ڈیجیٹل ٹیکنا لوجی کے غلط استعمال کا کیسے کریں مقابلہ : عبدالعزیز

0

عبدالعزیز
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے انسان کی کایاپلٹ کررکھ دی ہے۔اب ٹکنالوجی کے بغیر زندگی کا کوئی تصوّر بھی نہیں کرسکتا۔پہلے والی حالت یادور میں واپس جانا تقریباً ناممکن ہے۔ اس ٹکنالوجی نے مادی اور روحانی لحاظ سے جو نقصان پہنچایا ہے، وہ تو ظاہر ہے، اس لیے ہمیں ٹکنالوجی کے خطرات سے باخبر و ہوشیار رہنا چاہیے۔ایک تحقیقی رپورٹ جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے اس کے مطابق اسکرین ٹائم (وہ وقت جوٹی وی یاکمپیوٹر یاموبائل دیکھنے میں گزاراجاتاہے)دماغ کی نشوونما کے لئے زہرِ قاتل کا کام کرتاہے۔
ایک معتبر جریدہ The Lancet Child & Adolescent Health کی رپورٹ یہ بتاتی ہے: ’’جو لوگ دن بھرمیں دو گھنٹے سے بھی کم ٹی وی،کمپیوٹر، انٹرنیٹ یاموبائل کے ربط میں رہتے ہیں، ان کی ذہنی و شعوری حالت ان لوگوں کے مقابلے بہتر پائی گئی ہے، جو دن بھر ان آلات سے کھیلتے رہتے ہیں‘‘مگر اس کا کیا کیاجائے کیونکہ ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں، جہاں ٹیکنالوجی سماجی رابطے کی ایک ناگزیر ضرورت بن گئی ہے۔اس کونہ چھونے یا ہاتھ نہ لگانے کا مطلب یہ ہے کہ ایک کوزے میں بندہوجانا۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس کے محتاط استعمال کی حکمت عملی بنانی پڑے گی۔یہ مشکل کام توہے، لیکن ہمیں یہ کرناہوگا اور بچوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ وہ ان آلات کو بہ قدرضرورت ہی استعمال کریں، تاکہ ان کے خطرات کا زیادہ شکار نہ ہوں۔
نوجوانوں میں ٹیکنالوجی کا استعمال:آج حالت یہ ہے کہ کوئی گھرایساباقی نہیں بچاہے جہاں ٹی وی نہ ہو۔سوشل میڈیانے ہرنوجوان کو اپنے حصار میں جکڑلیاہے۔ ’پیو ریسرچ سینٹر‘ (PEW) کے ایک سروے کے مطابق 97 فی صد امریکی نوجوان انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں، اور اس پر روزانہ پیغامات کا تبادلہ ہوتاہے، جبکہ 79فی صد سوشل میڈیاپر اپناپروفائل رکھتے ہیں۔85فی صد نوجوان ’یوٹیوب‘ استعمال کرتے ہیں۔ 84فیصد انسٹاگرام، 80 فی صد اسنیپ چیٹ، 70 فی صد ’ٹک ٹاک‘ 51 فی صد فیس بک،32فی صد ٹویٹر / ایکس، 9 فی صد ٹمبراور 7 فی صد ریڈٹ استعمال کرتے ہیں۔ ویڈیو گیمز کا بے انتہا استعمال اس پر مستزاد ہے۔
ریسرچ سے یہ بھی معلوم ہواہے کہ جو بچّے، بچپن سے ہی اس کے عادی ہوجاتے ہیں، ان کے دماغ کی نشوونما بْری طرح متاثر ہوجاتی ہے۔ معاشرتی رشتوں پر اس کے منفی اثرات تو ہرکسی کے علم میں ہیں۔ اگر کوئی بچہ سوشل میڈیاپر مصروف ہے اور اس کے ذریعے دوست واحباب رابطے میں ہیں۔ اس وقت گھر کے کسی بڑے خواہ وہ والدین ہی کیوں نہ ہوں، کسی ضرورت کے لیے انھیں آواز دیں تو انھیں سخت ناگوار گزرتاہے۔بعض اوقات الٹا سیدھا جواب بھی دے دیتے ہیں۔ عام طورپر اس پر گندی اور فحش چیزیں ہی دیکھی اور دکھائی جاتی ہیں اور باربار دیکھی جاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب انٹرنیٹ کے ذریعے بدتہذیبی وفحاشی پھیلائی جائے گی، توبچوں کادماغ اس سے لازماً متاثر ہوگا۔
انٹرنیٹ کے استعمال کا غیرمعمولی رجحان:یوں توفرزندپروری کبھی اور کسی بھی زمانے میں کوئی آسان کام نہیں رہاہے، مگر آج یہ جتنا مشکل اور کٹھن بن گیاہے پہلے کبھی نہیں تھا۔ ’پیوریسرچ سینٹر‘ ہی کی ایک اور رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ ’’65فی صد والدین کے مطابق: ’’فرزندپروری آج جتنا مشکل اور کٹھن کام بن گیاہے، 20 سال پہلے یہ حالت نہیں تھی‘‘۔ان سب کی تشویش ایک جیسی ہے کہ جب دیکھو ان کے بچے اسکرین پر آنکھیں گاڑے بیٹھے رہتے ہیں۔ممکن ہے فرزندپروری کے مشکل ہوجانے کے اور بھی اسباب ہوں، مثلاًمعاشی دشواریاں یاتنگی ہوسکتی ہے، لیکن ان میں سوشل میڈیا سب سے اہم سبب ہے۔ ہمیں یہ قطعی طورپر معلوم ہوناچاہئے کہ 95 فی صد بچے ان آلات پر انٹرنیٹ کے ذریعے کیا کرتے رہتے ہیں؟یہ توسب کے علم میں ہے کہ 99 فی صد نوجوان انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں لیکن ’پیوریسرچ سینٹر‘ کے مطابق اس میں تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ امریکہ کا ہرنوجوان روزانہ تقریباً ساڑھے سات گھنٹے سوشل میڈیا پر گزارتاہے۔ یہ 2019ء میں کیفیت تھی۔ اعدادوشمار کے مطابق ’یوٹیوب‘ سوشل میڈیا کاسب سے زیادہ مقبول ایپ ہے۔ اب ’ٹک ٹاک‘ کی مقبولیت میں بھی تیزرفتار اضافہ درج کیاجارہاہے۔
اس صدی سے پہلے غلط حرکت پر بچّے شرمندگی محسوس کرتے تھے اور جو کچھ کیا ہوتا اس کو بھول جاتے تھے، مگر اس صدی نے یہ تحفہ دیاہے کہ شرمندگی کے آثار کو محفوظ کرلیاجاتاہے اور وہ بھی انٹرنیٹ پر۔اپنے بچوں کو یہ بھی بتاناچاہیے کہ سوشل میڈیاکیسی کیسی سنگین حرکتوں کی ترغیب دیتاہے اور سنگین جرائم کے ارتکاب کے راستے دکھاتاہے۔جن میں سائبر کرائم، اجنبی احباب کا غلبہ اور انتہاپسندی شامل ہے۔تاہم یہ خیال رکھیں کہ بچوں کے ساتھ گفتگو اس طرح کی جائے کہ اُلٹااثر نہ ہوبلکہ وہ ہماری باتیں دھیان سے سنیں اور انھیں یہ محسوس ہوکہ درست بات کہی جارہی ہے۔ وہ اپنی اصلاح کریں۔اگر ایسانہ ہوتوپھر سوشل میڈیا کے استعمال پر نظررکھی جائے اور اس کا استعمال محدود کیاجائے۔
ٹیکنالوجی کے مثبت پہلو: ڈیجیٹل انقلاب نے عالمِ انسانیت پر جواثرات مرتب کیے ہیں، وہ سارے کے سارے منفی نہیں ہیں بلکہ اس کے فائدے بھی ہیں۔ مثال کے طورپر فاصلے کم ہوئے ہیں، جن کا پہلے انسان تصور بھی نہیں کرسکتاتھا۔ اس وجہ سے اجتماعی رابطوں میں سہولت اور چیزوں تک رسائی بہت آسان ہوگئی ہے،خاص طورپر تعلیم کے میدان میں کل جن چیزوں کا حصول محال تھا، آج ممکن اور آسان بھی ہوگیاہے۔درس و تدریس کے بے شمار ذرائع پیداہوگئے ہیں۔اب پہلے جیسی محتاجی نہیں رہ گئی ہے۔
انٹرنیٹ کے آجانے سے معاشی سرگرمیاں بھی پھیل گئی ہیںاور مواقع بھی بڑھ گئے ہیں۔ ’کووڈ-19‘ کے زمانے میں جب آفس کا وجود اپنی اہمیت و ضرورت کھوچکاتھا، ’زوم میٹنگز‘ اور اس قسم کی دوسری تدبیروں کے توسط سے لوگ گھر بیٹھے ہی دفتری کام انجام دے لیتے تھے۔ یوں روزگار کے مواقع پیدا ہوئے اور تعلیم وتدریس کا عمل بھی اس کے ذریعے جاری وساری ہوگیا تھا۔ اس ڈیجیٹل انقلاب کے سبب خاص طورپر صحت کے شعبے میں مریضوں کے بارے میں معلومات کا تبادلہ نہ صرف آسان ہوگیابلکہ اس کے دائرۂ کار میں بھی وسعت آگئی اورسماجی رابطہ بھی آسان ہوگیاہے۔ قانون کے نفاذ میں آسانیاں پیدا ہوئیں،جرائم کی روک تھام اور مجرموں کی گرفتاری میں بھی بڑی سہولتیں پیداہوگئیں۔یہ توچند اچھائیاں ہیں تمام فائدوں کا احاطہ یہاں ممکن نہیں ہے۔
ٹکنالوجی کی خرابیاں یا منفی اثرات:ٹکنالوجی کے منفی اثرات اور سماجی و تہذیبی نقصانات بہت واضح اور نمایاں ہیں، جو روز بہ روز بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ جن لوگوں کو اس کے زبردست نقصانات پہنچے ہیں، ان میں والدین بطور خاص قابلِ ذکر ہیں۔ آج کے بچوں کا اپنے والدین،اساتذہ، بزرگوں کے ساتھ جورویہ ہے، وہ معمول سے ہٹ کرہے۔ اب ان میں رنجشیں اورکش مکش کی نوبت بھی آگئی ہے۔ نئی نسل روایتی قدروںکو تقریباًبھلاتی چلی جارہی ہے۔ انٹرنیٹ نے والدین اور بزرگوں کو مضحکہ خیز وجود بناکر رکھ دیا ہے۔ تہذیب، آداب معاشرت، اخلاقی اقدار فراموش ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ انٹرنیٹ پر نوعمروں کی بددیانتی کے ساتھ خوفناک ظلم کے آثار بھی نمایاں ہورہے ہیں، جوماہرین عمرانیات کو حیران کر رہے ہیں۔ آن لائن تعامل صرف سماجی تعامل کا ایک پہلو فراہم کرتاہے کیوں کہ انسانی نفسیات ہم سے ان لوگوں کی آوازیں سننے کا تقاضا کرتی ہے جن کے ساتھ ہم بات چیت کرتے ہیں اور ان کے چہروں سے حقیقی معنوں کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں،تاکہ ان سے حسی سطح پر بات کو سمجھ اور سمجھا سکیں۔ نوجوان ترقی کرنے میں اس لیے ناکام رہتے ہیں کیوں کہ الگورتھم (ژم) انھیں سوشل میڈیا کے بلبلوں میں جکڑے رکھتاہے، جہاں ان کے خیالات کو کبھی چیلنج نہیں کیاجاتا۔
یاد رکھنا چاہیے کہ انٹرنیٹ نوجوانوں کے فرصت کے اوقات کو ہڑپ کرلیتاہے،جب کہ ان کا وہ وقت دوسرے مفید کاموں میںصرف ہوسکتاتھا، جیسے کوئی ہنر سیکھنا یا کوئی صلاحیت پیداکرنا، مگر اس کاعادی بننے کے بعد بچوں کا اس سے نکلنا محال ہوجاتاہے بلکہ وہ اندھیرے غار کی طرف بڑھتے بلکہ کھنچتے ہی چلے جاتے ہیں۔اگر ان بچوں کو روکا نہیں گیاتو یہ لت انھیں عام ویڈیوگیمز سے پرتشدد ویڈیوز، گندے عریانیت اور سیاسی دہشت گردی جیسے ویڈیو دیکھنے کا عادی بنادے گی۔ انٹرنیٹ کے ذریعے فکری، مذہبی اور الحادی گمراہی بھی پھیلائی جارہی ہے۔اس کی وجہ سے بچوں میں سوچنے سمجھنے،پرکھنے، سچ اور جھوٹ میں تمیز کا ملکہ ہی ختم ہوتا جا رہاہے۔اعصابی امراض کے ماہرین کی تحقیق سے یہ پتہ چلاہے کہ مجازی زندگی یاد داشت کومتاثر کر رہی ہے اورقوتِ فیصلہ پر اثرانداز ہورہی ہے۔اسی طرح یکسوئی پر خراب اثرڈال رہی ہے اور نیند میں بھی خلل واقع ہورہا ہے۔ کیا ہم اپنے بچوں کے ساتھ یہ سب ظلم ہوتا ہوادیکھ کر آرام سے بیٹھے رہ سکتے ہیں؟(جاری)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS