حمیرا کنول
کابل سے سمیعہ (فرضی نام) نے مجھے ایک تصویر بھیجی اور لکھا ’یہ میری یونیورسٹی کی تصویر ہے۔ دیکھیے اب وہاں طالبان نے اپنا جھنڈا لگا دیا ہے۔‘انھوں نے مزید لکھا: ’میں نے تین سال اس یونیورسٹی میں پڑھا لیکن میری تعلیم اور سب کچھ ختم ہو گیا۔ میں زندہ بھی رہ جاؤں تو پھر زندگی کیسی ہو گی۔ ایسی زندگی کے خواب کبھی نہیں دیکھے تھے۔‘غزنی سے ایک مشکل سفر کے بعد اپنے کنبے کے نو افراد کے ساتھ کابل پہنچنے والی 22 برس کی سمیعہ بھی ان خاندانوں میں شامل ہیں جن کے گھروں میں طالبان دستک دے چکے ہیں۔
سمیعہ اب کابل میں ایک گھر میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ سمیعہ کے ساتھ میرا رابطہ اس روز ہوا جب وہ غزنی سے کابل پہنچی تھیں۔ ان کے ساتھ گذشتہ دنوں میں ہونے والی گفتگو میں یہاں تحریر کر رہی ہوں۔سمیعہ نے اپنی کہانی اپنے حقیقی نام کے ساتھ شائع ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تاہم ان کی حفاظت کے پیش نظر بی بی سی نے ان کا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔
سمیعہ کہتی ہیں کہ ’یہاں کچھ بھی ٹھیک نہیں۔ آپ ہمیں اپنی دعاؤں میں مت بھولیے گا۔ پلیز میری مدد کریں میں اس سے زیادہ افغانستان میں نہیں رکنا چاہتی۔‘سمیعہ کے کابل پہنچتے ہی یہاں طالبان کا قبضہ ہوا اور پھر سمیعہ کے خاندان کو خبر ملی کہ طالبان گھر گھر تلاشی لے رہے ہیں۔
’طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کہتے ہیں کہ طالبان کے دشمن وہ لوگ ہیں جنھوں نے ان کے خلاف جنگ کی۔ لوگوں کے گھروں میں بے دھڑک داخل ہونے کا اختیار طالبان کے ان گروہوں کو کیوں دیا جا رہا ہے۔ اس بارے میں نہ تو ان سے پریس کانفرنس میں کسی نے سوال کیا اور نہ ہی انھوں نے کوئی وضاحت دی تاہم لوگوں کے گھروں میں داخل ہو کر ناشتے کرنے والے طالبان سرکاری گاڑیوں اور اسلحے کو قبضے میں لینے کو مال غنیمت کہتے ہیں۔‘
’ہم پہلے ایک دوست کے گھر تھے پھر ایک رشتہ دار کے گھر آ گئے۔ ہمیں ہر پل یہی خوف تھا کہ اگر وہ یہاں تک پہنچ گئے تو کیا ہو گا۔ دو کمروں کے اس گھر میں ہم 15 لوگ رہ رہے ہیں۔ میرے والدین میرے لیے بہت پریشان ہیں۔ وہ مجھے کہیں چھپا بھی نہیں سکتے۔‘
’لوگ بھاگ رہے ہیں، یہاں سب کچھ بند ہو رہا ہے۔ نجانے ان کا کیا ہو گا جو کابل کی گلیوں اور پارکوں میں ہیں۔ میرے اپنے بہت سے رشتہ دار ایسے رہنے پر مجبور ہیں۔ مجھے یاد ہے جب ہم غزنی سے اپنے گھر سے نکلے تھے تو پیچھے مڑ کر دیکھا تو پہلے ہمارا ساتھ والا اور پھر ہمارا گھر تباہ کیا گیا۔ میں نے ایک شخص کے جسم کے دو حصے ہوتے دیکھے لیکن ہمارے پاس وقت بہت کم تھا اور سفر بہت لمبا۔ یہاں پہنچ کر ہم پھر اس صورتحال میں پھنس چکے ہیں، جس سے ہم بھاگ رہے تھے۔‘سمیعہ کہتی ہیں انھیں موت سے تو ڈر نہیں لگتا لیکن اس بات کا ڈر ضرور ہے کہ کہیں طالبان انھیں اپنے ساتھ نہ لے جائیں۔
سمیعہ بتاتی ہیں کہ ’وہ جمعے کا دن تھا، شام چار بجے میں صحن میں کپڑے دھو رہی تھی کہ گلی کی جانب آوازیں سنائی دیں۔ ہمارے رشتہ دار جن کے گھر ہم ٹھہرے ہوئے ہیں انھوں نے بتایا کہ طالبان ساتھ والے گھر میں داخل ہوئے ہیں۔‘
’شام کے ساڑھے سات بج چکے تھے اور وہ ہماری گلی میں ہی گھوم رہے تھے۔ میں نے بھی یہ منظر اپنے دروازے کے کواڑ سے دیکھا۔ وہ پانچ تھے اور ایک گاڑی میں آئے تھے۔ وہ کسی کا انتظار کر رہے تھے یا ہم سب میں دہشت پھیلا رہے تھے معلوم نہیں۔ پھر رات نو بجے کے قریب انھوں نے ہمارا دروازہ بھی کھکھٹایا۔ تب تک میری والدہ مجھے اپنے کپڑے اور بڑی چادر دے چکی تھیں۔‘سمیعہ بتاتی ہیں کہ ’ایک طالب نے دروازہ کھولنے پر گھر کے مردوں سے پوچھا تمھارے پاس اسلحہ ہے؟‘
’جب انھوں نے بتایا نہیں تو انھوں نے کہا اچھا ہم پھر آئیں گے۔ ایک روز بعد وہ ایک بار پھر ہمارے پڑوس میں موجود تھے۔ وہ کس کی اجازت سے لوگوں کے گھروں میں عورتوں کی موجودگی میں گھنٹے گزارتے ہیں، ہمیں کچھ معلوم نہیں۔‘’میرے والدین کو میری فکر ہے کیونکہ میں ان کے بچوں میں بڑی ہوں اور باقی چھ بہن بھائی چھوٹے ہیں۔ جس رشتہ دار کے گھر میں ہم رہتے ہیں ان کے بچے بھی چھوٹے ہیں۔ ہمارے ماں باپ کچھ نہیں کر پائیں گے، کوئی کچھ نہیں کر پائے گا۔‘
’میں خود کو مار دینا چاہتی ہوں تاکہ وہ مجھے ساتھ نہ لے جا سکیں، مجھے کچھ کہہ نہ سکیں۔ میں نے ایسی زندگی کا تصور نہیں کیا تھا۔ میں زندہ بچ بھی گئی تو آپ بتائیں کہ ایک کمرے میں ہر وقت طالبان کے خوف کے ساتھ رہنے والی زندگی کیسی ہو گی۔‘سمیعہ نے مزید بتایا کہ طالبان کے سرچ آپریشن کی اطلاع ملتے ہی انھوں نے اپنی سب تعلیمی اسناد جلا ڈالیں۔
’میں جو لوگوں کے گھر گھر جا کر غزنی میں یہ کہتی تھی بیٹی کو تعلیم دیں، سکول بھیجیں اور میں نے ہی اپنا تعلیمی ریکارڈ جلا دیا، اپنی شناخت مٹا دی۔‘
’مجھے یہاں خواتین بتاتی ہیں کہ 20 سال پہلے طالبان نے خواتین کے ساتھ جو چاہا، وہ کیا تھا اور بہت برا کیا تھا۔‘اپنے یونیورسٹی کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے سمیعہ نے کہا کہ وہ دن بہت اچھے تھے۔’میری زندگی بہت متحرک تھی، میں بہت خوش تھی اور مستقبل کے بہت سے خواب تھے۔ میں انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کے بعد کام کرنا اور آگے پڑھنا بھی چاہتی تھا لیکن وہ سب اب ختم ہو گیا۔ ہرات میں تعلیمی اداروں کے کھولے جانے کی بات ہو رہی ہے لیکن ان حالات میں کوئی بھی اپنی بیٹیوں کو یونیورسٹی بھیجنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ اب ہمیں بھی اپنی ماؤں اور دادی کی طرح ایک محدود زندگی گزارنا ہو گی۔‘
’اب میں ہر وقت روتی رہتی ہوں، میری زندگی ایسی تو نہیں تھی۔ میرے والد مجھے کہتے ہیں کہ اگر تمھاری حفاظت کو خطرہ ہوا تو میں تمھیں پاکستان بھجوا دوں گا لیکن پاکستان جانے کے لیے ہمارے پاس رقم ہے اور نہ کوئی ٹھکانہ۔ میں نے سکالر شپ کے لیے بیرون ملک کوشش کی لیکن سب بے فائدہ رہا۔‘’اگر میں اس جنگ میں زندہ رہ بھی گئی تو یہ زندگی جس میں، میں تعلیم حاصل نہ کر سکوں، سوسائٹی کے ساتھ جڑ نہ سکوں تو وہ کیا زندگی ہو گی۔ میں تو بولتی تھی لیکن اب میں خاموش کیسے رہوں گی؟ میں ایسی زندگی نہیں گزار سکتی۔‘
سمیعہ مزید کہتی ہیں کہ ’اگر میں لڑکا ہوتی تو نہ ڈرتی بلکہ بہادری سے لڑتی اور فخریہ انداز میں جان دے دیتی لیکن ایک عورت کی حیثیت سے میں خود کو بہت کمزور محسوس کرتی ہوں۔ میں بہت خوفزدہ ہوں بہت خوفزدہ۔۔۔ ہماری گلی میں انھوں نے دوسری بار آ کر ایک سرکاری ملازم کے گھر کا دروازہ توڑا۔‘
’اب میں رات کو اس خوف سے سو نہیں پاتی کہ کب پھر سے دستک ہو اور طالبان ایک جتھے کی صورت میں پھر سے ہماری گلی اور گھروں کے دروازے توڑ ڈالیں۔‘