ہر برس سیکڑوں صحافی مار ڈالے جاتے ہیں

0

صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے مگر اسی صحافت کا استعمال ہٹلر نے کس طرح کیا تھا یا آج کے کئی لیڈران کس طرح کر رہے ہیں،یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ کہیں کے صحافیوں نے بالکل ہی ضمیر نہیں بیچا اور کہیں کے صحافیوں کے لیے صحافت کا مطلب ہی بدل چکا ہے۔ اس سلسلے میں ڈونالڈ ٹرمپ کے دور صدارت کی مثال پیش کی جا سکتی ہے۔ ٹرمپ نے میڈیا والوں کو اپنے دائرۂ اثر میں لینے کی بہت کوشش کی تھی مگر کامیابی انہیں نہیں مل سکی تھی اور یہ بات عالمی برادری کی سمجھ میں آگئی تھی کہ امریکہ میں صحافیوں سے امید کی جا سکتی ہے، البتہ یہی امید چین کے صحافیوں سے نہیں کی جاسکتی۔ ان کی مجبوری ہے۔ وہاں جمہوری حکومت نہیں جو صحافیوں کو چوتھے ستون کا حصہ سمجھے گی مگر وہ ممالک جہاں جمہوری نظام قائم ہے، صحافیوں کے حالات وہاں بھی کچھ زیادہ اچھے نہیں ہیں ۔ وہ یا تو حالات سے سمجھوتہ کرلیتے ہیں یا انہیں جیل میں ڈال دیا جاتا ہے اور بغیر ضمانت کے مہینوں انہیں جیل میں گزارنا پڑتا ہے یا وہ مار ڈالے جاتے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اس سلسلے میں عدالتوں کوجو رول ادا کرنا چاہیے تھا، وہ ادا کرنے سے قاصر رہی ہیں مگر ان کی مجبوریوں کوبھی سمجھنا ضروری ہے اور سمجھنا یہ بھی ضروری ہے کہ ان کی جان اس طرح نہیں لی جاتی جیسے صحافیوں کی جان لی جاتی ہے۔ 2022 میں پوری دنیا میں 57 صحافی مار ڈالے گئے۔ یہ رجسٹرڈ صحافی تھے۔ چھوٹے اخبار و رسائل سے وابستہ کتنے صحافیوں کو جانیں گنوانی پڑی ہیں، اس پر کوئی حتمی رپورٹ نہیں آئی ہے۔ 2022 بھی صحافیوں کے لیے ایک بہتر سال رہا تھا تب یہ صورتحال تھی، ورنہ 2012 میں تو 147صحافیوں کو جانیںگنوانی پڑی تھیں اور اس سے اگلے برس 2013 میں 143 صحافیوں کی جان گئی تھی۔ 1995 سے 2022 تک 4 سال ایسا آیا جن میں 100 سے زیادہ صحافیوں کوجانیں گنوانی پڑیں۔ متذکرہ سالوں کے علاوہ 2014 میں 110 اور2015 میں 114 صحافیوں کو جانیں گنوانی پڑی تھیں، اس لیے صحافیوں پر طنزکرتے وقت ان اعداد وشمار کوبھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS