محمد فاروق اعظمی
ہندوستانی آئین کچھ وحدانی خصوصیات کے ساتھ ایک مکمل وفاقی نظام حکومت کا داعی ہے اور ایک بڑی سیاسی اکائی کے اندر تنوع اور علاقائی خودمختاری کی وکالت کرتا ہے لیکن ملک پر جب سے بھارتیہ جنتاپارٹی کی حکمرانی قائم ہوئی ہے، آئین کا وفاقی تصور مدھم پڑنے لگا ہے۔علاقائی خودمختاری کے مکمل خاتمہ کیلئے ریاستوں کی تنظیم نو کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے تو سیاسی فورم پر حزب اختلاف کی جماعتوں کے خلاف ملک دشمنی کے رکیک الزامات لگاکر انہیں حاشیہ پر لانے کی کوشش ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ میں زبان بندی پرانی بات ہوگئی ہے۔اب آئینی اداروں کے جلسوں میں بھی حزب اختلاف کے رہنمائوں اور منتخب نمائندوں کو بولنے کی اجازت نہیں ملتی ہے۔ طاقت و اقتدار کا تمام مرکز وزیراعظم نریندر مودی اور وزیرداخلہ امت شاہ بن چکے ہیں۔ پارلیمنٹ میںمباحث کا خاتمہ ہوچکا ہے، آئینی اداروں کی میٹنگوں میں دوسری سیاسی جماعتوں کے لیڈران کی تجویز پر غور کرنا تو کجا انہیں سنا بھی نہیں جارہاہے۔ اس کی تازہ مثال گزشتہ دنوں نیتی آیوگ کی میٹنگ میں دیکھی گئی۔اس میٹنگ میں مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی کو بولنے کی اجازت نہیں دی گئی، ان کا مائک بند کردیاگیا۔ ممتا بنرجی نے الزام لگایا ہے کہ انہیں صرف پانچ منٹ تک بولنے دیا گیا اور اس کے بعد مائک بند کردیاگیا جس کی وجہ سے وہ مشتعل ہوکر میٹنگ سے باہر چلی گئیں۔ افسوس کی با ت تو یہ ہے کہ کسی نے انہیں روکنے کی کوشش نہیں کی۔حتیٰ کہ نیتی آیوگ کے چیئرمین کی حیثیت سے میٹنگ میں موجود وزیراعظم نریندر مودی نے بھی مغربی بنگال کے اس واک آئوٹ کو قابل اعتنا نہیں جانا۔
نیتی آیوگ کے اجلاس میں ممتا بنرجی کی توہین کیے جانے کے خلاف گزشتہ دنوں مغربی بنگال قانون ساز اسمبلی میں ایک خصوصی قرارداد پیش کی گئی۔ ممتاکابینہ کے سینئر رکن ڈاکٹر مانس رنجن بھوئیاں نے یہ قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ 27 جولائی کو نئی دہلی میں نیتی آیوگ کے جلسہ میںوزیراعلیٰ ممتا بنرجی جب ریاست مغربی بنگال کی جانب سے بول رہی تھیں تو ان کا مائیکرو فون بند کردیاگیا۔حکومت کی اس حرکت کو ڈاکٹر مانس بھوئیاں نے تعاون پر مبنی وفاقیت کی روح کے خلاف قرار دیتے ہوئے وزیراعلیٰ کے ساتھ کیے گئے اس سلوک پر برہمی کا اظہار کیا۔اسمبلی کے دوسرے اراکین نے اس کی تائید کی۔ وقفہ سوالات ملتوی کرتے ہوئے اسپیکر نے اس خصوصی قرارداد پرایوان میں بحث کی اجازت دی اور بعدازاںیہ قرار داد منظور کرلی گئی۔ اس قرارداد مذمت سے بھارتہ جنتا پارٹی کو کیا نقصان ہوگا، اس سے قطع نظر یہ بات ریاستی ایوان کے ریکارڈ پر آگئی ہے کہ جمہوریت اور وفاق کے اصولوں کے خلاف نریندر مودی کی قیادت والی نیتی آیوگ کو مغربی بنگال سے بیرہے۔
پلاننگ کمیشن آف انڈیا کو تحلیل کرکے 2015میں مودی حکومت نے نیتی آیوگ قائم کیا تھا۔ اس کے صدر نشیں ہندوستان کے وزیراعظم ہوتے ہیں اور تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ ساتھ دیگر مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے لیفٹیننٹ گورنرز رکن ہوتے ہیں۔ اس ادارہ کا مقصدتمام ریاستوں کو ملک اور عوام کی خدمت کیلئے مل کر کام کرنے کیلئے ایک مشترکہ پلیٹ فارم فراہم کرتے ہوئے تعاون پر مبنی وفاقیت کو فروغ دیناہے۔
اس سے قبل پلاننگ کمیشن کی میٹنگوں میں پارٹیوں اور اپوزیشن کے درمیان اسکیموں، ترقیاتی کاموں، مالیاتی لین دین، مرکز سے مطلوب تعاون پر کھل کر بحث ہوتی تھی لیکن جب سے مودی-شاہ نے برسراقتدار آکر نیتی آیوگ قائم کیا تب سے یہ مشاورت عملاً ختم ہوگئی ہے۔ حزب اختلاف کو تو پہلے سے ہی ختم کرنے کی کوشش کی جارہی تھی، اب نیتی آیوگ کے اجلاس میں بھی حزب اختلاف کے وزرائے اعلیٰ کی بات نہیں سنی جارہی ہے۔اس طرح یہ اجلاس رسمی ہوکر رہ گئے ہیں۔
ملک کی اقتصادی پالیسیوں پر ریاستوں سے بات چیت اور ان کی ضرورت کے مطابق ان میں ملکی دولت کی تقسیم نیتی آیوگ کا بنیادی کام ہے، کیوں کہ ہر ریاست کو ملکی وسائل پر مساوی حقوق حاصل ہے۔ صرف اس لیے کہ کسی ریاست میں بی جے پی ہار گئی، اس ریاست سے بدلہ نہیں لیا جا سکتا اور نہ ہی اس ریاست کو ترقی سے محروم رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن 2014کے بعد سے دیکھا جارہاہے کہ مغربی بنگال، کیرالہ، کرناٹک اور تمل ناڈو جیسی ریاستوں کو جان بوجھ کر وسائل اور ملکی دولت سے محروم رکھا جارہا ہے، ان کیلئے مختص کردہ فنڈ انہیں جاری نہیں کیا جاتا ہے۔ مالی سال 2023-24 کے دوران مرکزی حکومت نے منریگا کیلئے کوئی رقم مغربی بنگال کوجاری نہیں کی۔ یہ اقرار پارلیمنٹ میںخود وزیرخزانہ نے کیا ہے۔ مرکزی بجٹ میں بھی مغربی بنگال کے ساتھ یہی سلوک کیاگیا، اب نیتی آیوگ کی پالیسیوں میں بھی مغربی بنگال سے سوتیلا سلوک ظاہر ہوگیا ہے۔
5کھرب کی معیشت کا دعویٰ کرنے والی مودی حکومت میں آج ملک کی اقتصادی صورتحال کیسی ہے، یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ریاستوں میں ترقی کا عدم توازن ہے۔ کئی سرکاری اداروں کو ختم کیا جاچکا ہے، جس کے نتیجے میں بے روزگاری میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے کئی ریاستوں میں کہرام مچا ہوا ہے۔تعلیم پر بھی اخراجات میں بھاری کٹوتی کی گئی ہے۔مرکز کے پاس روزگار مہیا کرنے کیلئے کوئی پالیسی نہیں ہے۔نئی صنعتوں کا قیام اب خواب ہوچکاہے۔ کہاجارہاہے کہ گجرات کے دو تاجر ملک کو چلارہے ہیںاورمودی حکومت متوسط طبقہ کے خون پسینہ کی گاڑھی کمائی سے چھینی جارہی ظالمانہ ٹیکس کی رقم سے عیش کررہی ہے۔ ان حالات کے درمیان نیتی آیوگ میں بھی اگر حزب اختلاف کے وزرائے اعلیٰ کی بات نہ سنی جائے تو پھر یہ تعاون پر مبنی وفاقیت کے برخلاف ملک کو وحدانی نظام کی جانب لے جانے والا اقدام ہی کہاجائے گا، اس سے نہ تو ریاستوں میں ترقی کا توازن برقرا ر رہ سکتا ہے اور نہ ملک کی ترقی، اتحاد اور خوش حالی کاخواب ہی شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے۔ممتابنرجی نے بجا طور پر واک آئوٹ کرکے مرکزی حکومت اور نیتی آیوگ کی منافقت کا پردہ چاک کیا ہے۔
[email protected]