عبدالماجد نظامی
یوپی کے بہرائچ ضلع میں واقع مہراج گنج کی مہسی تحصیل میں درگا پوجا کے موقع پر ہندو کمیونٹی کی جانب سے نکالے گئے جلوس اور اس کے مابعد رونما ہونے والے واقعات ملک کے میڈیا میں سرخیاں اب تک حاصل کر رہے ہیں۔ اس مسئلہ پر مسلسل رپورٹنگ اور گفتگو اس لیے چل رہی ہے کیونکہ اس موقع پر ایک شخص کی جان چلی گئی۔ مرنے والے انسان کا تعلق اکثریتی طبقہ سے ہے جبکہ مبینہ طور پر اس کے لیے ملزم اقلیتی طبقہ کے ایک شخص کو مانا جارہا ہے۔ اگر ہم ایک نارمل جمہوری نظام کے تحت جی رہے ہوتے تو اس صورتحال کی تصویر مذہب کی بنیاد پر نہیں کھینچی جاتی کیونکہ جمہوریت میں سب کے حقوق و واجبات یکساں ہوتے ہیں۔ لیکن یہ ہندوستانی جمہوریت کے لیے افسوس کا پہلو ہے کہ یہاں جب تک دھرم اور ذات کے حوالہ سے بات نہیں کی جائے تصویر نامکمل رہتی ہے۔
باوجودیکہ ہندوستان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہاں دنیا کے کئی مذاہب پیدا ہوئے ہیں اور تقریباً تمام دھرموں پر یقین رکھنے والے لوگ یہاں بستے بھی ہیں لیکن اس کے باوجود مذہب کا استعمال جوڑنے کے بجائے توڑنے کے لیے کیا جانے لگا ہے۔ اس میں نقصان ہمیشہ اقلیتی طبقات کا ہوتا ہے۔ ماضی میں لگاتار اکثریتی طبقہ نے مذہبی جلوسوں کا استعمال جس طرح سے کیا ہے، اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مذہب ان کی زندگی میں کوئی مثبت بدلاؤ پیدا کرنے کے بجائے اقلیتی طبقہ کے کسی ناکردہ گناہ کے خلاف انتقام کا ایک مؤثر ہتھیار بنتا جا رہا ہے۔ جلوس میں حصہ لینے والوں کا اصل مقصد بظاہر انہیں اپنی روحانی ضرورتوں کی تکمیل پیش نظر نہیں ہوتا ہے بلکہ بھڑکاؤ نعرے لگاکر اقلیتوں کی دل آزادی ہی مطمح نظر بن گیا ہے۔ کوئی ایک بھی مذہبی جلسہ و جلوس ایسا نہیں ہوتا جس میں ایک خاص طبقہ کو نشانہ بنانا، ان کے محلوں سے گزرتے ہوئے تیز آواز میں گانے بجانا اور رقص کرنا اور خاص طور سے مساجد کے سامنے رک کر وہاں غیر اخلاقی حرکتوں میں ملوث ہونا ان کا وطیرہ نہ بن گیا ہو۔
دنیا کے کسی مذہب نے آج تک اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم نہیں دی ہے کہ وہ ان لوگوں کی دل آزاری کریں یا ان کے مقدسات کو پامال کریں جو آپ کے دین و مذہب پر یقین نہیں رکھتے ہوں۔ ہندوازم میں بھی یہ تعلیمات بدرجۂ اتم موجود ہیں اور جو لوگ اس دھرم پر اپنی روحانی تربیت اور اخلاقی شائستگی کے لیے عمل پیرا ہوتے ہیں، ان میں یہ خصوصیات نمایاں طور پر نظر آتی ہیں۔ وہ نہ صرف یہ کہ دوسرے مذاہب کا احترام کرتے ہیں بلکہ اگر کوئی شخص کسی مذہب کی مقدس شخصیت یا کتاب و تعلیم کے بارے میں نازیبا حرکت یا کلمات کہتا ہے تو اس پر نکیر بھی کرتے ہیں۔ لیکن یہ افسوس کا مقام ہے کہ ہر مذہب میں کچھ ایسے عناصر پیدا ہوگئے ہیں جو اپنے دین و دھرم کی اصل تعلیمات سے دور ہوکر خالص ذاتی اغراض یا سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے ہی مذہب کا استعمال کرنے لگے ہیں۔ ہندوتو کی سیاست نے گزشتہ ایک دہائی میں جس شدت کے ساتھ مذہبی منافرت پھیلا کر سیاسی فائدہ حاصل کیا ہے، اس کے نتیجے میں اقلیتی طبقہ کو ایک خونخوار دشمن کے طور پر پیش کر دیا ہے۔
اس بیجا منافرت اور غیر اخلاقی سیاست کا اثر ملک بھر میں یہ ہوا ہے کہ مسلمان ہر وقت خوف و ہراس کے ماحول میں جینے پر مجبور ہیں۔ نہ ان کی جانیں محفوظ ہیں اور نہ ہی ان کی املاک و جائیداد کے تحفظ کی کوئی ضمانت دی جا سکتی ہے۔ ملک کے کونے کونے میں میڈیا، سوشل میڈیا اور تشدد پسند تنظیموں کی مدد سے ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے گویا مسلمان اس ملک کے شہری نہیں بلکہ کوئی مجرم ہوں جن کا وجود ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ ہو۔
ایسے افکار و نظریات کو شہ دینے کے لیے اعلیٰ سطح کے سیاسی قائدین اور مذہبی رہنماؤں کے غیر ذمہ دارانہ بیانات جاری ہوتے ہیں جن کی وجہ سے پولیس اور انتظامیہ کی وفاداری بھی دستور کے بجائے ان سیاسی و مذہبی آقاؤں کے ساتھ ہوجاتی ہے جو بنیادی طور پر ملک کی سالمیت اور داخلی سیکورٹی کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ بہرائچ میں جو کچھ ہوا وہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ مذہبی جلوسوں کی آڑ میں اقلیتی طبقہ کو نشانہ بنانے کا کھیل پوری سیاسی حمایت میں ایک طویل مدت سے جاری ہے اور اس پر قدغن لگانے کے بجائے مسلسل اس کی لو بڑھائی ہی جارہی ہے۔ اس کا منفی اثر یہ پڑ رہا ہے کہ ہر محلہ و گاؤں اور قصبہ و شہر ایک اکھاڑہ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ جب کوئی مذہبی تہوار سامنے آتا ہے تو اقلیتی طبقہ کے لوگ سب یہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ کسی طرح یہ تہوار امن و سلامتی کے ساتھ گزر جائے۔
لیکن ظاہر ہے کہ وہ عناصر بھلا کیسے خاموش رہ سکتے ہیں جنہوں نے اپنے سیاسی آقاؤں کے اشارہ پر مذہبی جلوسوں کے نام پر سیاسی شعبدہ بازی کا سارا کھیل رچا ہوتا ہے۔ بہرائچ میں جس شخص کی موت مبینہ طور پر گولی لگنے سے ہوئی ہے، اس کے اعزہ و اقرباء کے ساتھ پوری ہمدردی کا اظہار ہوناچاہیے لیکن ایسے والدین پر کیا یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ وہ اپنے بچوں کو مذہب کے نام پر آتش و قتل کے خونیں کھیل کا حصہ بننے سے روکیں اور دھرم و مذہب کی تعلیم انہیں ایسے ماہرین سے دلوائیں جو دھرم کی مقدس کتابوں کا نہ صرف صحیح علم رکھتے ہوں بلکہ وہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں بھی ایک مثالی کردار کا جیتا جاگتا ثبوت ہوں۔
جب تک ایسا نہیں کیا جائے گا تب تک مذہب کی آدھی ادھوری سمجھ رکھنے والے لوگ ہی دھرم پر قابض رہیں گے اور ملک و سماج کو اپنے مسموم افکار سے بانٹتے رہیں گے۔ سیاسی رہنماؤں اور پولیس انتظامیہ کی سب سے زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے محدود مفادات کی خاطر سماج کے طبقات کو بانٹنا بند کریں۔ ان کا کام یہ ہے کہ نظم و انتظام کو ایسا چست اور درست رکھیں کہ سماج کے اوباش عناصر کو اپنا منصوبہ نافذ کرنے کا موقع نہ ملے۔ اگر ایسے واقعات رونما ہو بھی جاتے ہیں تو پوری ایمان داری اور دستوری اصول و اخلاقیات کا دھیان رکھتے ہوئے معاملہ کی چھان بین کریں تاکہ کوئی معصوم ناانصافی کا شکار ہوکر پسِ زنداں رہنے پر مجبور نہ ہو۔
کیونکہ ایسا جب بھی ہوتا ہے اس سے مزید سماجی عدم استحکام کا ماحول تیار ہوتا ہے اور ملکی مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس بات کا بھی خاص خیال رکھنا ضروری ہے کہ اقلیتی طبقوں کو بیجا مظالم کا شکار بناکر ان کے گھر بار کو منہدم نہ کیا جائے اور ان کے معاش کے ذرائع کو تباہ نہ کیا جائے۔ ان دوہرے مظالم کی وجہ سے نہ جانے کتنی ہنستی کھیلتی زندگیاں تباہ ہوجاتی ہیں جس سے ملک کی جمہوری قدروں پر بٹہ لگتا ہے اور عدلیہ و پولیس کی کارکردگی پر سے بھروسہ اٹھ جاتا ہے۔ ایسا ہونا کسی بھی ملک اور سماج کے لیے باعث شرم ہوتا ہے۔ ہر حال میں ایسے نتائج سے بچنے کا انتظام کیا جانا ضروری ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]