آئی سی سی کا فیصلہ اور رکن ممالک کی ذمہ داری: صبیح احمد

0

صبیح احمد

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوو گیلنٹ جنہیں انہوں نے 15 دن قبل برطرف کر دیا تھا، اب بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کو مطلوب افراد ہیں، جن پر غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا الزام لگایا گیا ہے۔ اب تقریباً 124 ممالک ان کے لیے مؤثر طریقے سے شجر ممنوعہ ہوگئے ہیں۔ اگر نیتن یاہو یا گیلنٹ نے آئی سی سی کے کسی بھی رکن ملک میں قدم رکھا ، جن میں برطانیہ اور یوروپ کا بیشتر حصہ شامل ہے تو انہیں گرفتاری کے خطرے کا سامنا ہے۔ برطانیہ کی حکومت پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ وہ اس قانون کی پیروی کرے گی، جو دونوں افراد کو حراست میں لینے کے لیے پر عزم لگتی ہے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق ان دونوں اسرائیلی رہنمائوں کے لیے اب دروازے بند ہو گئے ہیں۔

بہرحال بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی جانب سے یہ وارنٹ گرفتاری جنگی جرائم پر احتساب کی لڑائی میں ایک تاریخی سنگ میل کی اہمیت رکھتے ہیں۔ آئی سی سی کی کارروائی اسرائیل کی قیادت کے لیے دہائیوں سے جاری نام نہاد استثنیٰ کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ اسے چیلنج بھی کرتی ہے جسے ناقدین اسرائیل کی دیرینہ ’استثنیٰ کی ڈھال‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ اس کارروائی کا جو ردعمل سامنے آیا، وہ متوقع تھا۔ نیتن یاہو نے آئی سی سی کے فیصلے کو ’یہودی دشمنی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی سخت مذمت کی، جبکہ حماس نے اسرائیلی رہنماؤں کے خلاف وارنٹ کو ’اہم تاریخی نظیر‘ کے طور پر سراہا۔ غزہ، مغربی کنارہ اور مشرقی یروشلم آئی سی سی کے دائرۂ اختیار میں آتے ہیں جو اس جرأت مندانہ قدم کے لیے قانونی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اب ان وارنٹس کے حوالے سے اصل امتحان آئی سی سی کے 124 رکن ممالک کا ہے، جو قانونی طور پر ملزم کو گرفتار کرنے اور انہیں دی ہیگ منتقل کرنے کے پابند ہیں۔ اگر یہ ممالک اس فیصلے پر عمل آوری میں ناکام ہو گئے تو بین الاقوامی قانون بے نقاب ہو جائے گا، اس کی ساکھ بھی مجروح ہو جائے گی اور طاقتور ملکوں اور ان کے اتحادیوں کو ’استثنیٰ‘ کی آڑ میں انصاف کو روندنے کی اجازت مل جائے گی۔ ان وارنٹس کو نافذ کرنا صرف ایک قانونی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ اس اصول کو برقرار رکھنے کے لیے ایک اخلاقی ذمہ داری بھی ہے کہ کوئی بھی رہنما قانون سے بالاتر نہیں ہے۔

بین الاقوامی عدالت کا یہ مینڈیٹ انفرادی جوابدہی اور ریاستی ذمہ داری دونوں کا مطالبہ کرتا ہے، حکومتوں کو مبینہ جنگی جرائم کی مدد یا ان کی حوصلہ افزائی سے روکتا ہے۔ روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے خلاف آئی سی سی کی کارروائی کی حمایت کرنے والے کئی یوروپی ممالک کو اب اسرائیل کے خلاف اپنی ذمہ داریوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ وارنٹس کو نافذ کرنے میں ناکامی سے عزائم اور وعدوں میں خیانت اور کثیرالجہتی انصاف پر اعتماد ختم ہونے کا خطرہ ہے۔ اسرائیل کی طرح امریکہ بھی آئی سی سی کی اتھارٹی کو تسلیم نہیں کرتا۔ آئی سی سی کے دائرۂ اختیارا کو واشنگٹن کی جانب سے مسلسل مسترد کیے جانے اور عالمی عدالت کے ساتھ تعاون کرنے والے ملکوں کے خلاف پابندیوں کی دھمکیوں سے یہ پریشان کن پیغام ملتا ہے کہ بین الاقوامی قانون صرف کمزور ممالک پر لاگو ہوتا ہے، عالمی طاقتوں یا ان کے اتحادیوں پر نہیں۔ اس طرح کی مزاحمت عالمی نظام انصاف کو کمزور کرتی ہے اور ان اصولوں پر سوالیہ نشان لگاتی ہے جن کی پاسداری کا امریکہ دعویٰ کرتا ہے۔ ان وارنٹوں کو جاری کیے جانے میں جن جرائم کو خاص طور پر مرکز میں رکھا گیا ہے، ان میں بین الاقوامی انسانیت نواز قانون کی سنگین خلاف ورزیوں کے ساتھ ساتھ جنگ کے ہتھیار کے طور پر بھوکا مارنا اور عام شہریوں پر جان بوجھ کر حملے کرنا شامل ہیں۔ جب اس طرح کی کارروائیاں منظم طریقے سے اور ریاست کی طرف سے ہوتی ہیں تو وہ احتساب کا مطالبہ کرتی ہیں۔ انصاف کے حصول کے لیے آئی سی سی کی یہ کارروائی سیاسی مزاحمت کے باوجود بین الاقوامی برادری کے عالمی اصولوں کو برقرار رکھنے کے عزم کا امتحان لیتی ہے۔

یقینا نیتن یاہو کا قصور بہت سنگین ہے۔ آئی سی سی کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ اسرائیل کے رہنماؤں کے خلاف اس کے مقدمہ کی بنیاد غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی سے متعلق ہے۔ آئی سی سی کا کہنا ہے کہ اس بات پر یقین کرنے کی معقول بنیادیں موجود ہیں کہ نیتن یاہو اور گیلنٹ نے ’دانستہ اور جان بوجھ کر غزہ کی شہری آبادی کو ان چیزوں سے محروم رکھا جو ان کی بقا کے لیے ناگزیر ہیں، جن میں خوراک، پانی، ادویات اور طبی سامان کے ساتھ ساتھ ایندھن اور بجلی شامل ہیں۔‘ اسرائیل کو غزہ میں ضروری اشیا کی وافر فراہمی کو یقینی بنانے کی بنیادی طور پر جو وجہ ہے، بظاہر وہ اخلاقی ہے۔ لیکن آئی سی سی کہتا ہے کہ ’جنگ کے طریقہ کار کے طور پر فاقہ کشی‘ کا استعمال ناقابل دفاع ہے۔ دوسری وجہ حکمت عملی ہے۔ حتیٰ کہ اسرائیل سے ہمدردی رکھنے والی امریکی اعلیٰ فوجی شخصیات نے بھی ملک کی قیادت کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ یہ واضح کر دینا دانشمندی ہوگی کہ اس کی جنگ غزہ کے فلسطینیوں کے ساتھ نہیں بلکہ حماس کے ساتھ ہے۔ اسے غزہ کے شہریوں کو وہ تمام خوراک اور ادویات فراہم کرنی چاہیے تھیں جن کی انہیں ضرورت تھی، تاکہ حماس اور غزہ کے عام شہریوں کے درمیان پھوٹ ڈالی جائے۔ اس کے بجائے اس نے سخت زندگیوں کو مزید سخت بنا دیا اور نئی نسل کے دلوں میں نفرت کے بیج بودیے۔ یہ ایک بھیانک اسٹرٹیجک ناکامی ہے۔

یہ وقت صرف قانونی کارروائی کا تقاضہ نہیں کرتا۔ یہ بین الاقوامی نظام کے لیے ایک بنیادی چیلنج ہے۔ آئی سی سی کے اقدامات سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ طاقتور ترین ممالک کو بھی انسانیت نواز قانون کی خلاف ورزیوں کا جواب دینا ہوگا۔ اگر رکن ممالک عمل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو بین الاقوامی قانون کے بے معنی ہونے کا خطرہ لاحق ہوجائے گا۔ متبادل واضح ہے: انصاف اور قانون کے اصولوں کو برقرار رکھا جائے یا ایسی دنیا کو قبول کیا جائے جہاں طاقت استثنیٰ کا تعین کرتی ہے۔ عدالت کے فیصلے پر عمل کرنے سے بدمعاش ریاستوں میں گھٹنوں کے بل آنے کا خوف پیدا ہوگا۔ ان اصولوں کا تحفظ ایک منصفانہ بین الاقوامی نظام کے لیے ضروری ہے جہاں قانون سب کی حفاظت کرتا ہے نہ کہ صرف مضبوط لوگوں کی۔ آئی سی سی کے وارنٹ میں ایک طاقتور پیغام موجود ہے۔ اور وہ ہے جنگی جرائم کے لیے بے لگام استثنیٰ کا دور لازمی طور پر ختم ہونا چاہیے۔

ماہرین کے مطابق اس بات کا امکان ہے کہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ لیکن ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اسرائیل کے خلاف سنگین ترین الزام کہ وہ نسل کشی کر رہا ہے، قانونی طور پر برقرار نہیں رہ سکتا۔ بہرحال جو بھی قانونی دائو پیچ ہو، آئی سی سی کے اس فیصلے کا بہت بڑا اثر پڑنے والا ہے۔ اس سے اسرائیل کے ہتھیاروں پر پابندی اور نچلی سطح کی اسرائیلی سیاسی اور فوجی شخصیات کے خلاف مجرمانہ تحقیقات کے مطالبات کو تقویت ملے گی۔ یہ اسرائیل کو بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ کرنے کی راہ ہموارکرے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ 7 اکتوبر کے حملے کے بعد حماس کی حکمت عملی کے عین مطابق اسرائیل غم اور غصے سے اس قدر پاگل ہوگیا کہ ایسے طریقوں سے حملہ شروع کردیا جس سے اس کی بین الاقوامی قانونی حیثیت مجروح ہو گئی۔ نیتن یاہو از خود حماس کے جال میں چلا گیا۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS