وزیر اعظم مودی وارانسی سے اس مرتبہ کتنے ووٹوں سے کامیاب ہوں گے ۔ اس بارے میں کئی حلقوں میں قیاس آرائیاں لگائی جارہی ہیں۔ کئی لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہ لگاتار تیسری مرتبہ جب کامیاب ہوں گے تو جیت کا فرق 10لاکھ سے زیادہ کا ہوگا یا اس کے آس پاس کا ہوگا ۔ اس دوران پورے ملک سے بی جے پی کے ورکر اور ان کے شیدائی وارانسی پہنچنے شروع ہوچکے ہیں۔
ہندوستان کے بھر کے سیاسی لیڈر اور ماہرین جن میں مرکزی وزیر برائے امور خارجہ ایس جے شنکر ، پیوش گوئل، مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ موہن یادو ، اترپردیش کے نائب وزیراعلیٰ برجیش پھاٹک اور کیشو پرساد موریہ کے علاوہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر جے پی نڈا شامل ہیں۔ اس دوران زیادہ تر اہم شخصیات طلبا ء ، تاجروں ،فنکاروں اور بنکروں سے ملاقات کرکے وزیراعظم نریندر مودی کے حق میں مہم چلا رہے ہیں۔ اس دوران وارانسی میں پہنچنے والا ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو گجرات سے پہنچ رہا ہے اور ان کے لیے کئی مقامات پر مذہبی تقاریب کا انعقاد ہورہا ہے اور یہ لوگ وزیراعظم نریند رمودی کو پچھلی دفعہ سے زیادہ ووٹو ںسے کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس دوران جنوبی ہندوستان سے کچھ ایسے فنکار پہنچ رہے ہیں جو کہ موسیقار اور فنکارہیں جو تمل اور وارانسی کے تہذیبی اور ثقافتی اقدار کے امتزاج کا مظاہرہ کریں گے۔
اس موقع پر وارانسی میں اس طرح کا ایک غیر معمولی سنگم دیکھنے کو ملے گا۔ بی جے پی کے ترجمان کے کے شرما کا کہنا ہے کہ پچھلے 10سال میں وارانسی میں غیر معمولی ترقیاتی کام ہوئے ہیں اور وزیراعظم نے وعدے سے زیادہ کام کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت وارانسی میں جو ثقافتی منظر نامہ ہے وہ بڑا شاندار ہے۔ آج اس ممتاز سرزمین پر بنیادی ڈھانچہ بہت زیادہ مضبوط ہوگیا ہے اور سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب لوگ غروب آفتاب کے بعد گھروں سے نکلتے نہیں تھے مگر اب منظرنامہ بالکل بدل گیا ہے۔ آرتی کے لیے رات کو ڈھائی تین بجے عقیدتمند پہنچ جاتے ہیں ،اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وارانسی میں امن وقانون کی صورت حال بہت اچھی ہوگئی ہے۔
ایک مقامی سماجوادی لیڈر نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے وارانسی کو ایک گھریلو سیاحی مقام سے بدل کر بین الاقوامی منزل میں تبدیل کردیا ہے۔ وارانسی میں بہت سے سربراہان مملکت تشریف لا چکے ہیں اور اس طرح غیر ملکی سیاحوں کی آمد لگاتار بڑھ رہی ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ کچھ لوگ وزیراعظم کے خلاف الیکشن لڑر ہے ہیں، مگر یہ مقابلہ ان معنوں میں غیر حقیقی ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی میدان میں ہیں۔
وارانسی کے لوگو ں کا کہنا ہے کہ سوال یہ نہیں ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی تیسری مرتبہ الیکشن جیتیں گے یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ وہ پچھلے الیکشن کے مقابلے میں کتنے بڑے فرق سے فتح درج کرائیں گے۔ کئی لوگ یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ وزیراعظم نریندر مودی 10لاکھ سے زیادہ فرق سے الیکشن جیتیں گے۔ جتنے بھی ووٹوں میں اضافہ ہوجائے وہ وزیراعظم کے لیے ہمارا ایک تحفہ ہوگا۔ ایک مقامی تاجر لوکیش مجمدار کا کہنا ہے کہ اس دفعہ یہاں کے لوگ اس الیکشن کو ایک بڑے جشن کے طورپر منا رہے ہیں۔
2014میں وزیراعظم نے دہلی کے وزیراعلیٰ کے خلاف الیکشن لڑتے ہوئے 56.73 فیصد ووٹ حاصل کیا تھا۔ بعد میں 2019میں ان کا ووٹ شیئر بڑھ کر 63.6فیصد ہوگیا۔ اس دفعہ ان کے خلاف الیکشن لڑنے والوں کی تعداد 8ہے جبکہ 2019میں 26اور 2014میں 42تھی۔ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق وزیراعظم کے خلاف اس مرتبہ 55لوگوں نے پرچے داخل کیے تھے، مگر صرف 8امیدواروں کے پرچے ہی درست پائے گئے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ریاست کے عوام اس مرتبہ وارانسی کے منظرنامے کو بڑے غور سے دیکھ رہے ہیں۔ کانگریس نے اجے رائے کو کھڑا کیا ہے۔ وہ انڈیا بلاک کا حصہ ہے۔ بی ایس پی کے امیدوار اطہر جمال لہری ہیں۔ یہ دونوں امیدوار مقابلے میں بھی نہیں آرہے ہیں۔ یہ لوگ بھی جانتے ہیں کہ وہ مقابلے میں کہیں نہیں کھڑے ہیں۔
اپوزیشن کی انتخابی مہم بالکل ہی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ ان امیدواروں کے حمایتوں کا کہنا ہے کہ یہ لوگ عام شہر سے ہٹ کر دیہی اور نواحی علاقوں میں خاص کر کے قرب جوار کے گائو ںمیں سرگرم ہیں۔ سماجوادی پارٹی ، بی ایس پی اور کانگریس کا سارا فوکس دیہی علاقوں کی طرف مرکوز ہے۔ انڈیا بلاک کے امیدوار ایسے مقابلے میں کھڑے ہیں کہ جس میں ان کی کامیابی کا امکان صفر ہے۔ کانگریس کی لیڈر پرینکا گاندھی ،سماجوادی کی لیڈر ڈمپل نے یہاں پر ایک روڈ شوکیا تھا ۔ اکھلیش یادو اور راہل گاندھی بھی مہم چلائیں گے مگر ان کی انتخابی مہم جلسوں ، ریلیوں میں عوام کا ہجوم تو دکھائی دیتا ہے مگر یہ ہجوم کیا اصل میں اپوزیشن کے امیدواروں کو ووٹ ڈلوا پائے گا۔ یہ ایک بڑا سوال ہے۔ وزیراعظم کے وارانسی سے الیکشن لڑنے سے پورا پروانچل میں فضا بدلے گی اور اس کا اثر دور تک دکھائی دے گی۔