ونیت نارائن
عام طور پر مانا جاتا ہے کہ پولیس والوں میں انسانیت نہیں ہوتی۔ پولیس والوں کا عوام کے تئیں سخت رویہ عموماً مذمت کے دائرے میں آتا رہتا ہے۔ حال میں سشانت سنگھ راجپوت کی مشتبہ موت کے بعد بالی ووڈ کے مشہور ستاروں کا نشیلی اشیاء کے ساتھ نارکوٹکس محکمہ کے ذریعہ پکڑا جانا سیاسی واقعہ بتایا جارہا ہے۔ الزام تھا کہ یہ سب بہار کے انتخابات کے مد نظر کیا جارہا ہے، جبکہ یہ سب نارکوٹکس کنٹرول بیورو کے ڈائریکٹر جنرل راکیش استھانا کی مستعدی کے سبب ہورہا تھا۔ استھانا کہ بارے میں مشہور ہے کہ جب کبھی انہیں کوئی سنگین معاملہ سونپا جاتا ہے تو وہ اپنی پوری قابلیت اور شدت سے اسے سلجھانے میں سرگرم ہوجاتے ہیں۔
سی بی آئی میں رہتے ہوئے استھانا نے بدنام زمانہ مفرور وجے مالیہ کی خودسپردگی میں جو رول نبھایا ہے اس کی جانکاری سی بی آئی میں ان سبھی افسروں کو ہے جو ان کی ٹیم میں شامل رہے تھے، لیکن آج ہم ایک انوکھے کیس کی بات کریں گے۔ پولیس ہو یا کوئی دیگر جانچ ایجنسی ہمیشہ بے گناہوں کو جھوٹے کیس میں پھنسا کر استحصال کرنے جیسے الزامات سے گھری رہتی ہے، لیکن تاریخ میں شاید پہلی بار ہوا ہے جب بیرون ملک میں ایک بے گناہ جوڑے کو بے گناہ ثابت کرکے ہندوستان واپس لانے میں نارکوٹکس کنٹرول بیورو کامیاب رہا ہے۔ اس سے دو ممالک کے بیچ دو فریقی تعلقات کو اور مضبوطی بھی ملی ہے۔ معاملہ 2019کا ہے جب اسی سال 6جولائی کو قطر کے ہوائی اڈے پر ممبئی کے ایک جوڑے کو 4کلو چرس کے ساتھ پکڑا گیا تھا۔ معاملہ قطر کی عدالت میں پہنچا اور ممبئی کے اونبا اور شریک کو وہاں کی عدالت نے 10سال کی سزا دی۔ اونبا اور شریک نے اپنی سزا کے دوران اپنی بیٹی کو جیل میں ہی جنم دیا۔ ان دونوں نے آنے والے 10برسوں کے لئے خود کو جیل میں ہی قید مان لیا تھا، لیکن قطر سے دور ممبئی میں ان دونوں کے رشتے داروں کو ان دونوں کی بے گناہی کا پورا یقین تھا۔ لہٰذا انہوں نے ممبئی پولیس اور نارکوٹکس کنٹرول بیورو کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ یہیں تک نہیں رکے۔ انہوں نے وزیر اعظم دفتر اور وزارت خارجہ کی مدد بھی مانگی۔ حالانکہ اونبا اور شریک کو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا، لیکن انہیں اس بات کی کوئی جانکاری نہیں تھی کہ اتنی بڑی مقدار میں نشیلی اشیا ان کے بیگ میں کیسے آئی۔ کسی نے خوب ہی کہا ہے کہ سچ پریشان ہوسکتا ہے، لیکن اس کو شکست نہیں ہوسکتی۔
تاریخ میں شاید پہلی بار ہوا ہے جب بیرون ملک میں ایک بے گناہ جوڑے کو بے گناہ ثابت کرکے ہندوستان واپس لانے میں نارکوٹکس کنٹرول بیورو کامیاب رہا ہے۔ اس سے دو ممالک کے بیچ دو فریقی تعلقات کو اور مضبوطی بھی ملی ہے۔ معاملہ 2019کا ہے جب اسی سال 6جولائی کو قطر کے ہوائی اڈے پر ممبئی کے ایک جوڑے کو 4کلو چرس کے ساتھ پکڑا گیا تھا۔ معاملہ قطر کی عدالت میں پہنچا اور ممبئی کے اونبا اور شریک کو وہاں کی عدالت نے 10سال کی سزا دی۔
ایک طرف جہاں اونبا اور شریک ہمت ہار چکے تھے وہیں شریک کی فون ریکارڈنگ میں سے ایک ایسا ثبوت نکلا جس نے معاملے کا سچ اجاگر کردیا۔ در اصل شریک کی پھوپھی تبسم نے شریک کے منع کرنے پر بھی شریک اور اونبا کو ایک ہنی مون پیکیج تحفے میں دیا۔ اس تحفے میں قطر کا ٹکٹ اور وہاں رہنے اور گھومنے کا پورا پیکیج تھا۔ پیکیج کے ساتھ ہی تبسم نے شریک کو ایک پیکٹ بھی دیا، جس میں تبسم نے اپنے رشتہ داروں کے لئے ’پان مسالہ‘ بھیجا تھا۔
اصل میں وہ پان مسالہ نہیں، بلکہ چرس تھی، اتنے سنگین معاملے کے باوجود نارکوٹکس کنٹرول بیورو کے ڈائریکٹر جنرل راکیش استھانہ کو لگا کہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے، جتنا دکھائی دے رہا ہے۔ انہیں اس میں کچھ پیچ نظر آیا۔ اس لئے استھانہ نے خصوصی ٹیم تشکیل کی۔ اس ٹیم کی قیادت نارکوٹکس کنٹرول بیورو کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے پی ایس ملہوترا نے کی۔ جانچ ہوئی اور پتہ چلا کہ شریک کی پھوپھی تبسم ایک خونخوار گینگ کا حصہ ہے جو نشیلی اشیا کی اسمگلنگ کرتا ہے۔ اس گینگ کا سرغنہ ممبئی کا نظام کارا ہے، جسے ممبئی میں گرفتار کیا گیا۔ ممبئی کے نارکوٹکس کنٹرول بیورو کی جانچ میں ہی یہ سامنے آیا کہ اونبا اور شریک دونوں بے گناہ ہیں۔ چونکہ معاملہ بیرون ملک کا تھا، جہاں یہ بے گناہ جوڑا جیل میں بند تھا اور اس کا اصلی گنہگار ہندوستان میں نارکوٹکس کنٹرول بیورو کی حراست میں۔ تبھی نارکوٹکس کنٹرول بیورو کے ڈائریکٹر جنرل نے طے کیا کہ اونبا اور شریک کو باعزت واپس ہندوستان لایا جائے۔ استھانہ نے وزیر اعظم دفتر، وزارت خارجہ کی مددسے قطر میں ہندوستانی سفارت خانہ کے ذریعہ قطر کے افسران کو اس معاملے کے سبھی ثبوت بھجوائے۔ قطر کی کورٹ میں ان سبھی ثبوتوں پر پھر سمات ہوئی اور اس سال جنوری میں اس معاملے میں پھر سے غورو غوض کیا گیا۔ 29مارچ 2021کو آخر کار قطر کی عدالت نے اونبا اور شریک کو بے گناہ مان لیااور باعزت بری کردیا۔ اب بس اس دن کا انتظار ہے، جب سبھی قانونی خانہ پری کے بعد اونبا اور شریک کو واپس ہندوستان بھیج دیا جائے گا۔ اس خبر کو سن کر اونبا اور شریک کے رشتہ داروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں وزیر اعظم دفتر،وزیر خارجہ اور خاص طور پر نارکوٹکس کنٹرول بیورو نے ان کی اس بات پر یقین کیا کہ اونبا اور شریک بے نگاہ ہیں اور اس لئے اس معاملے میں آگے بڑھ کر ہماری مدد کی۔ ورنہ یہ جوڑا 10برس تک قطر کی جیل میں سڑتا رہتا۔ پورے واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی اعلیٰ افسر غیر جانبداری، شفافیت انسانی ہمدردی سے کام کرے تو وہ عوام کے لئے کسی مسیحا سے کم نہیں ہوتا۔ اس معاملے میں مستعدی دکھاکر نارکوٹکس کنٹرول بیورو کی ٹیم نے اپنی امیج کو کافی بہتر کیا ہے۔
یہ مثال مرکز اور ریاستوں کی دیگر جانچ ایجنسیوں کے لئے قابل تقلید ہے۔ انہیں اس بات سے محتاط رہنا چاہیے کہ کوئی بھی ان کا غلط استعمال ذاتی مفاد میں یا اپنے سیاسی مخالفین کو پریشان کرنے کے لئے نہ کرے، بلکہ سبھی جانچ ایجنسیاں اپنے ضوابط کے مطابق قانونی کارروائی کریں اور بدعنوانی سے آزاد رہیں۔ اس سے ان کی شبیہ عوام کے دماغ میں بہتر بنے گی اور یہ جانچ ایجنسیاں گنہگاروں کو سزا دلوانے اور بے گناہوں کو بچانے میں نئے معیار قائم کریں گی۔ اس کے لئے لازمی ہے کہ ان جانچ ایجنسیوں کی ٹیم میں تعینات افسران اپنی تنخواہ اور بھتوں سے مطمئن رہ کر بغیر کسی لالچ میں پھنسے اپنی ذمہ داری کو پورا کریں۔ اس سے ہمارے سماج اور ملک کو تو فائدہ ہوگا ہی، ساتھ ہی ان ملازمین کو دلی سکون بھی حاصل ہوگا۔
٭٭٭