کووڈ-19 سے تباہ حال دنیا بحالی کی جانب بڑھ ہی رہی تھی کہ اومیکرون نام کا ویرینٹ ایک نئی دہشت بن کر نازل ہوگیا ہے۔ کووڈ19-کی یہ انتہائی مہلک متعدی قسم اب تک دنیا کے 90 ممالک کو اپنی زد میں لے چکی ہے۔ اس انفیکشن کی سرعت رفتار کا عالم دیکھ کر لگ رہاہے کہ ہفتہ عشرہ میں ہی یہ دنیا کے باقی ماندہ ممالک کو بھی اپناشکار بنا لے گا۔ویکسین کی دونوں خوراکیں لینے کے باوجود برطانیہ میں روزانہ انفیکشن کی تعداد ریکارڈ بلندیوں پر پہنچ رہی ہے۔ امریکہ جیسے سپر پاور کے اعصاب پر بھی کووڈ19-کا یہی ویرینٹ سوار ہے۔ نیویارک، نیوجرسی، واشنگٹن، لاس اینجلس، شکاگووغیرہ جیسے ا نتہائی ترقی یافتہ شہروں کے 90فیصد سے زیادہ مریض اومیکرون سے ہی متاثر ہیں۔ یوروپ کے کئی ممالک میںتو لاک ڈائون لگانے پر مجبور ہوجانا پڑا ہے۔حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ کرسمس جیسے تہواروں پر بھی بہت سی پابندیاں لگادی گئی ہیں۔ غیر ملکیوں کو چھلنی سے چھان کر ملک میں داخلہ کی اجازت دی جارہی ہے۔ ہندوستان جنت نشان بھی اومیکرون کی زد پر آچکا ہے۔ملک کی 16 ریاستیں اس کی ہلاکت خیزی کے دائرہ میں ہیں۔کورونا متاثرین میں سے 346ایسے افراد نشان زد کیے جاچکے ہیں جن میں اومیکرون کا انفیکشن پایا گیا ہے۔ ایک دن پہلے تک یہ تعداد فقط 200 تھی۔
کورونا کے سابقہ ڈیلٹا ویرینٹ کا تجربہ بتاتا ہے کہ انفیکشن کی اگلی چھلانگ میں بہت کم وقت لگتا ہے اور اومیکرون کی ترسیل کی صلاحیت تو ڈیلٹا کے مقابلے تین گنا زیادہ ہے، اس سے یہ اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ اگر اومیکرون کو روکا نہیں گیا تو یہ ہندوستان میں کورونا کی تیسری لہر ثابت ہوسکتا ہے۔ حالات کی یہ سنگینی تقاضا کررہی ہے کہ پابندیاں سخت کی جائیں، بھیڑ بھاڑ پر قابو پایا جائے، عوامی جلسے جلوس پر مکمل پابندی لگائی جائے تاکہ کورونا کی تیسری لہر سے ہندوستان کو محفوظ رکھاجاسکے۔ لیکن ہندوستان کا باواآدم ہی نرالا ہے۔ جن کے ذمہ صحت کی دیکھ بھال کی بنیادی ذمہ داری ہے وہ عملی اقدامات کے بجائے ریاستوں کو متنبہ کررہے ہیں، چٹھی لکھ رہے ہیں ا ور ڈاٹا طلب کررہے ہیں۔ ویکسین مہوتسو کا ڈھول پیٹے جانے کے بعد بھی ویکسی نیشن کی رفتار کا یہ عالم ہے کہ اب تک ملک کی فقط35فیصد آبادی کو ہی دونوں خوراکیں دی جاسکی ہیں۔ بوسٹر ڈوز دیے جانے کی عالمی صحت تنظیم کی اپیل بھی فغان درویش کی طرح ہی ان سنی کی جارہی ہے۔
ہر چند کہ اترپردیش، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور کئی ایک دوسری ریاستو ں میں رات کا کرفیو اور چند ایک پابندیاں لگائے جانے کا اعلان کیاگیا ہے لیکن سابقہ تجربات بتارہے ہیں کہ یہ جزوی پابندیاں اورا قدامات حالات کو قابو میں کرنے کیلئے ناکافی ہیں۔ایسے میں اگلے ماہ پانچ ریاستوں میں اسمبلی کے انتخابات بھی ہونے ہیں جس کیلئے کافی پہلے سے ہی جلسے جلوس اور سیاسی ریلیاں کی جارہی ہیں۔ خدشہ یہ ہے کہ اگرا ن سیاسی ریلیوں کو بند نہیں کیاگیا اور جلسے جلوس پر مکمل پابندی نہیں لگائی گئی تو ملک کورونا کی تیسری لہرکا شکار ہوسکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے بھی اترپردیش میں ہونے والے اسمبلی انتخاب کے موخر کیے جانے پر غور کرنے کی اپیل کی ہے۔الٰہ آباد ہائی کورٹ نے وزیر اعظم نریندر مودی اور الیکشن کمیشن آف انڈیا پر زور دیا کہ وہ اومیکرون کے خطرے کے پیش نظر اگلے سال ہونے والے اتر پردیش کے انتخابات میں تاخیر پر غور کریں۔ جسٹس شیکھر یادو نے وزیراعظم اور الیکشن کمیشن سے درخواست کی ہے کہ وہ یوپی الیکشن کو ملتوی کرنے اور سیاسی ریلیوں پر پابندی لگانے پر غور کریں۔جسٹس یادو کا کہنا ہے کہ جان ہے تو جہاں ہے، جب تک زندگی ہے، امید قائم ہے اور اسی لیے اسمبلی انتخابات میں عوام کو کورونا کی تیسری لہر سے بچانے کیلئے انتخابی مہم ٹیلی ویژن اور اخبارات کے ذریعہ چلائی جائیں اور سیاسی جماعتوں کی انتخابی ریلیوں پر پابندی لگائی جائے۔ممکن ہو تو انتخاب ملتوی کرنے پر بھی غور کیاجانا چاہیے۔
ظاہرہے کہ عدالت اس معاملے میں اپیل سے آگے بڑھ کر کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیوں کہ انتخابات کرانا یا نہ کرانا آئینی ادارہ الیکشن کمیشن کے دائرہ کار میں آتا ہے جس کا کہناہے کہ اس کی ٹیم اگلے ہفتہ ریاستوں کے دورہ پر جائے گی اور حالات کا جائزہ لینے کے بعد ہی انتخابات موخریا ملتوی کیے جانے کا فیصلہ لیاجاسکتا ہے۔یہ درست ہے کہ وقت پر انتخاب کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے لیکن عوام کی جان کی قیمت پرا نتخابات کرانا کسی بھی حا ل میں مناسب نہیں کہاجاسکتا ہے۔اسی سال ہونے والے مغربی بنگال، آسام اور دیگر ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات بتارہے ہیں کہ کمیشن انتخاب کو موخر نہیں کرتا ہے تو ہندوستان میں کورونا کی تیسری لہر کو روکنا ممکن نہیں ہوپائے گا۔انتخاب اگر چند مہینوں کیلئے ٹال دیے گئے تو کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی لیکن اگرا نتخاب کرائے گئے تو قیامت کا ٹوٹ پڑنا یقینی ہے۔حکومت تو چند مہینوں بعد بھی بنائی جاسکتی ہے لیکن انسانی جان واپس نہیں لائی جاسکتی۔ان حالات میں الیکشن کمیشن اور وزیراعظم کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کی اپیل پرضرور غور کرنا چاہیے بقول شاعر
میر عمداً بھی کوئی مرتا ہے
جان ہے تو جہان ہے پیارے
[email protected]
جان ہے تو جہان ہے پیارے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS