ہندوستان کی عدلیہ کا کردار آئین کے تحفظ اور انصاف کے اصولوں کی بنیاد پر فیصلہ سازی کا ہے اور یہ ملک کی جمہوریت کا ایک بنیادی ستون ہے۔ تاہم حالیہ دنوں میں ایک سنگین مسئلہ نے سر اٹھایا ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شیکھر کمار یادو کی ایک متنازع تقریر نے عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ان کا بیان ’’یہ ہندوستان ہے اور یہ ملک یہاں رہنے والی اکثریت کی مرضی کے مطابق چلے گا‘‘نہ صرف ان کے زہر آلود خیالات و نظریات کا غماز ہے،بلکہ ہندوستان کی عدلیہ کے آزادانہ کردار کو بھی مشکوک ٹھہرا رہا ہے،جس کا اثر نہ صرف آئین پر پڑتا ہے بلکہ جمہوریت کے بنیادی اصول بھی داؤ پر لگ جاتے ہیں۔
جسٹس یادو نے اپنے اس بیان سے عدلیہ کی غیر جانبداری کو چیلنج کیا اور اس کے ساتھ ہی ایک جج کے منصب کے تقدس کو پامال کیا۔ انہوں نے یہ عندیہ دیا کہ فیصلے اکثریتی طبقے کے مفادات کو ترجیح دیں گے،جو عدلیہ کے آئینی کردار کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس بیانیے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ عدلیہ سیاسی یا مذہبی اثرات سے آزاد نہیں رہی،جو ججوں کے کردار کیلئے ناقابل قبول ہے۔ ایک جج کا بنیادی فریضہ آئین اور قانون کی بنیاد پر انصاف فراہم کرنا ہے،نہ کہ کسی اکثریتی طبقے کے مفادات کے تابع ہونا۔
جسٹس یادو کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب انہوں نے ہندو دائیں بازو کی شدت پسند تنظیم وشو ہندو پریشد کی ایک تقریب میں شرکت کی اور یکساں سول کوڈ پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر انہوں نے ہندوستان کی سیاست اور معاشرتی ڈھانچے پر اکثریتی طبقے کی خواہشات کو مقدم رکھنے کی بات کی،جو نہ صرف عدلیہ کی غیرجانبداری کے اصولوں سے متصادم ہے بلکہ آئینی حلف کی بھی خلاف ورزی ہے۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب جسٹس یادو نے اس قسم کے متنازع بیانات دیے ہوں۔ اکتوبر 2021 میں بھی انہوں نے ایک فیصلے میں مرکزی حکومت سے درخواست کی تھی کہ وہ رام، کرشنا، رامائن، مہابھارت اور بھگوت گیتا کی توقیر و عزت افزائی کیلئے قانون بنائے۔
ان بیانات سے عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری کو شدید نقصان پہنچا ہے اور یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا ججز اپنے ذاتی عقائد کو اپنے فیصلوں میں شامل کرسکتے ہیں؟ اس سے عدلیہ کی آزادی پر سیاسی اور مذہبی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس پس منظر میں سپریم کورٹ نے جسٹس یادو کے متنازع بیانات کا نوٹس لیتے ہوئے ان سے وضاحت طلب کی ہے۔ سپریم کورٹ نے الٰہ آباد ہائی کورٹ سے تفصیلات طلب کی ہیں اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ عدلیہ کی غیر جانبداری اور آئینی حلف کی پامالی نہ ہو۔
کانگریس کے رہنما کپل سبل نے اس پر شدید تنقید کی اور کہا کہ یہ بیانات آئین کے تحفظ کے عہدے پر بیٹھے ہوئے شخص کیلئے ناقابل قبول ہیں۔ انہوں نے اس بات کا بھی عندیہ دیا کہ ان کی پارٹی کے وکلا اس معاملے پر غور کر رہے ہیں اور جلد ہی جسٹس یادو کے خلاف مواخذے کی تحریک لائیں گے۔
اس معاملے نے ہندوستان کی عدلیہ کی تقرری کے عمل کی کمزوریوں کو بھی اجاگر کیا ہے اور سوالات اٹھا دیے ہیں کہ آیا ججوں کی تقرری کا عمل واقعی آزاد اور منصفانہ ہے۔ ججز کو کسی سیاسی یا مذہبی دباؤ سے آزاد رکھنا ضروری ہے تاکہ عدلیہ کے اصولوں کی حفاظت کی جاسکے اور انصاف کی فراہمی میں غیر جانبداری کو یقینی بنایا جا سکے۔ ججز کی تقرری اور نگرانی کے عمل میں اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ عدلیہ کی آزاد حیثیت کو محفوظ رکھا جا سکے اور آئین کے مطابق انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔
یہ نازک لمحہ ہے جب ہندوستان کی عدلیہ کو اپنی آزادی اور غیر جانبداری کو مضبوط بنانے کیلئے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ جسٹس یادو کے خلاف تادیبی کارروائی ایک اچھا آغاز ہوسکتا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ ججوں کے انتخاب، نگرانی اور تربیت کے عمل میں مزید شفافیت اور انصاف پسندی لانے کی ضرورت ہے تاکہ عدلیہ کا کردار آئین کی روح اور جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے مطابق رہ سکے۔
عدلیہ کی تذلیل اور جمہوریت کے قتل کے اس عمل کو روکنے کیلئے ہمیں عدلیہ کی غیر جانبداری اور آئین کی روح کا تحفظ کرنا ہوگا۔ اگر جج اپنے ذاتی عقائد کو فیصلوں میں شامل کریں گے تو اس سے عدلیہ کی غیر جانبداری متاثر ہوگی اور آئین کے مطابق انصاف کی فراہمی میں خلل آئے گا۔ اس وقت ضروری ہے کہ عدلیہ کے غیر جانبدارانہ کردار کو محفوظ رکھنے کیلئے فوری اصلاحات کی جائیں،تاکہ آئین اور جمہوریت کی حفاظت کی جا سکے۔