غزہ میں دم توڑتی انسانیت!

0

غزہ میں حالات بدترین ہیں۔ وہ جنگ جو اسرائیل کہتا ہے کہ وہ حماس کے خلاف لڑ رہا ہے، عام لوگوں کا اس میں اتنی بڑی تعداد میں مارا جانا خود اس بات کا ثبوت ہے کہ اس جنگ کا اصل مقصد کیا ہے۔ غزہ کے عام لوگوں سے اگر اسرائیل کو کوئی بیر نہیں ہے، وہ ان کے انسانی حقوق کا خیال رکھنا چاہتا ہے تو پھر اس کی طرف سے اتنی اشیائے خوردنی غزہ تک کیوں نہیں پہنچنے دی گئی کہ وہاں کے لوگوں کے جسم کی ہڈیاں نہ نظر آتیں۔ اہل غزہ کے جسم سے ہڈیوں کا نظر آنا، ان کی حالت اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل نے انہیں دانے دانے کے لیے تڑپایا ہے۔ گزشتہ 75 سال میں کون سی ایسی جنگ لڑی گئی ہے جس میں عام لوگوں کے خلاف بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، انہیں گھٹ گھٹ کر مرنے پر مجبور کیا گیا ہے؟ کیا پہلی عالمی جنگ میں کسی ملک نے ایسا کیا؟ دوسری عالمی جنگ میں کسی ملک نے ایسا کیا؟ سچ تو یہ ہے کہ اسرائیل کے ایسا کرنے سے اس کے اتحادی بھی پریشان نظر آرہے ہیں۔

امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ جو بظاہر اسرائیلی یرغمالیوں کو چھڑانے کو غزہ جنگ ختم کرانے سے زیادہ بڑا مشن مان رہے تھے، انہیں بھی اہل غزہ کے لیے کچھ نرم لہجہ اختیار کرنا پڑا ہے۔ انہیں یہ بات نظر آنے لگی ہے کہ غزہ کے لوگوں کی بھوک اصلی ہے، یہ میڈیا کی بنائی ہوئی نہیں ہے۔ اس سے قبل فرانس کی طرف سے یہ بیان آیا تھا کہ وہ فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرے گا۔ خود فرانسیسی صدر ایمینوئل میکروں نے یہ بات کہی ہے کہ ’فرانس ریاست فلسطین کو تسلیم کرے گا۔‘ان کے مطابق، فلسطین کو ریاست کے طور پر قبول کرنے کا اعلان باضابطہ طور پر رواں سال کے ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران وہ کریں گے۔ ان کا کہنا ہے، ’آج کی سب سے فوری ترجیح غزہ کی جنگ کا خاتمہ اور وہاں کی شہری آبادی کو ریلیف فراہم کرنا ہے، امن ممکن ہے۔‘ برطانیہ نے بھی یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ فلسطین کو ریاست کے طور پر قبول کر لے گا۔ اس نے اس کے لیے کچھ شرائط بھی رکھی ہیں۔

امریکہ اور یوروپی ممالک کے لیے غزہ کے حالات اس لیے پریشان کن نہیں ہیں کہ اہل غزہ کو ایک ایک دانے کے لیے ترسایا جا رہا ہے، وہ امدادی اشیا لینے کے لیے جاتے ہیں تو انہیں گولیاں دی جاتی ہیں، ان کی پریشانی کی ایک وجہ یہ ہے کہ یوکرین جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے، اس جنگ کی توسیع کا امکان ہے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے وہ روس کو گھیرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن غزہ کے حالات نے ان کی بولتی بند کر دی ہے۔ عالمی برادری کے لیے یہ بات فہم سے بالاتر ہے کہ انسانوں کو دیکھنے کا دو پیمانہ کیسے ہوسکتا ہے؟ غزہ کے لوگ بھوکے مر رہے ہیں اور طاقتور ممالک تماشہ دیکھ رہے ہیں جبکہ یوکرین میں انسانیت کے خطرے میں ہونے کی باتیں کرتے ہیں۔ بے قصور انسان کہیں بھی مارا جائے، یہ دکھ کی بات ہے۔

انسانوں کو کہیں بھی بھوکا رکھا جائے، یہ قابل مذمت ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ دنیا کے کئی ملکوں نے انسانیت کا دو پیمانہ بنا رکھا ہے۔ ایک ملک کے انسانوں کو دکھ میں دیکھتے ہیں تو پوری انسانیت انہیں خطرے میں نظر آنے لگتی ہے جبکہ دوسرے خطے میں انسانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جانے پر بھی انسانیت خطرے میں نہیں پڑتی۔ساکھ اسرائیل کی ہی نہیں گر رہی ہے، اس کے اتحادیوں کی بھی گر رہی ہے۔ یہ بات یوروپی لیڈروں کے لیے باعث پریشانی ہے مگر وہ جنگ ختم کرانے کے بجائے فلسطینیوں کو آزاد ریاست کا خواب دکھا رہے ہیں۔ یہی خواب اوسلو معاہدے سے بھی دکھایا گیا تھا مگر اس معاہدے سے ہوا کیا؟

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS