ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
ایران کے سابق صدر ابراہیم رئیسی مئی کے مہینہ میں ایک ہیلی کاپٹر حادثہ میں جاں بحق ہوگئے تھے۔ اسی حادثہ میں ایران کے سابق وزیر خارجہ امیر عبداللہیان کی بھی موت واقع ہوگئی تھی اور ایک زبردست سیاسی خلا ایران میں پیدا ہوگیا تھا۔ اس خلا کو اب پر کرلیا گیا ہے اور ایران کے عوام نے مسعودپزشکیان کو اپنا نیا صدر منتخب کرلیا ہے۔ مسعودپزشکیان پیشہ سے امراض قلب کے سرجن اور سیاسی نظریہ کے اعتبار سے اصلاح پسند شمار کئے جاتے ہیں۔ انتخاب کے دوسرے مرحلہ میں ان کے مد مقابل امیدوار سعید جلیلی تھے جن کو عام طور پر قدامت پسند سمجھا جاتا ہے۔ ایران کا اصلاح پسند طبقہ مسعودپزشکیان کی کامیابی سے بہت پر امید ہے اور ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ ملک کی کرسی صدارت پر ان کے متمکن ہونے سے داخلی اور خارجی ہر سطح پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ پزشکیان کی کامیابی کو ملک کی تاریخ میں ایک اہم اور فیصلہ کن واقعہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
پزشکیان کی کامیابی کو اس اعتبار سے بھی اہمیت دی جا رہی ہے کہ تقریبا دو دہائیوں کے گزرنے کے بعد یہ پہلا واقعہ ہے جب کسی اصلاح پسند لیڈر کو یہ فتح نصیب ہوئی ہے۔ ان سے پہلے محمد خاتمی اصلاح پسند سیاسی قائد اور ایران کے صدر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ یہ بھی ایک دلچسپ اتفاق ہے کہ خاتمی کے عہد صدارت میںپزشکیان وزیر صحت کی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں اور اس بار بھی جب صدارتی انتخابات کے لئے امیدواروں کا انتخاب کیا جا رہا تھا تو محمد خاتمی نے مکمل طور پرپزشکیان کی امیدواری کو اپنی حمایت عطا کی تھی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ پچیس دنوں کی طویل سیاسی کشمکش کے بعد شنبہ کے روز ایران کی وزارت داخلہ نے اعلان کیا کہ تقریبا 55 فیصد ووٹ کے ساتھ مسعودپزشکیان فتحیاب ہوچکے ہیں۔ اعلانِ فتح سے قبل کے مرحلہ میں بھی جبکہ دونوں امیدوار عوام سے ووٹ مانگ رہے تھے اور ان کے سامنے مناظروں کے ذریعہ اپنے افکار و خیالات اور مستقبل کے منصوبے پیش کئے جارہے تھے تو ان مناظروں سے صاف جھلک رہا تھا کہ دونوں لیڈران داخلی اور خارجی سیاست سے متعلق بالکل جدا گانہ آراء رکھتے ہیں۔ پزشکیان کا اصلاح پسندانہ موقف تب بھی واضح طور پر نظر آتا تھا۔ اب یہ دیکھا جانا باقی ہے کہ پزشکیان کی کامیابی کا اثر ان تمام مسائل پر کس حد تک پڑتا ہے۔ ایران کے اصلاح پسند سیاسی کارکن اور سابق ایرانی صدر محمد خاتمی کے صدارتی دفتر کے چیف محمد علی ابطحی کو پزشکیان کی کامیابی سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ معروف میڈیا ہاؤس ’الجزیرہ‘ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پزشکیان کی فتح سے ایران میں بڑے پیمانے پر سماجی و سیاسی انفتاح کا دور شروع ہوگا۔ انٹرنیٹ کے استعمال پر جو شدید پابندیاں عائد ہیں ان میں ڈھیل دی جائے گی۔ اسی طرح جبری طور پر حجاب کے تھوپنے کے بارے میں بھی پزشکیان کی رائے قدامت پسندوں سے بالکل مختلف ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ 2022 میں جب مہسا امینی کی موت کے واقعہ کی وجہ سے پورا ایران سخت غصہ میں تھا اور خواتین و طلبا نے طویل مظاہروں کے ذریعہ اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا تھا تو اس وقت پزشکیان ان چند آوازوں میں سے ایک تھے جنہوں نے ذمہ داروں سے وضاحت طلب کی تھی۔ اس بار بھی جب وہ اپنا ووٹ ڈالنے آئے تو اس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے اپنے اس موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ ہم حجاب سے متعلق قانون کا احترام کرتے ہیں لیکن خواتین کے ساتھ کبھی بھی غیر انسانی اور جبری برتاؤ کا ارتکاب قطعا نہیں ہونا چاہئے۔ ان مسائل کے علاوہ بھی داخلی سطح پر پزشکیان کے سامنے کئی مشکل بحرانوں اور چیلنجز کی فہرست موجود رہے گی۔ ان چیلنجوں میں سب سے بڑا مسئلہ بڑھتی مہنگائی کا ہے۔ ایران کے اندر اس وقت شرح مہنگائی 40 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ پزشکیان نے گرچہ منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے ہی خطاب میں عوام کو یقین دہانی کرائی ہے کہ الیکشن مناظروں کے دوران انہوں نے جو بھی وعدے کئے ہیں ان کی تکمیل کریں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے ایران کے منقسم معاشرہ کو متحد رکھنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ایران کے تمام طبقوں کے لئے کام کریں گے۔ لیکن اس کے باوجود پزشکیان اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر پائیں گے کہ وہ جس منصب پر فائز ہونے جا رہے ہیں اس کی اپنی محدودیت ہے کیونکہ نہ تو پولیس اور فوج ان کے دائرہ عمل کے اندر آتے ہیں اور نہ ہی طاقت ور ایرانی انقلابی گارڈ پر ان کا کوئی بس چلے گا۔ اس کے علاوہ دوسری دقت یہ ہے کہ جس پارلیمنٹ کے ساتھ مل کر انہیں کام کرنا ہے وہاں بھی غلبہ قدامت پسندوں کا ہی ہے۔ اس کا صحیح اندازہ انہیں تب ہوگا جب وہ اپنی اصلاحات کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں گے۔
جہاں تک خارجی تعلقات کو بہتر بنانے کا معاملہ ہے تو انہیں بڑی حکمت عملی کے ساتھ کوشش کرنی ہوگی تاکہ وہ مغربی اور مشرقی ممالک کے ساتھ تہران کا تال میل ٹھیک سے بیٹھا پائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوگی کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات کو مضبوط کر سکیں کیونکہ سابق صدر ابراہیم رئیسی نے اس محاذ پر بڑی کامیابی حاصل کی تھی اور خطہ کے ممالک کے ساتھ ایران کا رشتہ استوار کر لیا تھا۔ امید تو یہی کی جا رہی ہے کہ اصلاح پسند قیادت اس سمت میں مزید کوششیں کرے گی۔ اس تناظر میں فلسطین کے مسئلہ کے حل اور فلسطینی مزاحمت کے تئیں نو منتخب صدر کی پالیسی کو بہت قریب سے دیکھا جائے گا۔ اگرچہ ابطحی جیسے اصلاح پسند تو یہی کہتے نظر آ رہے ہیں کہ اصلاح پسندوں کے زمام اقتدار سنبھالنے سے مسئلہ فلسطین پر مثبت اثر پڑے گا کیونکہ وہ اپنی نرم ڈپلومیسی سے خطہ کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر بھی فلسطینی عوام کے حقوق کی بازیابی میں کامیاب ہوسکیں گے۔ لیکن اس مسئلہ کی پیچیدگی کو دیکھتے ہوئے اس وقت کچھ مزید کہہ پانا قبل از وقت ہی ہوگا۔
جہاں تک ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں کے ازالہ اور مغربی ممالک کے ساتھ جاری کشمکش کو کم کرنے کا تعلق ہے تو اصلاح پسندوں کے پیش نظر یہ پہلو ہر وقت رہے گا۔ مناظروں کے دوران گرچہ پزشکیان نے اپنے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ ایرانی عوام پر عائد پابندیوں کے ازالہ کے لئے بڑی طاقتوں کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع کریں گے لیکن یہ راستہ اتنا آسان نہیں ہوگا۔ اگر امریکہ کے صدارتی انتخاب میں ڈونالڈ ٹرمپ فتح یاب ہوجاتے ہیں جس کا امکان ہر روز بڑھتا نظر آ رہا ہے تو اس کی پیچیدگیاں مزید بڑھ جائیں گی۔ آخر کار یہ ڈونالڈ ٹرمپ ہی تھے جنہوں نے 2018 میں ایران کے ساتھ 2015 میں کئے گئے نیوکلئیر معاہدہ کو ختم کر دیا تھا اور پابندیاں عائد کر دی تھی۔
جہاں تک اقتصادی ترقی کا مسئلہ ہے تو بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پزشکیان کی کامیابی کو ایران کا بازار مثبت نظر سے دیکھ رہا ہے کیونکہ ان کی جیت کے اعلان کے بعد سے ہی ایرانی اسٹاک مارکیٹ میں زبردست اچھال آیا ہے۔ برسوں سے مستقل زوال پذیر بورصہ میں شنبہ کے روز 88 ہزار 179 پوائنٹ کا چڑھاؤ دیکھا گیا جو کسی اعتبار سے بھی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ اسی طرح امریکی ڈالر کے مقابلہ ایرانی کرنسی نے 20 ہزار ریال تک کی مضبوطی درج کی گئی ہے۔ اگر اس کو بہتر مستقبل کا اشارہ مانا جائے تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اقتصادی پابندیاں ہٹوا پانے کی صورت میں ایران کی وہ ثروت واپس آ پائے گی جو بیرون ملک میںمنجمد ہے اور ایران اپنا خام پٹرول فروخت کرپائے گا جو عالمی پابندیوں کی وجہ سے بری طرح متاثر ہے اور تقریبا زیرو کی سطح تک پہنچ ہوچکا ہے۔ اس وقت جہاں ایک طرف ایران کو تیل اور گیس کے سیکٹر میں انوسٹمنٹ کی سخت ضرورت ہے وہیں دوسری طرف فضائی خطوط کو زندہ کرنا بھی سخت ناگزیر ہے۔ موخر الذکر سیکٹر امریکی پابندیوں کی وجہ سے بالکل آخری سانسیں لے رہا ہے۔ اگر پزشکیان اپنے دور صدارت میں ان مسائل کو کامیابی کے ساتھ حل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ان کی قیادت ہر اعتبار سے تاریخی ثابت ہوگی۔ اگر ایسا نہیں ہوپاتا ہے تو ایران کے داخلی اور خارجی مسائل جوں کے توں برقرار رہیں گے اور اس کا اثر پورے خطہ پر منفی ہی رہے گا۔ lmq
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں