عید کے دن خوشی کیسے منائیں؟: عبدالعزیز

0

عبدالعزیز
الحمد للہ! عیدین کے دن خوشی و مسرت کے دن ہیں اور ان ایام کیلئے کچھ عبادات، آداب اور عادات مختص بھی ہیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں:
1- غسل کرنا:یہ عمل صحابہ کرامؓ سے ثابت ہے، چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک آدمی نے غسل کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہاکہ ’’اگر چاہو تو روزانہ غسل کرو‘‘ تو آدمی نے کہاکہ ’’نہیں! جسے غسل کہا جاتا ہے اس کے بارے میں سوال ہے‘‘ تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ ’’وہ غسل جمعہ کے دن، یوم عرفہ کے دن، عید الاضحی اور عید الفطر کے دن ہوتا ہے‘‘۔اسے امام شافعیؒ نے اپنی ’’مسند الشافعی‘‘ صفحہ385 میں ذکر کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے ارواء الغلیل (1/176) میں اسے صحیح کہا ہے۔
2- نئے کپڑے زیب تن کرنا:چنانچہ اس بارے میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے بازار سے ریشمی جبہ خریدا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے اور عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! آپؐ بھی اس کے ساتھ کا جبہ عیدین اور وفود سے ملاقات کیلئے خرید لیں‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایاکہ ’’یہ ایسے شخص کا لباس ہے جس کا (آخرت میں )کوئی حصہ نہیں ہے‘‘۔بخاری: (906) مسلم: (ص2068)۔
امام بخاریؒ نے اس حدیث پر عنوان قائم کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’باب ہے عیدین پر زیب و زینت اختیار کرنے کے بارے میں‘‘ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ’’اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان مواقع میں زیب و زینت اختیار کرنا ان کے یہاں بھی مشہور و معروف تھا‘‘ انتہی’ المغنی‘ ( 2 / 370 )
ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ کہتے ہیںکہ ’’اس حدیث سے عید کیلئے زیب و زینت اختیار کرنے کا علم ہوتا ہے، اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کرنا ان کے یہاں عام اور مشہور تھا ’ انتہی‘ فتح الباری ‘ لابن رجب ( 6 / 67 )
شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ’’اس حدیث سے عید کے موقع پر زیب و زینت اختیار کرنے کی دلیل اس طرح لی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو عید کے دن خوبصورت لباس پہننے سے منع نہیں فرمایا بلکہ ممانعت کی تو صرف ریشمی لباس سے کی’ انتہی’ نیل الاوطار‘ ( 3 / 284 )۔اس بات پر عمل صحابہ کرامؓ کے زمانے سے لے کر اب تک چلا آ رہا ہے۔
ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ کہتے ہیںکہ ’’بیہقی نے صحیح سند کے ساتھ نافع سے بیان کیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما عیدین کے موقع پر اچھے سے اچھا لباس زیب تن کرتے تھے‘‘نیز انہوں نے ایک جگہ یہ بھی کہا ہے کہ ’’عیدین کے موقع پر خوبصورت لباس زیب تن کرنے میں عید نماز کیلئے جانے والے یا گھر میں بیٹھے رہنے والے، حتیٰ کہ خواتین اور بچے سبھی شامل ہیں‘‘ انتہی’ فتح الباری‘ لابن رجب (6/68 ، 72)
جبکہ کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ اگر اعتکاف کیا ہو تو پھر عید کیلئے اعتکاف والے کپڑوں میں ہی جائے، لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’عید کیلئے سنت یہی ہے کہ خوبصورت لباس زیب تن کرے، چاہے کسی نے اعتکاف کیا ہو یا نہ کیا ہو‘‘۔
3-اچھی خوشبو لگانا: ابن عمر رضی اللہ عنہما سے صحیح ثابت ہے کہ وہ عید الفطر کے دن خوشبو لگایا کرتے تھے، جیسے کہ فریابی کی کتاب: ’’احکام العیدین‘‘ صفحہ: 83 میں موجود ہے۔
ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ کہتے ہیںکہ امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ’’میں نے اہل علم کو عیدین کے دن زیب و زینت اور خوشبو لگانے کو مستحب کہتے ہوئے سنا ہے‘‘۔، اسی طرح امام شافعی نے بھی اسے مستحب کہا ہے۔’ فتح الباری‘ از: ابن رجب ( 6 / 68 )
مذکورہ زیب و زینت اور خوشبو کا استعمال خواتین کی طرف سے گھر کی چہار دیواری میں خاوند، محرم اور گھر کی خواتین کے سامنے ہوگا۔
چنانچہ موسوعہ فقیہ (31/116) میںہے کہ’’خوبصورت لباس، بیرونی و اندرونی صفائی ستھرائی، جسمانی بد بو سے چھٹکارا، وغیرہ دیگر امور میں عید نماز کیلئے جانے والے اور (مجبوری کی بنا پر)گھر میں رہنے والے تمام افراد کیلئے ہے، کیونکہ یہ دن زیب و زینت کا دن ہے، اس لئے تمام کا حکم برابر ہوگا، لیکن خواتین اس میں شامل نہیں ہیں۔
چنانچہ خواتین عید نماز کیلئے جاتے ہوئے خوبصورت لباس زیب تن نہیں کریں گی، بلکہ عام سادہ لباس میں عید نماز کیلئے جائیں، خوبصورت لباس اور خوشبو استعمال نہ کریں، کیونکہ ان کی وجہ سے فتنے کا خدشہ رہتا ہے، حتیٰ کہ بوڑھی، اور غیر دلکش خواتین بھی اسی حکم میں شامل ہیں، چنانچہ خواتین مردوں سے بالکل الگ تھلگ رہیں گی‘‘ انتہی۔
4-تکبیرات کہنا:عید الفطر کے موقع پر عید کا چاند نظر آتے ہی تکبیرات کہنا مسنون ہے، کیونکہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’ تا کہ تم گنتی پوری کرو، اور اللہ تعالی کی کبریائی اسی طرح بیان کرو جیسے اس نے تمہاری رہنمائی کی ہے‘‘۔(البقرۃ : 185)
اس آیت کے مطابق گنتی روزوں کی تعداد پوری ہونے سے مکمل ہوگی اور تکبیرات کا آخری وقت یہ ہے کہ جب امام خطبہ کیلئے آ جائے۔
جبکہ عید الاضحی کے موقع پر تکبیرات یوم عرفہ کی صبح سے لے کر ایام تشریق کے آخر تک جاری رہیں گی جو کہ ذو الحجہ کی 13 تاریخ کو ہوتا ہے۔
5-رشتہ داروں سے ملاقاتیں:عید کے دن رشتہ داروں، پڑوسیوں اور دوستوں کے ساتھ ملاقات کرنے میں بھی کوئی حرج نہیںہے، لوگوں میں اس کا اہتمام عام پایا جاتا ہے، بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عید نماز کیلئے آتے جاتے راستہ تبدیل کرنے کا حکم بھی اسی لیے دیا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں سے ملاقات ہو۔
بہت سے اہل علم عید نماز کیلئے آتے جاتے وقت راستہ تبدیل کرنے کو مستحب کہتے ہیں، چنانچہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن آتے جاتے راستہ تبدیل کرتے تھے‘‘ بخاری: (943)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’یہ بھی کہا گیا ہے کہ تا کہ آپ زندہ اور فوت شدہ رشتہ داروں کے اہل خانہ سے ملیں، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ صلہ رحمی کیلئے راستہ تبدیل کرتے تھے‘‘ انتہی’ فتح الباری‘ (2/ 473 )
6-مبارکباد دینا:اس کیلئے کوئی بھی اچھے الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں، اس کیلئے افضل ترین الفاظ ’’ تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا وَمِنْکُمْ‘‘ ہیں؛ کیونکہ یہ الفاظ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہیں۔
چنانچہ جبیر بن نفیر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام عید کے موقع پر جب آپس میں ملتے تو ایک دوسرے کو کہتے: ’’تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا وَمِنْکَ‘‘۔حافظ ابن حجر نے ’ فتح الباری‘ ( 2 / 517 ) میں اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔
مالک رحمہ اللہ سے سوال کیا گیاکہ ’’عید کی نماز سے واپس آنے کے بعد اگر کوئی اپنے بھائی سے کہہ دے کہ: ’’ تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا وَمِنْکَ، وَغَفَرَ اللّٰہُ لَنَا وَلَکَ‘‘ اور آگے سے جواب میں بھی اسی طرح کے الفاظ کہے تو کیا یہ مکروہ ہے؟ ‘‘ تو انہوں نے کہا کہ ’’یہ مکروہ نہیں ہے‘‘ انتہی’ المنتقی شرح الموطا‘ ( 1 / 322 )
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیںکہ ’’عید کے دن مبارک باد دیتے ہوئے نماز عید کے بعد ایک دوسرے کو یہ کہنا کہ ’’ تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَمِنْکمْ‘‘ یا ’’اللہ تعالیٰ آپ کو بار بار عیدیں نصیب کرے‘‘ اس طرح کے دیگر دعائیہ کلمات کہنا ، متعدد صحابہ کرامؓ سے مروی ہے کہ وہ ایسا کیا کرتے تھے، ائمہ کرام نے اس بارے میں رخصت ہی دی ہے، جیسے کہ امام احمد کہتے ہیں کہ ’’میں کسی کو عید کی مبارکباد یتے ہوئے پہل نہیں کرتا، لیکن اگر کوئی مجھے مبارکباد دے تو میں اس کا جواب دیتا ہوں، کیونکہ جواب دینا واجب ہے‘‘۔
’’مبارکباد دینے سے متعلق احادیث میں کہیں بھی حکم نہیں ہے، اور نہ ہی اس سے کہیں ممانعت موجود ہے، اس لئے مبارکباد ینا اور نہ دینا دونوں طرح درست ہے‘‘۔’ مجموع الفتاویٰ‘ ( 24 / 253 )
7- کھانے پینے کا اہتمام:کھانے پینے کا خصوصی اہتمام کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، یہ اہتمام گھر میں یا گھر سے باہر کسی ہوٹل وغیرہ میں بھی ہو سکتا ہے، تاہم کسی ایسے ہوٹل میں کھانے کا اہتمام نہ کریں جہاں پر شراب نوشی ہو یا وہاں موسیقی کی آواز آ رہی ہو، یا پھر مرد و زن کا مخلوط ماحول ہو۔
کچھ علاقوںمیں ایسا بھی ممکن ہے کہ مرد و زن کے مخلوط ماحول اور دیگر شرعی مخالفات سے بچنے کیلئے زمینی یا سمندری سفر بھی کر سکتے ہیں۔
نبیشہ ہذلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ (ایام تشریق کھانے پینے اور ذکر الٰہی کے دن ہیں) مسلم: (1141)
8- جائز تفریح:فیملی کے ساتھ ساحل بری، بحری سفر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح قدرتی طور پر خوبصورت علاقوں اور تفریحی پارک وغیرہ میں بھی جا سکتے ہیں بشرطیکہ وہاں کوئی غیر شرعی امور نہ ہوں، اسی طرح موسیقی سے خالی ملی نغمے اور ترانے بھی سنے جا سکتے ہیں۔
چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے، اس وقت دو چھوٹی بچیاں جنگ بعاث کے ترانے گا رہی تھیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بستر پر لیٹ گئے اور اپنا چہرہ دوسری جانب کر لیا، پھر اس کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے تو انہوں نے مجھے ڈانٹ پلائی اور کہاکہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شیطان کی بانسریاں؟‘‘ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم متوجہ ہوئے اور فرمایا: (انہیں ترانے پڑھنے دو)، چنانچہ جب آپؐ کی توجہ دوسری جانب ہوئی تو میں نے انہیں ہاتھ سے اشارہ کیا اور وہ دونوں وہاں سے چلتی بنیں۔
اسی طرح عید کا دن تھا اور سیاہ فام لوگ نیزوں اور ڈھالوں سے کھیل رہے تھے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا یا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی مجھ سے پوچھا تھاکہ (کیا تم انہیں کھیلتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہو؟) تو میں نے کہا کہ ’’ہاں‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا، میرا گال آپ کے رخسار پر تھا، اور آپ نے انہیں فرمایا: (بنی ارفدہ(یعنی حبشہ کے لوگو!) اپنے کام میں لگے رہو) تو جب میں تھک گئی تو آپ نے پوچھا کہ (کافی ہے؟) میں نے کہاکہ ’’جی ہاں‘‘ تو آپ نے فرمایا کہ (چلو اب چلی جاؤ)۔بخاری: (907) مسلم: (829)

ایک روایت میں ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن فرمایا تھا: (تاکہ یہودیوں کو علم ہو جائے کہ ہمارے دین میں وسعت ہے، بیشک مجھے وسیع ظرف دین حنیف دے کر بھیجا گیا ہے)۔ مسند احمد: (50/366) مسند احمد کے محققین نے اسے حسن قرار دیا ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ صحیحہ: (4/443) میں ’’جید‘‘ کہا ہے۔
اور نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یہ عنوان قائم کیا ہے : ’’باب ہے اس بیان میں کہ عید کے دنوں میں معصیت سے خالی کھیل کود میں رخصت ہے‘‘۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیںکہ ’’اس حدیث میں متعدد فوائد ہیں۔عید کے دنوں میں اہل خانہ کیلئے ہر قسم کی فراوانی کریں تا کہ اس کا دل خوشگوار ہوجائے، بدن کو عبادت سے کچھ راحت دیں اور آج کے دن (نفلی) عبادت سے دوری بہتر ہے، نیز اس میں یہ بھی ہے کہ عید کے دنوں میں اظہار مسرت دینی شعائر میں سے ہے‘‘۔ فتح الباری ( 2 / 514 )
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیںکہ ’’عید کے دنوں میں یہ کام بھی کیا جاسکتا ہے کہ لوگ آپس میں تحائف کا تبادلہ کرتے ہیں، اور ایک دوسرے کو کھانے کی دعوت دیتے ہیں، اکٹھے ہو کر اظہار مسرت بھی کرتے ہیں، اس عادت میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ یہ عید کے دن ہیں، بلکہ ابو بکر رضی اللہ عنہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر داخل ہوئے تو…آگے انہوں نے مکمل حدیث بیان کی۔
اس میں یہ بھی ہے کہ ’الحمد للہ! شریعت میں لوگوں کی آسانی و سہولت کے پیش نظر ایسی چیزیں موجود ہیں جو عید کے دنوں میں مسرت و شادمانی کا سامان پیدا کرتی ہیں‘‘۔’ مجموع فتاویٰ شیخ ابن عثیمین‘ ( 16 / 276 )
اسی طرح ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ‘‘ ( 14 / 166 ) میں ہے کہ’’ عید کے دنوں میں اہل خانہ پر ہر قسم کی فراوانی کرنا لازمی امر ہے، جس سے دل خوشگوار ہو جائے، بدن کو عبادت سے کچھ راحت دیں، اسی طرح عید کے دنوں میں اظہار مسرت اس دین کے شعائر میں سے ہے، عید کے دنوں میں کھیل کود کرنا مسجد یا کسی اور جگہ جائز ہے، بشرطیکہ کھیل کود کا انداز وہی ہو جو عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے جس میں حبشی لوگوں کی نیزہ بازی کا ذکر ہے‘‘ انتہی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمارے اور آپ کے نیک اعمال قبول فرمائے، اور ہم سب کو دین و دنیا کی خیر سے نوازے۔واللہ اعلم۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS