پنکج چترویدی
ہماچل پردیش جیسی پرامن، خوبصورت اور چھوٹی ریاست گزشتہ کچھ دنوں سے سلگ رہی ہے اور اس کی وجہ شملہ کے سنجولی اور کچھ دوسری جگہوں کی ایسی مساجد ہیں، جو مبینہ طور پر غیرقانونی ہیں۔ دہلی میں بھی کچھ مندروں کو ہٹانے پر عدالتی کارروائی جاری ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب ملک کے کسی حصے سے کسی مذہبی مقام کو ہٹانے پر تنازع کی خبریں نہ آتی ہوں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ملک کی حکومتیں عدالتی احکامات پر اپنے سیاسی مفادات کے مطابق عملدرآمدکرتی ہیں اور دبا بھی دیتی ہیں۔ 2009 میں سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ عوامی یا سرکاری زمین پر، بغیر اجازت کے تمام مذہبی مقامات غیرقانونی ہیں اور انہیں ہٹایا جائے، اس وقت ہر ریاست نے اپنے دائرۂ اختیار میں غیر قانونی مذہبی مقامات کی فہرست بھی پیش کی تھی۔ ستمبر-2010 میں سپریم کورٹ نے ان سب کو ہٹانے کے لیے دو ہفتے کا وقت دیا تھا لیکن 14 سال گزرجانے کے بعد ان میں سے چند سائٹس کو ہی ہٹایا گیا۔ ہاں، اس سے کئی گنا بڑھ ضرور گئے۔
دہلی حکومت کے محکمۂ داخلہ نے ابھی14 اکتوبر، 2024 کو ریاستی محکموں اور اداروں کو مکتوب بھیج کر ستمبر-2009 کے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں غیرقانونی مذہبی مقامات کی فہرست تیار کرکے انہیں ہٹانے کی ہدایات دی ہیں۔ اچانک یہ حکم کیوں آیا؟ ممکن ہے کہ اس کے پیچھے کوئی سیاسی چال ہو، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ملک میں اسکولوں سے کہیں زیادہ تعداد مذہبی مقامات کی ہے۔ تقریباً 24 لاکھ مندر، مسجد، گرودوارے، چرچ وغیرہ ملک کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کئی کی آمدنی تو کسی ریاست کے سالانہ بجٹ کے برابر ہوتی ہے لیکن تلخ حقیقت یہی ہے کہ ان میں سے زیادہ تر سرکاری زمین پر بغیر کوئی نقشہ پاس کیے، منمانے طریقے سے تعمیر کیے گئے ہیں۔ صرف دہلی میں ہی غیرقانونی مذہبی مقامات کی تعداد 60 ہزار سے زیادہ ہے۔ تمل ناڈو ایسے تجاوزات کے لیے سرفہرست ہے اور 2009 میں جمع کرائے گئے حلف نامے میں یہ تعداد 77450 تھی، راجستھان میں 58253، مدھیہ پردیش میں52923، اترپردیش میں45000، گجرات میں 15000 مذہبی مقامات غیرقانونی مقامات کے طور پر نشان زد کیے گئے تھے۔
سپریم کورٹ کے حکم کے بعد مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال میں 1493 مذہبی مقامات غیر قانونی پائے گئے لیکن ان میں سے صرف 50 کو ہٹایا گیا لیکن اس کے بعد وہاں 500 نئے مقامات پر قبضہ کر لیا گیا۔ ریاست کے مندسور میں 6344، اجین میں 5746، دھار میں 1540، گوالیار میں 1752 غیر قانونی مذہبی مقامات وسعت اختیار کرتے ہوئے اب مزید جگہ گھیر چکے ہیں۔
اتر پردیش میں حکومت کے حلف نامے کے مطابق،14 سال پہلے 45152 غیر قانونی قبضے مذہب کے نام پر تھے۔ صرف چند منتخب جگہوں کو ہٹایا گیا۔ صرف لکھنؤ میں 971 بیش قیمتی مقامات کو مذہب کے نام پر گھیر لیا گیا ہے۔ سدھارتھ نگر میں سب سے زیادہ 4706، مظفرنگر میں 4023 اور جھانسی میں 1101 سمیت ہر ضلع میں اس طرح کا غیر قانونی کاروبار حکومت کی نگرانی میںپھل پھول رہا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ چند سال قبل گریٹر نوئیڈا کے کادل پور گاؤں میں گرام سبھا کی زمین پر زیر تعمیر مسجد کو گرانے پر درگا شکتی ناگپال سرخیوں میں آئی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست کی کوئی بھی پنچایت اس طرح کی غیر قانونی تعمیرات سے مبرا نہیں ہے۔ اترپردیش میں 25 ستمبر، 2013 سے 23 جولائی تک ہائی کورٹ میں کم از کم پانچ مختلف مقدمات میں ایسی تعمیرات کو ہٹانے کے احکامات کسی لال بستے میں بہانوں کے ساتھ بند ہیں۔
5 مارچ، 2020 کو اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے 29 ستمبر، 2009 کے بعد غیرقانونی طور پر بنائے گئے مذہبی مقامات کو نشان زد کرتے ہوئے انہیں ہٹانے کی ہدایت دی تھی۔ حکومت کے حلف نامے کے مطابق عدالت کے حکم پر ریاست کے تمام 13 اضلاع میں غیر قانونی طور پر بنائے گئے مندروں، مساجد، گرجا گھروں اور گرودواروں کا معائنہ کیا گیا۔ حکومت نے واضح کیا ہے کہ ٹہری گڑھوال میں 96، نینی تال میں 9، چمپاوت میں 23، چمولی میں 3، الموڑہ میں 5، پتھورا گڑھ میں 6، پوڑی گڑھوال میں15، اترکاشی میں 2، ردرپریاگ میں 7، ادھم سنگھ نگر میں 412، ہری دوار میں 171 اور دہرہ دون میں 21 مذہبی مقامات عوامی اور سرکاری زمین پر قبضہ کرکے تعمیر کیے گئے ہیں لیکن کارروائی کے نام پر حکومت نے کوئی سخت قدم نہیں اٹھایا۔ مدھیہ پردیش میں تو عدالتی حکم کی تعمیل نہ ہونے پر توہین عدالت کا مقدمہ بھی چل رہا ہے۔ عدالتیں بھی اب ایسے معاملات میں لمبی تاریخیں دیتی ہیں اور گنجائش چھوڑ دیتی ہیں کہ ریاستی حکومت پر کوئی سختی نہ ہو۔
ابھی 30 مئی، 2024 کو کیرالہ ہائی کورٹ کے جسٹس پی وی کُنہی کرشنن نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے اور ہندوستان کے آئین کی تمہید میں درج ’خودمختار سوشلسٹ سیکولر جمہوری جمہوریہ‘کے طور پر ملک کو مضبوط کرنے کے لیے سرکاری یا عوامی اراضی سے غیر مجاز اور غیر قانونی مذہبی ڈھانچوں کی نشاندہی کرنے اور انہیں ہٹانے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ انہوں نے اپنے حکم میں لکھا کہ ہندوؤں، عیسائیوں، مسلمانوں یا کسی دوسرے مذہب کے افراد کو سرکاری زمین پر غیر قانونی مذہبی مقامات کی تعمیر کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس سے ریاست میں مذہبی انتشار پیدا ہوگا، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ سرکاری زمین پر کوئی بھی غیر قانونی مذہبی مقام نہیں ہونا چاہیے، چاہے وہ ہندو، عیسائی، مسلم یا کسی اور مذہب کا ہو۔
بلڈوزر آپریشن کو روکنے کے لیے یکم اکتوبر، 2024 کے حکم میں سپریم کورٹ کے جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس کے وی وشواناتھن کی بنچ نے بھی کہا ہے کہ عوامی مقامات پر واقع کسی بھی مذہبی ڈھانچے کو، چاہے وہ درگاہ ہو یا مندر، اسے ہٹاناہوگا کیونکہ مفاد عامہ سب سے اوپر ہے۔ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے۔ جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس کے وی وشواناتھن کی بنچ نے کہا کہ ہم جو بھی فیصلہ کر رہے ہیں وہ تمام شہریوں، اداروں کے لیے ہے، صرف کسی خاص کمیونٹی کے لیے نہیں۔ کسی خاص مذہب کے لیے الگ قانون نہیں ہو سکتا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان دنوں ملک کے مختلف مقامات پر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے مذہبی مقامات کو لے کر زیادہ سے زیادہ تنازعات پیدا کیے جا رہے ہیں۔ ایسے معاملات کا آئین یا عقیدہ سے کوئی تعلق نہیں، یہ محض سیاسی داؤپیچ ہے۔ عقیدہ، مذہبیت اور روحانیت ہمارے ملک کی ثقافت کا اہم حصہ ہیں، لیکن اس میں تفریق کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ملک ترقی اور نمو کے جس عبوری دور سے گزر رہا ہے، اس میں مذہب کے نام پر چھوٹی موٹی سیاست ملک کے مفاد میں تو قطعی نہیں ہے۔ آج وقت کا تقاضا ہے کہ ملک بھر میں غیرقانونی مذہبی مقامات کو مذہبی ادارے خود ہٹائیں اور ملک کی ہم آہنگی اور ترقی کی راہ کو رفتار دیں۔ ویسے بھی کسی عظیم الشان محل میں عقیدہ اور یقین کی پرماتما یا غیر مرئی طاقت ایک ہی کمرے میں رہتی ہے، باقی میں تو دکھاوے اور شان و شوکت کے رہنے کا ہی معاملہ ہے۔