ تو دین و شریعت کو مانتے ہیں، نہ آخرت کے حساب و کتاب کی فکر کرتے ہیں اور نہ ہی قبر کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔
ہوس پیسہ کمانے کی تمہیں باقی ابھی ہے
اگر چہ زندگی انجام پر آئی ہوئی ہے
یہ دولت ساتھ اپنے کیاکبھی لے جا سکو گے
کہو اس عمر میں یہ کیسی ناحق دل لگی ہے
٭٭٭