محمد فاروق اعظمی
خوراک صرف انسان کی بقا کیلئے ضروری نہیں ہے، بلکہ یہ جسمانی صحت،ذہنی سکون اور سماجی ترقی کیلئے بھی انتہائی اہم ہے۔ یہ زندگی کی طاقت ہے،جو ایک انسان کو توانائی فراہم کرتی ہے،اس کے خوابوں کی پرواز کو ممکن بناتی ہے اور اس کے وجود میں تسلسل اور حوصلہ فراہم کرتی ہے۔ لیکن جب اس ہی خوراک سے انسان محروم ہوتا ہے،جب ایک ماں اپنے بچوں کی بھوک کی شدت کو نہ سہار پاتی ہے اور جب ایک بچہ اپنے پیٹ میں درد کی شدت کے ساتھ اپنی معصومیت کو چپکے سے ختم ہوتا دیکھتا ہے تو یہ صرف ایک انسانی المیہ نہیں،بلکہ ایک معاشرتی شرمندگی بن جاتا ہے۔ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں زراعت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے،وہاں بھوک اور غذائی کمی کا مسئلہ نہ صرف حیرت انگیز ہے،بلکہ افسوسناک بھی ہے۔
ہندوستان کی زرعی معیشت دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والی معیشتوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے پاس وسیع و عریض زمینیں ہیں،بہترین زرخیزی اور دنیا کے بڑے زراعتی وسائل۔ اس سب کے باوجود،یہاں بھوک کی بڑھتی ہوئی شرح،غذائی قلت اور معاشی عدم مساوات ایک تلخ حقیقت بن کر سامنے آتے ہیں۔ اگرچہ زرعی پیداوار میں اضافے کی کوششیں کی گئی ہیں،لیکن اس کا نتیجہ ان لوگوں تک نہیں پہنچ پاتا جو اس کے سب سے زیادہ حق دار ہیں۔
مسئلہ صرف زمین کی زرخیزی کا نہیں ہے،بلکہ اصل مسئلہ خوراک کی غیر مساوی تقسیم،بدعنوانی اور حکومتی نظام کی ناکامی ہے۔ یہ نظام نہ صرف عوام کی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے،بلکہ اس نے خوراک کی ترسیل کے عمل میں اس قدر مداخلت کی ہے کہ آخرکار یہ نظام عوام کیلئے مفید نہیں رہا۔ ملک میں جہاں کھیتیاں سرسبز ہیں، وہاں شہریوں کی پلیٹیں خالی ہیں اور یہ فرق ایک عجیب قسم کی ستم ظریفی کا سبب بن رہا ہے۔ حکومتی دعوے کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں،لیکن زمینی حقائق کسی اور طرف اشارہ کرتے ہیں۔
پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم(پی ڈی ایس) جو کہ بھوک کے خاتمے کیلئے متعارف کرایا گیا تھا، ابتدائی طور پر اس نظام کو کامیاب بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران راشننگ سسٹم کو ایک عارضی حل کے طور پر اپنایا گیا تھا، لیکن آزادی کے بعد بھی اس نظام کی بہتری میں مشکلات آئیں۔ 2013 میں نیشنل فوڈ سیکورٹی ایکٹ کے تحت خوراک کی فراہمی کا ایک بڑا وعدہ کیا گیا تھا،لیکن حقیقت میں اس کے اثرات عوام تک نہیں پہنچ سکے۔ دیہی علاقوں میں جہاں افراد خوراک کی کمی سے لڑ رہے ہیں،یہ دعوے صرف کاغذی سطح پر نظر آتے ہیں۔
عالمی بھوک انڈیکس میں ہندوستان کا 105 واں نمبر دنیا بھر کیلئے ایک عکاسی ہے کہ ہم کس حد تک اس مسئلے میں پیچھے ہیں۔ 127 ممالک میں ہندوستان کی اس حالت نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہمارے حکومتی اقدامات اور وسائل ان مسائل کا حل فراہم کرنے میں ناکام ہیں،جن کا سامنا ہمارا عوامی طبقہ کر رہا ہے۔ خاص طور پر بچے اور خواتین ان مسائل کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشوونما غذا کی کمی کی وجہ سے متاثر ہوتی ہے،جو نہ صرف ان کی موجودہ حالت کو،بلکہ ان کی آئندہ زندگی کو بھی داؤ پر لگا دیتی ہے۔ خواتین،جو معاشرتی تانے بانے کا اہم حصہ ہیں،خود کمزوری اور غذائی کمی کا شکار ہو کر اپنے خاندان کی بنیاد کو متاثر کر رہی ہیں۔ ایک ماں کی بھوک، اس کے بچے کی تعلیم،اس کے خاندان کی صحت اور اس کے معاشی استحکام کو متاثر کرتی ہے اور یہ سلسلہ ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا رہتا ہے۔
بھوک کے اس بحران کی جڑ حکومت کی ناقص حکمت عملی، بدعنوانی اور انتظامی افسران کی غفلت میں چھپی ہوئی ہے۔ سرکاری گوداموں سے نکل کر خوراک عوام تک پہنچنے سے پہلے ہی غائب ہوجاتی ہے یا پھر کھلے بازار میں اسمگل کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے ملک میں خوراک کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ متعدد رپورٹس کے مطابق تقریباً 28 فیصد افراد کو ان کا حق نہیں ملتااور حکومت اس سلسلے میں عملی اقدامات کرنے میں ناکام رہی ہے۔ یہ صرف مالی نقصان کا مسئلہ نہیں،بلکہ لاکھوں افراد کی زندگیاں اس سے وابستہ ہیں۔ ان کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ ان تک ان کا حق پہنچتا ہے یا نہیں۔
یہ صورتحال تو افسوسناک ہے ہی،لیکن کچھ ریاستوں نے شفافیت اور بہتری کے اقدامات کے ذریعے اس مسئلے پر قابو پایا ہے۔ مغربی بنگال کی مثال لیجیے،جہاں 2011 میں راشن کی اسمگلنگ کی شرح 69.4 فیصد تھی،لیکن 2023 تک یہ کم ہو کر صرف 9 فیصد رہ گئی۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حکومت اگر چاہے تو شفافیت، منصوبہ بندی اور سخت نگرانی کے ذریعے اس مسئلے پر قابو پاسکتی ہے۔ دوسری ریاستوں کو بھی مغربی بنگال کی اس کامیابی سے سبق لینا چاہیے اور اپنی حکمت عملی کو بہتر بنانا چاہیے۔
لیکن مسئلہ صرف حکومت کا نہیں، عوام کا بھی ہے۔ اس مسئلے کی شدت کو کم کرنے کیلئے حکومت کو چاہیے کہ وہ خوراک کی تقسیم میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرے،بدعنوانی کے خاتمے کیلئے سخت قوانین بنائے اور غیر قانونی خوراک کی منتقلی کو روکنے کیلئے مؤثر اقدامات کرے۔ لیکن صرف حکومت ہی نہیں،ہمیں عوامی سطح پر بھی اس مسئلے کے بارے میں آگاہی پیدا کرنی ہوگی۔ خوراک کے ضیاع کو کم کرنے،مستحق افراد کی مدد کرنے اور حکومت کے اقدامات کی نگرانی کرنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔
اس مسئلے کا حل ایک اجتماعی کوشش کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ حکومت،سماج اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ اس انسانی المیے کو ختم کیا جا سکے۔ یہ مسئلہ صرف بھوک کا نہیں،بلکہ انسانی وقار کا بھی ہے۔ اس کی روک تھام نہ صرف اس وقت کی ضرورت ہے،بلکہ آنے والی نسلوں کی بہتری کیلئے بھی ضروری ہے۔ آج کے اقدامات، کل کے روشن مستقبل کی ضمانت بن سکتے ہیں، بشرطیکہ ہم اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کریں۔
بھوک کا درد صرف جسمانی نہیں،بلکہ روحانی بھی ہوتا ہے۔ جب ایک انسان کو اس کی بنیادی ضرورت سے بھی محروم کر دیا جائے تو اس کی زندگی میں ایک خلا پیدا ہوتا ہے جو صرف جسمانی طور پر نہیں،بلکہ ذہنی طور پر بھی اسے مفلوج کر دیتا ہے۔ لیکن اس خلا کو پر کرنے کیلئے حکومت،سماج اور عوام کو مل کر اپنی کوششیں تیز کرنی ہوںگی۔ ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ یہ مسئلہ صرف ایک فرد کا نہیں،بلکہ پورے ملک کا ہے اور جب تک ہم اس مسئلے کو ایک اجتماعی ذمہ داری کے طور پر نہیں دیکھیں گے،تب تک اس کا حل ممکن نہیں ہوگا۔
ایسا ممکن ہے کہ اس بھوک کے درد کو ختم کیا جاسکے، لیکن اس کیلئے ہمیں نہ صرف حکومتی سطح پر اصلاحات کی ضرورت ہے، بلکہ عوام کی ذہنیت میں تبدیلی لانے کی بھی ضرورت ہے۔ یہ مسئلہ صرف ہمارے ملک کا نہیں،بلکہ دنیا کیلئے ایک پیغام ہے کہ ہم سب کو اس درد کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس کا حل تلاش کرنے کیلئے بھرپور کوششیں کرنی ہوںگی۔