انصاف سستا اور قابل رسائی کیسے ہو ؟

0

ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک

مشہور برطانوی مفکر جان اسٹوارٹ مل نے لکھا تھا کہ دیر سے کیا گیا انصاف تو ناانصافی ہی ہے۔ ہمارے ملک میں آج بھی انگریزوں کا نافذ کیا گیا نظام عدل جاری ہے۔ آزادی کے 75 سال مکمل ہونے جا رہے ہیں لیکن ہندوستان میں ایک بھی ایسا وزیر اعظم پیدا نہیں ہوا، جو دنیا کے قدیم ترین نظام عدل جو کہ ہندوستانی ہی ہے کو نافذ کرنے کی کوشش کرتا۔ اس کا نتیجہ بدہے کہ آج ہندوستان کی عدالتوں میں تقریباً 5کروڑ مقدمات زیر التوا ہیں۔ جو انصاف چند ہی دنوں میں مل جانا چاہیے، اسے ملنے میں 30-30 اور 40-40سال لگ جاتے ہیں۔ کئی معاملوں میں تو جج، وکیل اور مدعی – سب مر جاتے ہیں۔ کئی لوگ برسہا برس جیل میں سڑتے رہتے ہیں اور جب ان کا فیصلہ آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بے گناہ تھے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ایسا اس لئے بھی ہوتا ہے کہ بے چارے جج کیا کریں؟ ایک ہی دن میں وہ کتنے مقدمے سنیں؟ ملک کی عدالتوں میں ابھی ساڑھے پانچ ہزارعہدے خالی پڑے ہیں۔ 400 سے زائد آسامیاں تو صرف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں ہی خالی ہیں۔ موجودہ حکومت نے ان آسامیوں کو پر کرنے میں کچھ مستعدی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن ضروری یہ ہے کہ وہ پتوں پر پانی چھڑکنے کے بجائے جڑوں میں موجود کیڑوں کا علاج کرے۔ لاء کمیشن کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں ابھی تقریباً 20 ہزار جج ہیں۔ ان کی تعداد 2 لاکھ ہونی چاہیے۔ اتنے ججوں کی ضرورت ہی نہیں ہوگی، اگرلا کمیشن کی فکر ٹھیک ہوجائے تو۔ اسے پتہ ہی نہیں ہے کہ ہمارا پورا عدالتی نظام آنکھ بند کر کے چل رہا ہے۔ اگر ہندوستان کی عدالتیں ہندوستانی زبانوں میں بحث اور فیصلے کرنے لگیں تو فیصلے بھی بہت جلد ہوں گے اور 20-30 ہزار جج ہی ہندوستان کے لئے کافی ہوں گے۔ ہندوستان میں 18 لاکھ وکیل ہیں۔ وہ کم نہیں پڑیں گے۔ اگر عدالتوں میں ہندوستانی زبانیں چلیں گی تو مؤکلوںکو بحث اور فیصلوں کو سمجھنا بھی آسان ہوگا اور ان کی دھوکہ دہی بھی کم ہوگی۔ لیکن یہ انقلابی تبدیلی لانے کی ہمت کون کر سکتا ہے؟ وہی لیڈر کر سکتا ہے جو احساس کمتری کا شکار نہ ہو اور جس کے پاس ہندوستان کو سپر پاور بنانے کا وژن ہو۔ اگر آزاد ہندوستان میں ہمارے پاس ایسے کوئی بڑے لیڈر ہوتے تو ہندوستان کا عدالتی نظام کب کا سدھر جاتا۔ لیکن ہمارے زیادہ تر لیڈر تو بیوروکریٹس کی غلامی کرتے ہیں۔ یہ غلامی خفیہ اور غیر مرئی ہے۔ عوام کو یہ بات آسانی سے معلوم نہیں ہوتی۔ لیڈروں کو بھی یہ فطری معلوم ہوتا ہے۔ اگر وہ بھی یہ سمجھ جاتے تو کیا ہندوستان کی پارلیمنٹ اب بھی اپنے بنیادی قوانین انگریزی میں بناتی رہتی؟ جو ممالک انگریزوں کے غلام نہیں رہے اگر آپ ان پر نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ اپنے قانون اپنی زبان میں ہی بناتے ہیں۔ اسی لیے ان کے عوام کو فراہم کیا جانے والا انصاف سستا، قابل رسائی اور فوری ہوتا ہے۔ نہ جانے ہندوستان میں وہ دن کب آئے گا؟
(مضمون نگار ممتاز صحافی، سیاسی تجزیہ کاراور
افغان امور کے ماہر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS