محمد حنیف خان
طلبا نہ صرف کسی ملک کا مستقبل ہوتے ہیں بلکہ وہ مستقبل کی بنیاد بھی ہوتے ہیں،اس بنیاد کو جس قدر مضبوط کیا جائے گا ملک کامستقبل اسی قدر تابناک ہوگا۔ ہندوستان زمانہ قدیم سے علم و ہنر کا مرکز رہاہے،وقت کے ساتھ اس نے تبدیلیوں کو انگیز کیا اور علم کے معاملے میں اس نے خود کو مستحکم کرنے کی کوششیں کیں لیکن جس استحکام کا وہ متقاضی تھا، اس میں کامیابی نہیں مل سکی،یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں جب پارلیمنٹ میں بتایا گیا کہ کثیر تعداد میں ہندوستانی اپنے ملک کی شہریت ترک کر رہے ہیں تو اس کے اسباب و عوامل پر غورکیا جانے لگا جس میں پتہ چلا کہ ترک شہریت کی ایک وجہ تعلیم اور نظام تعلیم کابہتر نہ ہونا بھی ہے، جس کی وجہ سے پڑھے لکھے اور خوشحال افراد غیرممالک کو ترجیح دے رہے ہیں۔وہ افراد جو بیرون ملک روزگاریا کاروبار کے لیے جاتے ہیں یا پھر وہ افراد جو تعلیم کے لیے گئے تھے، وہ ان ہی ممالک کو قیام کے لیے ترجیح دینے لگتے ہیں کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ ہندوستان میں ان کے بچوں کو بہتر تعلیم نہیں مل سکے گی،جس سے ان کا مستقبل تباہ ہوجائے گا۔جس سے افراد سازی اور ملک کی تعمیر و ترقی میں تعلیم کے کردار کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔یہ بھی درست ہے کہ جب تک اصول وضوابط نہ ہو کوئی بھی نظام بہتر طور پر نہیں چل سکتا ہے،بہتر تعلیم کی فراہمی میں نظام تعلیم اور اس کے اصول و ضوابط اور ان پر سختی سے کاربندی از حد ضروری ہے۔لیکن اصول و ضابطے ایسے ہونے چاہیے جن سے افراد سازی ہو،کسی بھی ادارے کو ملک کے مستقبل پر جبر کی اجازت نہیں ہے اور نہ طلبا کو اس قدر چھوٹ ملنی چاہیے کہ وہ تعلیم سے دور ہوجائیں۔
تعلیمی ادارے طلبا کو صرف کتابی علم ہی نہیں دیتے ہیں بلکہ وہ افراد سازی بھی کرتے ہیں۔ہر ادارہ اپنی سطح پر یہ فریضہ انجام دیتا ہے،اس باب میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی نہ صرف ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں بلکہ وہ جو پود ان کو اسکول اور کالجوں سے ملتی ہے، ان کی نشو ونما میں ان کا اہم کردار ہوتا ہے۔چونکہ یہ ملک بہت متنوع ہے اور اس کی ضروریات میں بھی از حد تنوع ہے، اس لیے جہاں ان تعلیمی اداروں میں متعدد ڈسپلن کی تعلیم دی جاتی ہے، وہیں ہر شعبہ کے لیے افراد بھی تیار کیے جاتے ہیں۔سیاست ہو یا معاشیات، کاروبار ہو یا زراعت ہر شعبہ ان اداروں سے تعلیم یافتہ افراد سے ہی فیضیاب ہوتا ہے،ایسے میں یہ تعلیمی ادارے ان شعبوں کو لائق و فائق افراد مہیا کراتے ہیں۔یہ افراد /طلبا جہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں، اس کے ماحول کوپر امن اور تعلیمی بنائے رکھنے کے لیے اصول و ضوابط کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ تعلیم و تعلّم کی راہ میں کسی طرح کی رکاوٹ درپیش نہ ہو۔لیکن یہ اصول و ضوابط ایسے نہیں ہونے چاہیے جس سے طلبا کی صلاحیتیں ماند پڑجائیں یا پھر ان کی صلاحیتوں کو زنگ لگ جائے۔کوئی بھی پودا اسی وقت ایک خوبصورت اور تناور درخت کی شکل اختیار کرسکتا ہے جب اس کی کاٹ چھانٹ کے ساتھ ہی اسے درست سمت دی جائے اور فطرت کے مطابق اسے نشو ونما کا موقع ملے،اگر کسی پودے کو کسی سخت چیز سے باندھ دیا جائے تو پودا فطرت کے مطابق نشوو نماتو کرے گا مگر اس میں ایک انمٹ داغ پڑجائے گا اور اس جگہ ایک ایسا گڈھا پڑ جائے گا جو کبھی پُر نہیں ہوگا۔یہی حال طلبا کا ہے کہ ان کی نشوونما کو فطری ماحول مہیا کرانا ہمارے تعلیمی اداروں کی ذمہ داری ہے۔غیر ضروری طور پر اصول سازی اور ان کا نفاذ طلبا کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے بجائے ان کی فطری ترقی کو روک دے گا۔
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، جہاں ہر سطح پر جمہوریت کا نفاذ ہے،کسی بھی سطح پر آمریت قابل قبول نہیں ہے۔آئین ہند نے ہر شخص کو یہ آزادی دی ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ نہ صرف اپنی بات کہہ سکتا ہے بلکہ اپنے مطالبات کو تسلیم کرانے کے لیے پرامن طور پر احتجاج درج کرا سکتا ہے۔یہ احتجاج، دھر نا و مظاہرہ کے ساتھ ہی بھوک ہڑتال کی صورت میں اب تک ہوتے رہے ہیں۔یہ طریقہ اختیار کرکے ملک کے عوام اپنی بات حکومت تک پہنچاتے ہیں اور اس کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان کی بات سنے اور ان کی خواہش و ضرورت کے مطابق اس پر عمل کرے۔اس کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں کہ ہر شخص کو اس کا حق مل جائے۔اب اگر اعلیٰ تعلیمی اداروں/یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا اپنے حقوق کے لیے جد وجہد کرتے ہیں،دھرنا و مظاہرہ یا بھوک ہڑتال کرتے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے؟ بس شرط یہ ہے کہ وہ تعلیم و تعلّم کی راہ میںرکاوٹ نہ بنیں۔ہمارے تعلیمی اداروں کی یہ روایت رہی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ طلبا کو اپنے حق کی آواز اٹھانے کی آزادی دی ہے۔اس آزادی سے صرف طلبا کا ہی فائدہ نہیں ہوا ہے بلکہ ملک و قوم فیضیاب ہوئی ہے۔ہر شخص میں کسی جمعیت کی قیادت کی صلاحیت نہیں ہوتی اور اگر کسی کے اندر قائدانہ صلاحیت بھی ہو مگر مواقع نہ ملیں تو وہ صلاحیت اپنے آپ مر جاتی ہے۔ان تعلیمی اداروں میں کچھ طلبا ایسے ہوتے ہیں جو دوسرے طلبا کمیونٹی کے حقوق کے لیے انتظامیہ سے جد و جہد کرتے ہیں،ان کی ضروریات کے مطابق فیصلے کراتے ہیں،خواہ وہ مسئلہ کلاس روم اور نصابات کا ہو یا پھر ہاسٹل اور وہاں کے لوازمات کا ہر جگہ وہ تگ و دو کرکے اپنے ساتھیوں کے مسائل کو حل کراتے ہیں،اس سے ان میں قائدانہ صلاحیت پیدا ہوتی ہے،ان ہی اداروں نے ملک کو بڑے بڑے سیاست داں دیے، کئی وزرائے اعظم صرف ایک الٰہ آباد یونیورسٹی نے دیے لیکن یہ اس وقت ممکن ہوسکا جب ان کو آزادی ملی۔
جواہر لعل یونیورسٹی (جے این یو) گزشتہ کئی برسوں سے تنازعات کا شکار رہی ہے۔یہ تنازعات کئی سطح کے رہے ہیں جس میں لیفٹ اور رائٹ طرزفکرکی سیاسی پارٹیوں کے افکار و نظریات کے حامی طلبا و طالبات ایک دوسرے سے بر سر پیکار رہے ہیں۔جے این یو انتظامیہ نے ایک فیصلہ اور کیا ہے جس میں اس نے دھرنا و مظاہرہ اور بھوک ہڑتال جیسے بنیادی حقوق پر 20ہزار روپے کا جرمانہ عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے،تشدد پر 30ہزار روپے کا جرمانہ ہوگا،غیر قانونی طور پرہاسٹلوں میں قیام، نامناسب زبان کا استعمال اور راستہ مسدود کرنے کو جرم کے درجہ میں رکھا گیا ہے۔اس کے علاوہ بھی متعدد نئے ضابطے بنائے ہیں جسے یونیورسٹی کی ایگزیکٹیو کونسل سے منظور کرا کر نافذ کردیا ہے۔
ظاہر ہے کہ انتظامیہ نے یہ سب جو بھی کیا ہے، وہ صرف اس لیے کیا ہے تاکہ کیمپس کا ماحول پرامن اور علمی بنا رہے اور غیر علمی سرگرمیوں پر روک لگے لیکن اس کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ایسے قوانین جو بنیادی حقوق کے برعکس ہوں یا ایسے اصول و ضوابط جن سے ہمہ جہت صلاحیت پر ضرب آتی ہو، ان سے احتراز کرنا چاہیے۔چونکہ یہ ایک جمہوری ملک ہے جس میں جمہوری طریقہ کار پر قدغن عائد کرنا کسی بھی صورت میں مناسب نہیں ہے،کیونکہ جب طلبا اس طرح کا جبر تعلیمی اداروں میں دیکھیں گے اور خود سہیں گے تو وہ جب یہاں تعلیم حاصل کر کے عملی زندگی میں اتریں گے تو وہاں وہ بھی یہی طریقہ کار اختیار کریں گے کیونکہ یہ طریقہ کار ان کے لاشعور کا حصہ بن جائے گا۔دیکھنے میں تو یہ بہت چھوٹی سی بات ہے اور اس کا جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں دھرنا و مظاہرہ یا بھوک ہڑتال کی جگہ نہیں ہونی چاہیے لیکن حقیقت میں یہ تعلیمی ادارے ہی اصل ہندوستان بناتے ہیں اور پورے ملک میں جمہوریت کی جو رمق دکھائی دیتی ہے، اس میں ان ہی اداروں کا سب سے زیادہ حصہ ہوتا ہے، ایسے میں یہ معاملہ صرف ایک ادارے اور ایک محدود کیمپس کا نہیں ہے بلکہ اس کے دور رس اثرات ملک پر مرتب ہوں گے اور ایک ایسی نسل وجود میں آئے گی جو نہ صرف بزدل ہوگی بلکہ وہ آمر بن کر آگے کی نسلوں کو بھی بزدل بنائے گی۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کے فیصلوں پر نظر ثانی کی جائے اور ملک کے مستقبل کو غیر جمہوری اقدار سے نہ صرف دور رکھاجائے بلکہ اس کو فطرت کے مطابق نشو ونما کا موقع مہیا کرایا جائے تاکہ ملک وقوم کی تعمیر و ترقی میں وہ اپنا کردار ادا کرسکے۔
[email protected]