ملک میں کورونا کی دوسری لہر نے قومی آفت جیسے حالات بنا دیے ہیں۔ اصل میں گزشتہ ایک پکھواڑے کے حالات دیکھنے کے بعد ’’آفت‘‘ جیسا لفظ بھی رسم ادائیگی جیسا لگنے لگا ہے۔ اسپتالوں کے اندر سانسوں کے لیے چھٹپٹاتے مریض اور سڑکوں پر سسکتے ان کے اہل خانہ دراصل اس سسٹم کی اجڑی ہوئی تصویر ہے، جس میں صحت کی سہولتیں ’وینٹی لیٹر‘ پر ہیں اور وسائل کی ’آکسیجن‘ ختم ہونے کی قیمت عام آدمی ادا کررہا ہے۔ کورونا سے جنگ جیت لینے کی ہماری غلط فہمی انسانیت پر بہت بھاری پڑگئی ہے۔
کورونا کے ایکٹیو معاملے جس تیزی سے بڑھ رہے ہیں، اس سے لگ رہا ہے جیسے وبا سے نمٹنے کے لیے ضروری ہر چیز کی ملک میں کمی ہوگئی ہے۔ زندگی بچانے والی دوائیں، انجکشن، اسپتالوں میں بستر، آکسیجن، وینٹی لیٹر، میڈیکل اسٹاف اور یہاں تک کہ انسانیت اور سسٹم کی حساسیت جیسے لاجواب ’وسائل‘ بھی ایسا لگ رہا ہے جیسے لاپتہ ہوگئے ہوں۔ اسی لیے یہ سوال بھی کیا جارہا ہے کہ گزشتہ ایک برس میں اس محاذ کو درست کرنے کے لیے ہماری حکومتوں نے کیا تو آخر کیا کیا؟ آخر کیوں مرکز میں ایک ذمہ دار سسٹم اور ریاستوں میں تبدیلی کا وعدہ کرکے آئیں حکومتوں کے ہوتے ہوئے ملک کی عدالتوں کو ملک کے عوام کا محافظ بن کر سامنے آنا پڑا؟
ایک مرتبہ یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ اپنی رفتار کی وجہ سے کورونا کی یہ لہر ہم پر سونامی بن کر ٹوٹ رہی ہے، تب بھی اسے کیسے مسترد کیا جائے کہ یہ غیرمتوقع نہیں تھا۔ مرکزی حکومت کی خود کی کمیٹی کا سیرولوجیکل سروے فروری سے حالات بگڑنے کی وارننگ دے رہا تھا۔ خود مرکزی حکومت جنوری اور فروری میں ریاستی حکومتوں کو دوسری لہر سے آگاہ کرنے والی چٹھیاں لکھ رہی تھی۔ تو پھر ایک دوسرے کو جگانے کے اس عمل میں آخر کس کی نیند لگ گئی کہ آج ہزاروں لاکھوں زندگیاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کرنے کے لیے مجبور ہوگئیں۔ بیشک اب جب کہ پانی سر تک آگیا ہے تو انتظامات کو پٹری پر لانے کے لیے ہاتھ پیر بھی چلائے جارہے ہیں۔ ان میں سے کئی کوششیں کامیاب بھی نظر آرہی ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ اب کمان خودوزیراعظم نریندر مودی نے اپنے ہاتھوں میں لے لی ہے۔ امید ہے کہ اس سے حالات سدھریں گے اور گزشتہ ایک سال کی تھکان سے نبردآزما سسٹم کو بھی نئی توانائی ملے گی۔ وزیراعظم نے گزشتہ دنوں جس طرح وزرائے اعلیٰ سے لے کر فارماسیوٹیکل پروڈیوسرس اور آکسیجن تیار کرنے والوں (آکسیجن مینوفیکچررز) تک سے مل بیٹھ کر بات کی ہے، اس کا اثر نظر آنے میں تھوڑا وقت لگ سکتا ہے، لیکن امید کی جانی چاہیے کہ اس سے حالات میں تبدیلی ضرور آئے گی۔
ہم امریکہ سے تو مقابلہ کرہی سکتے ہیں جس نے تمام پریشانیاں جھیلتے ہوئے اپنی 40فیصد آبادی کی ٹیکہ کاری کرکے بغیر لاک ڈاؤن لگائے ایکٹیو معاملوں کو 80فیصد تک کم کرلیا ہے۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ابھی ہم کورونا کی دوسری لہر کا ہی سامنا کررہے ہیں، جب کہ ان ممالک میں تیسری اور چوتھی لہر بھی اپنا قہر برپا کرچکی ہے۔ اس معنی میں ہمارے سامنے دوہرا چیلنج ہے۔ ہمیں آج کی مشکلوں سے باہر نکلنے کے ساتھ ہی مستقبل کی مصیبت کے لیے بھی تیار رہنا ہے۔
بے لگام ہورہے کورونا کو قابو میں کرنے اور اس سے پیدا ہورہی حالت سے نمٹنے کے لیے اور کیا کیا کیا جاسکتا ہے؟ حکومت نے غریب طبقہ کو اگلے دو ماہ کے لیے مفت راشن دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ بہت اچھا قدم ہے، جو بتاتا ہے کہ حکومت گزشتہ سال کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے لیے تیار ہے۔ لیکن اس اعلان کو لاک ڈاؤن کی واپسی سے بھی منسلک کرکے دیکھا جارہا ہے۔ جس طرح نئے متاثرین روزانہ 3لاکھ سے زیادہ کی شرح سے بڑھ رہے ہیں، اسے روکنے کے لیے کیا لاک ڈاؤن ہی حکومت کے پاس آخری متبادل ہے؟ فی الحال اس کے امکان کم ہی نظر آتے ہیں۔ گزشتہ سال جب ملک میں لاک ڈاؤن ہوا، تب ہمارے پاس وبا سے لڑنے کا کارگر بنیادی ڈھانچہ تک نہیں تھا۔ آج ہمارے پاس دوا بھی ہے اور ٹیکہ بھی ہے، زیادہ بڑا مسئلہ سسٹم کی مؤثر تنظیم ہے۔ ویسے بھی کورونا سے متعلق گزشتہ ایک سال میں عوام تھوڑے تو بیدار ہوئے ہیں۔ مسلسل ہاتھ دھونے، سماجی دوری رکھنے اور ماسک پہننے جیسی باتیں آبادی کے ایک بڑے طبقہ کی عادتوں میں شامل ہوگئی ہیں۔ حالاں کہ یہ تبدیلی ذاتی ترجیحات کا موضوع ہے اور صرف اس مقصد سے لاک ڈاؤن لگانا اچھا متبادل نہیں کہا جاسکتا۔ یہاں تک کہ ویک اینڈ کرفیو اور مختلف طرح کی پابندیاں بھی غریب اور محروم لوگوں کے لیے دوہری مار ہی ثابت ہوتی ہیں۔ دوسری لہر کے انفیکشن کو روکنے میں اس کا ویسا اثر نظر نہیں آرہا جیسا پہلی لہر کے دوران نظر آیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ مرتبہ کے برعکس اس مرتبہ فیملی کے اندر ہی ممبران میں انفیکشن پھیل رہا ہے۔ ایسے میں بڑے لاک ڈاؤن کے بجائے وزیراعظم کی طرف سے تجویز کردہ مائیکرو کنٹنمنٹ والا متبادل زیادہ عملی لگتا ہے۔
نئے اوتار میں کورونا کے قدم گاؤں قصبوں میں بھی پڑگئے ہیں۔ یہ بے حد تشویشناک حقیقت ہے کیوں کہ ان علاقوں میں ہماری صحت کی سہولتیں آج بھی بھگوان بھروسے ہی ہیں۔ ایسے میں حکومت اور معاشرہ دونوں کو مل کر آگے آنا ہوگا۔ ہمارے بیشتر دیہی عوام ابھی بھی کووڈ جانچ، کانٹیکٹ ٹریسنگ، کورنٹین سہولتیں، آئسولیشن بیڈ جیسے طریق کار اور سہولتوں سے انجان ہیں اور راتوں رات ان کے برتاؤ میں تبدیلی لانا اکیلے حکومت کے بس کی بات نہیں ہے۔ حکومت کو اس کی ضرورت شہروں اور میٹرو سٹیز میں بھی پڑے گی، حالاں کہ وہاں تناظر تھوڑا مختلف ہوگا۔ یہ تو ہر کوئی سمجھ رہا ہے کہ کورونا سے جنگ ابھی لمبی چلنے والی ہے، کم سے کم ایک سال یا شاید اس سے بھی زیادہ۔ ظاہر ہے گزشتہ ایک سال سے میدان میں سینہ سپرسسٹم مزید ایک سال تک محاذ نہیں سنبھال پائے گا۔ اس لیے چاہے آنے والے دنوں میں آکسیجن سپلائی ضرورت سے زیادہ ہوجائے، اسپتالوں میں بستروں کی قلت دور ہوجائے، دوا اور انجکشن کے لیے مریض کے اہل خانہ کو دردر کی ٹھوکر نہ کھانی پڑے، تب بھی دیر سویر اس جنگ کو منظم طریقہ سے جاری رکھنے میں عوامی شراکت داری کے کسی نہ کسی ماڈل کی ضرورت تو پڑے گی ہی۔ اس کے لیے سول سوسائٹی، غیرسرکاری تنظیم، کونسلر-ایم ایل اے، شہروں میں ریزیڈنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن اور گاؤوں میں پنچایت وغیرہ کی سطح پر تال میل اور لوگوں میں بیداری میں اضافہ کے لیے یہ ماڈل ایک کامیاب متبادل بن سکتا ہے۔
اس کی سب سے زیادہ افادیت ہمارے ٹیکہ کاری پروگرام میں نظر آسکتی ہے جو حکومت کی تمام کوششوں کے باوجود ابھی تک مطلوبہ رفتار نہیں پکڑ پایا ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں میں عام حالات بحال کرنے میں ٹیکہ کاری کا اہم کردار سامنے آیا ہے۔ اسرائیل میں کل آبادی کی 61فیصد ٹیکہ کاری ہوچکی ہے اور وہ کورونا دور میں دنیا کا پہلا ماسک سے آزاد ملک بن گیا ہے۔ برطانیہ بھی اسی راہ پر بڑھ رہا ہے، جہاں اب تک 49فیصد آبادی کو ٹیکہ لگنے سے انفیکشن کے معاملہ 97فیصد تک کم ہوگئے ہیں۔ برطانیہ نے جولائی تک اپنی پوری آبادی کو ٹیکہ لگانے کا ہدف رکھا ہے۔ تسلیم کرلیا جائے کہ آبادی اور رقبہ کے حساب سے اسرائیل اور برطانیہ کو مثال بنانا ہمارے لیے کسی بھی چیلنج کو مزید مشکل بنانے جیسا ہوسکتا ہے، لیکن اس معاملہ میں ہم امریکہ سے تو مقابلہ کرہی سکتے ہیں جس نے تمام پریشانیاں جھیلتے ہوئے اپنی 40فیصد آبادی کی ٹیکہ کاری کرکے بغیر لاک ڈاؤن لگائے ایکٹیو معاملوں کو 80فیصد تک کم کرلیا ہے۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ابھی ہم کورونا کی دوسری لہر کا ہی سامنا کررہے ہیں، جب کہ ان ممالک میں تیسری اور چوتھی لہر بھی اپنا قہر برپا کرچکی ہے۔ اس معنی میں ہمارے سامنے دوہرا چیلنج ہے۔ ہمیں آج کی مشکلوں سے باہر نکلنے کے ساتھ ہی مستقبل کی مصیبت کے لیے بھی تیار رہنا ہے۔ بیشک ابھی بھی حالات ’کرو یا مرو‘ والے نہ ہوں، لیکن اتنے تشویشناک تو ہیں ہی کہ اب ’تھوڑا ہے، تھوڑے کی ضرورت‘ نہیں، بلکہ بہت جلد بہت کچھ کیے جانے کی ضرورت ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)