اے- رحمان
’’میری امریکی بہنو اور بھائیو ‘‘ جب 11ستمبر 1893کی ایک خوشگوار چمکیلی صبح کو سوامی وویکا نند نے شکاگو میں منعقد Parliament of World Religions (عالمی مذاہب کی پارلیمنٹ یا اجتماع) میں ہندوستانی نمائندے کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے اپنی تقریر کا آغاز ان الفاظ سے کیا تو 7ہزار نفوس پر مشتمل حاضرین کا مجمع اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور دیر تک تالیاں بجتی رہیں۔ ان چند الفاظ میں انسان دوستی اور بھائی چارے کا وہ پیغام مضمر تھا جو اس اجتماع کے بعد ہندو ازم کی عالمی شناخت بن گیا۔ وویکا نند نے ہندو دھرم کو ’ام المذاہب‘ (ہندو فلسفہ قدیم ترین سمجھا گیا ہے)کے نام سے متعارف کراتے ہوئے کہا ’’ مجھے فخر ہے کہ میں ایسے مذہب سے وابستہ ہوں جس نے دنیا کو رواداری کا سبق دیا ہے۔ہم عالمی رواداری میں ہی یقین نہیں رکھتے بلکہ دنیا کے تمام مذاہب کی صداقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ مجھے فخر ہے کہ میں ایسے ملک کا باشندہ ہوں جس نے بلا تخصیص ہر قوم کے مظلوموں اور پناہ جو لوگوں کو پناہ دی ہے۔ مجھے فخر ہے کہ جنوبی ہند میں ان یہودیوں اور زرتشت کے ان پیروؤں کو بھی فراخ دلی سے اپنایا گیا جن پر بقیہ دنیا میں عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا تھا۔میں اس بھجن کی چند سطریں سناتا ہوں جو میں بچپن سے ہی سنتا اور گاتا رہا ہوں۔ ’اے مالک و خالق ! جیسے تمام سمتوں سے آنے والے بہاؤ اور ندیاں آخرش سمندر میں یکجا ہو جاتے ہیں، اسی طرح مختلف، ٹیڑھے سیدھے راستوں سے چل کر آنے والے انسانوں کی منزل صرف تو ہی ہے‘۔‘‘ پھر سوامی نے گیتا کا وہ مشہور اشلوک پڑھا ’’جو بھی میری جستجو کرتا ہے میں اس تک پہنچ جاتا ہوں۔ تمام انسان ان مختلف راستوں پر تگ و دو کر رہے ہیں جو آخرش مجھ تک ہی پہنچتے ہیں۔‘‘دورانِ تقریر وویکا نند نے ہر مذہب کی اہمیت اور شناخت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ’’نہ تو عیسائی کو ہندو دھرم یا بدھ ازم اختیار کرنے کی ضرورت ہے نہ ہندوؤں کو عیسائی بننے کی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دیگر مذاہب کی روح کوجذب کرتے ہوئے اپنے اپنے مذہب کی انفرادیت قائم رکھیں۔‘‘ باہمی انضمام نہ کہ تصادم پر امن بقائے باہم کی کلید ہے۔اور اگر اس انضمام یا مذہبی یکجہتی سے کوئی یہ مراد لیتا ہے کہ کسی ایک مذہب کا تفوّق ہو اور بقیہ مذاہب فنا ہو جائیں ، تو میں کہوں گا میرے بھائی تم ناممکن کی امید کر رہے ہو۔ فرقہ واریت، مذہبی کٹّر پن اور اس سے پیدا شدہ عصبیت کا پوری دنیا میں دور دورہ رہا ہے جس کے باعث تہذیبیں برباد ہو گئیں، تشدد نے جنم لیا اوردہشت گردی نے پورے کرّۂ ارض کو خون میں نہلا دیا۔ورنہ آج انسانی معاشرہ اس سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہوتا جتنا وہ آج ہے،لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ موجودہ اجتماع کا نتیجہ اس عصبیت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا، ظلم، خواہ تلوار سے ہو رہا ہو یا قلم سے، کچل دیا جائے گا اور مختلف راہوں سے ایک ہی منزل کا سفر کر رہے انسانوں کے مابین ہر قسم کے افتراق اور نفرت کا خاتمہ ہو جائے گا۔‘‘ شکاگو میں ہونے والا یہ اجتماع عالمی سطح پر بین المذاہب مکالمے کی ابتدا تھی اور وہاں کی گئی سوامی وویکا نند کی یہ تقریر ایک قابلِ فخر تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس تقریر نے نہ صرف ہندو ازم بلکہ ہندوستان کو ایک معزز عالمی پلیٹ فارم عطا کیااور اس کے بعد ہی مذہب سے دور اور روحانی فلسفے سے محروم مغربی دنیا میں ہرے رام ہرے کرشن جیسی تحریکوں اور روحانی تنظیموں کا سیلاب سا آ گیا۔ قابلِ ذکر ہے کہ11ستمبر 2017 کو وزیر اعظم مودی نے اس تقریر کی ایک سو پچیسویں سالگرہ منا کر اس کی یاد تازہ کی تھی۔
مذکورہ بالا اجتماع کا موازنہ کیجیے 16سے 19دسمبر تک ہری دوار میں منعقد کئے گئے دھرم سنسد (مذہبی پارلیمنٹ) سے جہاں یتی نرسنگھا نند،پربھودآنند،انّا پورنا اور جتندر نارائن تیاگی (وسیم رضوی ) اور دیگر لوگوں نے انتہائی اشتعال انگیز تقاریر کرتے ہوئے ہندوؤں کو مسلمانوں کی نسل کشی کے لئے اکسایا۔صاف الفاظ میں کہا گیا کہ اگر ہندو راشٹر قائم کرنا ہے تو ہندوؤں کو کاپی کتاب چھوڑ کر ہتھیار اٹھانے پڑیں گے تاکہ مسلمانوں کا صفایا کیا جا سکے اور ہندو راشٹر کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ دور ہو جائے۔یہی نہیں اس کے بعد مذکورہ چند لوگوں نے ہری دوار کے تھانے میں جا کر مسلمانوں اور قرآن کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کرائی جس میں کہا گیا کہ مسلمان ہندوؤں کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں وغیرہ اور یہ سب کچھ دھرم یعنی مذہب کے نام پر کیا گیا۔تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ کس مذہب کی دہائی دے رہے ہیں ؟ کس ہندو ازم کی بات کر رہے ہیں؟ کیا سوامی وویکا نند کا ہندو ازم کچھ اور تھا؟ نیز کون سا ہندو دھرم گرنتھ اپنے پیروؤں کو اس قسم کے تشدد اور دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے؟
دھرم سنسد کے اختتام پر تمام تقاریر کی خبریں اور ویڈیو وغیرہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں اور پوری دنیا سے ان واقعات کے خلاف زبر دست منفی ردِ عمل ظاہر ہوا۔ ہر چہار اطراف سے اس پورے ڈرامے کی مذمت کی گئی۔اس بات پر بھی حیرت ظاہر کی گئی کہ اتنے سنگین جرم کا ارتکاب ہونے پر بھی مجرمین کے خلاف فوری طور سے کسی قسم کی کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی حکومت اور وزیر اعظم کی جانب سے کسی قسم کے ردِ عمل کا اظہار ہوا۔ یاد رہے کہ امریکی کانگریس (پارلیمنٹ) کے ذریعے تشکیل کردہ ایک بین الاقوامی تنظیم ’ کمیشن برائے مذہبی آزادی‘ نے بھارت کو مذہبی آزادی سلب کئے جانے اور حقوقِ انسانی کی خلاف ورزیوں کی روشنی میں بلیک لسٹ کیا ہوا ہے۔ اس تازہ ترین واقعے سے عالمی سطح پر ملک کی شبیہ مزید خراب ہوئی ۔
بی جے پی حکومت والی تمام ریاستوں میں پچھلے چند سال کے دوران مسلم فنکاروں اور صحافیوں وغیرہ کو فرضی الزامات کے تحت گرفتار کر کے ان کے خلاف UAPA جیسے سخت قانون نیز تعزیراتِ ہند میں موجود شورش اور غداری وغیرہ کی دفعات کے تحت مقدمے قائم کر دیئے گئے اور ان میں سے بیشتر لوگ ابھی تک جیلوں میں ہیں۔دوسری جانب ہندوتو اور ہندو راشٹر کے نام پر اس قسم کی اشتعال انگیز تقاریر اور دیگر غیر قانونی حرکتوں اور سرگرمیوں کے کھلم کھلا ارتکاب کے باوجود قصور واران کے خلاف مروجہ قوانین کے تحت کوئی سخت کارروائی نہیں کی جاتی جس کے دو مفاہیم سامنے آتے ہیں۔پہلا تو یہ کہ اس قسم کے سماج دشمن عناصر کو اور زیادہ کھل کھیلنے کی ہمت ہوتی ہے اور دوسرا یہ کہ ایسے لوگوں کے پسِ پشت کوئی سیاسی قوت ہے جس کے ذریعے دفاع کی ضمانت ان لوگوں کو حاصل ہے۔ یہ دونوں ہی باتیں ملک میں امن و قانون کی کیفیت ہی نہیں بلکہ قومی سلامتی کے لئے سمِ قاتل ثابت ہو سکتی ہیں۔
حالات کی سنگینی کا سب سے بڑا ثبوت تو یہی ہے کہ ہر طرف سے صدائے احتجاج بلند ہوئی اور پانچ سابقہ سربراہانِ مسلح افواج نے صدرِ جمہوریہ کو خط لکھ کر ہری دوار کے دھرم سنسد میں ہوئے افسوسناک واقعات پر کارروائی کا تقاضا کیا۔ اس کے بعد ہی پولیس کی جانب سے مقدمہ وغیرہ درج تو ہوا لیکن تا دمِ تحریر اہم ملزمین میں سے ایک کی بھی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی اور پورا معاملہ ’’ زیر تفتیش‘‘ ہی ہے۔پانچ ارکان پر مشتمل ایک خصوصی تفتیشی ٹیم کی تشکیل کی گئی ہے جو نفرت انگیز تقاریر کے معاملے کا جائزہ لے کر رپورٹ مرتب کرے گی، حالانکہ موجودہ قوانین کے مطابق جو جرم ان لوگوں سے سرزد ہوئے وہ سب کے سب قابلِ دست اندازیٔ پولیس ہیں اور ایسی صورتِ حال میں پولیس مرتکب کو فوراً گرفتار کرنے کی مجاز ہی نہیں پابند ہوتی ہے۔فلم اسٹار نصیر الدین شاہ ہی نہیںبے شمار غیر مسلم دانشوران کا بھی کہنا ہے کہ اس قسم کے واقعات میں ڈھیل دیا جانا ملک کی یکجہتی اور سلامتی کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔لیکن یہ سب کچھ ہو جانے کے بعد بھی وزیر اعظم کی خاموشی چیخ چیخ کر کچھ اور ہی کہہ رہی ہے !
[email protected]