عبیداللّٰہ ناصر
ہندوستان میں آج جو بھی سیاسی اور سماجی ماحول ہے، وہ آر ایس ایس کی سو سالہ محنت و دیرینہ خواب کا نتیجہ ہے۔ آر ایس ایس کیسا ہندوستان چاہتا ہے، یہ سنگھ کے نظریہ سا ز اور دوسرے سربراہ گرو گولوالکر نے اپنی کتا ب ’بنچ آف تھاٹس‘ میں بہت تفصیل سے لکھ دیا ہے۔ دراصل یہی نظریہ اور یہی کتاب آر ایس ایس اور اس کے کارکنوں کی گیتا ہے، اس نے کبھی آئین ہند کو دل سے نہیں تسلیم کیا ہے۔آر ایس ایس کے قیام سے پہلے اس کے اصل بانی ڈاکٹر منجے ہٹلر سے ملنے جرمنی گئے تھے، وہ ہٹلر کی یہودی دشمنی اور اس کی نسلی تطہیر کی پالیسی اور آریوں کی نسلی برتری کے احساس سے بہت متاثر تھے، ہٹلر سے تو وہ نہیں مل سکے لیکن جرمنی میں ایک ہفتہ رک کر ہٹلر کی نازی پارٹی کے طریق کار کو اچھی طرح سمجھا، ا س کے بعد وہ مسولنی سے ملنے اٹلی گئے۔ مسولینی سے ان کی ملاقات بھی ہوئی اور انہوں نے فاشسٹ پارٹی کے طریق کار کو سمجھا، خاص کر اس کے نوجوانوں کی ورزش وغیرہ سے متاثر ہوئے اور نوجوانوں کی ایک ایسی ہی تنظیم کھڑی کرنے کے لیے ہندوستان میں جگہ جگہ جمنیزیم قائم کیے۔لب لباب یہ کہ آر ایس ایس ہٹلر کے طرز پر ہی ہندوستانی مسلمانوں، عیسائیوں اور کمیونسٹوں کی دشمن تنظیم ہے۔ ’بنچ آف تھاٹس‘ میں گولوالکر نے صاف لکھا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے دو سرے درجہ کا شہری ہونے کے علاوہ اور کوئی جگہ نہیں ہے، جہاں ان کے کوئی قانونی اور شہری حقوق نہیں ہوں گے۔ لیکن جنگ آزادی میں مہاتما گاندھی نے جو آدرش اور اصول مرتب کر دیے تھے، وہی ہندوستان کی روح ہے اور اسی کوہندستانی آئین میں پرو دیا گیا ہے۔ بادل نخواستہ آر ایس ایس کو اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا اور 70برسوں تک وہ دل پر پتھر رکھ کر اسے قبول کیے رہی لیکن جب 2014میں اسے بلا شرکت غیرے اقتدار ملا تو اس نے اپنے نظریہ کا ہندوستان بنانے کی مہم شروع کر دی اور آئین کے الفاظ سے چھیڑ چھاڑ کیے بغیر اس کی روح مجروح کرنا شروع کر دیا۔ ویسے تو اس کا اصل نشانہ مسلمان ہی ہیں اور ان کی زندگی اجیرن کرنے کے لیے نت نئے طریقے تلاش کیے جاتے ہیں لیکن عیسائی بھی محفوظ نہیں ہیں اور دلتوں پر بھی مشق ستم ہوتا رہتا ہے۔
یہیں پر ایک سوال اچھے اچھے سیاسی پنڈتوں، مبصروں اور سماجی کارکنوں کو تذبذب میں ڈال رہا ہے کہ ایک ایسے ماحول میں جب سنگھ کا دیرینہ خواب شرمندۂ تعبیر ہونے کے بہت قریب دکھائی دے رہا ہے، سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت اس تیز رفتاری سے چل رہی گاڑی کو بریک کیوں لگا رہے ہیں؟ وہ جس طرح سے کھلے عام ہر مسجد کے نیچے مندر تلاش کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں، مسلمانوں کے بغیر ہندو تو کو نامکمل بتا رہے ہیں، سب ہندوستانیوں کا ڈی این اے ایک ہی بتا رہے ہیں یہ سب تو آر ایس ایس کے نظریہ سے متصادم ہے۔کیا بھاگوت جی کو احساس ہو رہا ہے کہ جو کچھ بھی اس وقت ملک میں ہو رہا ہے، وہ بھلے ہی کبھی آر ایس ایس کا خواب رہا ہو لیکن اب یہ ہندوستان کے لیے ایک بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ کیا انہیں احساس ہو رہا ہے کہ عالمی برادری میں آر ایس ایس ایک انتہا پسند تنظیم سمجھی جانے لگی ہے اور اگر ہندوستان کے ایک بڑے طبقہ کے ساتھ اس کی پارٹی کی سرکاروں کے ذریعہ ظلم و زیادتی اور لا قا نونیت کا یہ سلسلہ جاری رہا تو ملک کے ساتھ ساتھ خود آر ایس ایس عالمی برادری میں نہ صرف معتوب ہوگی بلکہ اس پر بہت سی پابندیاں بھی لگ سکتی ہیں۔ادھر بھاگوت جی اپنے ان بیانوں کی وجہ سے خود اپنی ہی تنظیم کے لوگوں کی تنقید کا نشانہ بن گئے ہیں۔ در اصل مودی ہوں یا یوگی یا امت شاہ یہ کٹروادی ہندوؤں کے ہیرو ہوگئے ہیں، حالت یہ ہے کہ مودی کی تصویر بھگوان رام سے بڑی بنا دی گئی اور ہندوؤں کے اس طبقہ نے اسے قبول کر لیا۔ ہر ہر مہادیو کے دیومالائی نعرہ کی جگہ ہر ہر مودی ہوگیا اور ان ہندوؤں نے اسے بھی قبول کر لیا۔ رام مندر کے افتتاح کے موقع پر شنکرآچاریہ نے مودی کی مخالفت میں کچھ کہہ دیا تو اتنی بڑی مذہبی شخصیت کو بھی ٹرول کرنا شروع کر دیا گیا۔
ہندوستان کی سیاست اور سماجی ماحول دونوں اس وقت انتہا پسندی کا شکار ہیں۔ جمہوریت اختلاف رائے سے ہی عبارت ہے لیکن اس میں دشمنی کا عنصر نہیں ہوتا ہے۔ اسی طرح مختلف النوع سماج میں اختلاف لازمی ہیں لیکن اگر اس اختلاف میں دشمنی شامل ہو جائے تو پھر بربادی ہی مقدر ہوتا ہے۔ ڈر لگ رہا ہے کہ یہ دشمنی کا جذبہ ہندوستان کی جمہوریت اور سماجی تانے بانے کو تہس نہس کر دے گا اور اس کی بہت بڑی قیمت ہم سب کو ادا کرنی پڑے گی۔ سماج کا کوئی طبقہ اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ ممکنہ تباہ کی شکل میں محفوظ رہے گا تو یہ اس کی خام خیالی ہے، کم یا زیادہ تباہی کی یہ قیمت سب کو ادا کرنی پڑے گی۔ ہمارے روشن ضمیر، دوراندیش بزرگوں نے آزادی کے بعد ہندوستان کے لیے ایک سیکولر جمہوری نظام کی بنیاد اسی وجہ سے ڈالی تھی تا کہ اتنا مختلف النوع ملک سب کو ساتھ لے کر آگے بڑھ سکے، اسی سیکولر جمہوری نظام نے ملک کو اتنے دنوں تک متحد رکھا،سیاسی، مذہبی اور سماجی اختلاف کبھی دشمنی میں نہیں بدلنے دیے گئے۔ آج وہ تمام قدریں، وہ تمام آدرش اور اصول جن پر ملک ناز کرتا تھا اور ساری دنیا میں جس کی تعریف ہوتی تھی وہ سب پامال ہو رہے ہیں۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ فیروز گاندھی مخالف امیدوار کی مالی امداد کر کے اسے اپنے خلاف الیکشن لڑاتے تھے۔ رام نریش یادو جب تک گاؤں اور ضلع کی سیاست کرتے تھے، تب ان کے ایک مسلمان حریف ہوا کرتے تھے، جب وہ وزیراعلیٰ ہو کر اپنے گاؤں آئے تو سب سے پہلے اسی حریف کے گھر پہنچے۔ بولے سید صاحب آج سے سارے سیاسی اختلاف ختم، آپ کو جب بھی کوئی ضرورت ہو،کوئی کام پڑے، بلا جھجھک مجھ سے بتائیے گا۔ پارٹیاں سینئر اور بڑے لیڈروں کے خلاف مضبوط امیدوار نہیں اتارتی تھیں کیوں کہ ایسے ارکان کی ایوان میں ضرورت سمجھتی تھیں اور ایک زمانہ یہ ہے کہ فریق مخا لف کی ایوان کی رکنیت ہی نہ بچے، اس کی ساز شیں کی جاتی ہیں۔ جب ہماری جمہوریت نئی نئی تھی، اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی تیاریاں کر رہی تھی، تب اس کے یہ اصول اور آدرش تھے، آج جب ہم جمہوریت کا امرت کال منا رہے ہیں تو ہر حساس فکرمند انسان یہ سوچ رہا ہے کہ ہماری سیکولر آئینی جمہوریت بچے گی بھی یا نہیں۔تب ہمارے لیڈروں کو ملک کی تعمیر کی فکر تھی، وہ جانتے تھے کہ اگر ملک، مذہب، ذات، علاقہ، ز بان کی بنیاد پر دست بگریبان رہے گا تو ترقی نہیں کر سکے گا، اس کے لیے ایک جانب انہوں نے ان تمام بنیا دوں کے ساتھ انصاف یقینی بناکر اس کی آئینی گارنٹی دی اور نہ صرف اپنے قول و فعل بلکہ اپنی سیاسی مہم میں بھی سماجی اتحاد اور بھا ئی چارہ کوہی عنوان بنایا، برخلاف اس کے آج کیا ہو رہا ہے، کسی بھی طبقہ کے ساتھ نا انصافی نہ کرنے اور سب کے ساتھ برابر کا سلوک کرنے کا آئینی حلف لے کر کھلے عام پوری بے شرمی اورڈ ھٹا ئی کے ساتھ اس کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، فرقہ پرستی اور مسلم دشمنی سکہ رائج الوقت بن گیا ہے جوجتنا بڑا مسلم دشمن، وہ اتنا ہی بڑا لیڈر بننے کے خواب دیکھ رہا ہے۔
آج حالت یہ ہے کہ مسلمان کی ماب لنچنگ ہوتی ہے، ان کے گھر پربلڈ وزر چلتا ہے، انہیں ہندو محلوں میں کرایہ پر مکان لینے یا خریدنے کی اجازت نہیں ہے، ان کے معاشی بائیکاٹ کی کھلے عام اپیل ہوتی ہے تو ایک طبقہ خوشیاں مناتا ہے، اسے حق بجانب قرار دیتا ہے جبکہ قانون، آئین اور عوام سب خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں اور حکومتیں ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ مسلمانوں کی نسل کشی کی کھلے عام ڈنکے کی چوٹ پر بات کہی جاتی ہے۔ 60 لاکھ مسلمانوں کے قتل کا نشانہ رکھا جاتا ہے اور حکومت چپ بیٹھی رہتی ہے۔ مسلمان کیا کھائیں گے، کیا پہنیںگے، کب اور کیسے عبادت کریں گے، یہ سب دوسرے لوگ طے کریں گے۔ ان کی مسجدوں و مزاروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اپنے مالک(وزیراعلیٰ) کو خوش کرنے کے لیے غلام(افسران) کھلے عام پوری ڈ ھٹائی کے ساتھ قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے مسلمانوں کا عرصۂ حیات تنگ کرتے ہیں اور جو افسر ذرا سا بھی قانون کے مطابق کام کرتا ہے، اس کو فوراً سزا دے دی جاتی ہے۔کم وبیش مسلمانوں کی حالت وہی بنا دی گئی ہے جو نازی جرمنی میں یہودیوں کی تھی۔
ہندوستان کے 20-25کروڑ مسلمان ہندوستان کا جزء لاینفک ہیں، انہیں نہ تو بحر ہند میں ڈبویا جا سکتا ہے نہ کسی دوسرے ملک میں دھکیلا جا سکتا ہے اور نہ ان سب کی نام نہاد گھر واپسی کرائی جا سکتی ہے، وہ یہیں رہیں گے اور یہیں کی مٹی میں مل جائیں گے۔ ہمارے سامنے دوہی راستے ہیں، پرامن بقائے باہم کا راستہ اختیار کرتے ہوئے مل جل کر رہیں اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا بھر پور تعاون دیں یا آپس میں لڑ بھڑ کر ملک کو تباہی کے غار میں دھکیل دیں۔آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے بہت بر موقع ایک نصیحت دی ہے، کاش ان کے ہی چیلے ان کا مشورہ مان کر ملک میں آگ لگانے کا سلسلہ بند کر دیں۔
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے تذکرے ہیں آسمانوں میں
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں