اپوزیشن سے پاک ایوان اورحکومت

0

ملک کا جمہوری پارلیمانی نظام ایک ایسے دور میں داخل ہوچکا ہے جس کا تصور بھی ہمارے آئین سازوں نے نہیں کیاتھا۔ یہ کبھی سوچا نہیں گیا ہوگا کہ ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب حکمراں ٹولہ ایوان کو حزب اختلاف سے خالی کراکر اپنی مرضی کے مطابق قانون پاس کروائے گا۔ہندوستان کی جمہوری تاریخ میں ہوئے اس شرمناک واقعہ پر اظہار افسو س و ندامت کے بجائے حکمراں ٹولہ انتہائی بے شرمی اور دیدہ دلیری کے ساتھ یہ بھی کہے گا کہ حزب اختلاف سے خالی کرائی گئی سیٹیں اگلے انتخاب میں ہم اپنے لوگوں سے بھر لیں گے ۔ یہ ہوا ہے، اسی ہندوستان میں ہوا ہے جہاں کی جمہوریت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا فخر حاصل ہے۔
نامساعد حالات کے باوجود اسلاف کی تعمیر کی گئی جمہوری تہذیب و روایت کو منہدم کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے رواں سرمائی اجلاس میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے 146 ممبران پارلیمنٹ کو مکمل طور پر غیر ضروری اور متضاد طریقے سے معطل کیاگیا ۔عملاًایوان کو حزب اختلاف سے خالی کرانے کے بعد حکومت نے یکے بعد دیگرے درجن بھر بل پاس کرائے۔ان میں سے زیادہ تر بل ایسے تھے جن کی مختلف شقوں پر حزب اختلاف پہلے ہی شدید اعتراض کرچکا تھاجس کے بعد یہ بل نظرثانی کیلئے پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی کو بھی بھیجے گئے تھے ۔ وہاں سے معمولی ترمیم کے بعد انہیں واپس لاکر ایوان میں پیش کیا اور معترض حزب اختلاف کی غیر موجودگی میں اسے پاس کروا لیا گیا۔ ان بلوں میں تعزیرات ہند کی جگہ لینے والے متنازع بھارتیہ نیائے سنہتا بل2023، بھارتیہ شہری تحفظ سنہتا بل 2023 اوربھارتیہ ساکشیہ بل 2023تو شامل ہیں ہی،ان کے ساتھ ساتھ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی حکومت (ترمیمی) بل 2023، پوسٹ آفس بل 2023، اخراجات سے متعلق(نمبر 3)بل2023، اخراجات سے متعلق(نمبر4)بل2023، قومی دارالحکومت علاقہ دہلی قوانین(خصوصی دفعات)دوسرا (ترمیمی) بل2023، مرکزی سازوسامان اور خدمات ٹیکس(دوسری ترمیم)بل 2023، ٹیکسوں کی وصولی سے متعلق عبوری بل2023، ٹیلی مواصلات سے متعلق بل2023، پریس اینڈ رجسٹریشن آف پیریڈیکل بل2023 اور چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنرز (تقرری، سروس کی شرائط اور عہدے کی مدت)بل 2023شامل ہیں۔
مجموعی طور پر راجیہ سبھا اور لوک سبھا دونوں کے 146 ممبران پارلیمنٹ کو معطل کیا جا چکا ہے۔ حکمراں ٹولہ نے انہیں پارلیمانی کارروائی میں خلل ڈالنے، ہنگامہ آرائی کرنے اور قواعد کی خلاف ورزی کے جرم کا مرتکب پایا اور صدر نشیں کے حکم پر انہیں ایوان بدر کر دیا گیا۔ حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ یہ کارروائی عین قانون کے مطابق کی گئی ہے، اس میں کوئی تعصب اور امتیاز نہیں ہے ۔لیکن حقیقت کیا ہے یہ پورے ملک کو معلوم ہے۔ پارلیمنٹ کی سیکورٹی کو انگوٹھا دکھاتے ہوئے چار نوجوان دراندازی کرتے ہیں، دھوئیں کا بم پھینکتے ہیں ۔اس سنگین واقعہ پر حکومت چاہتی ہے کہ نہ کوئی احتساب ہو اور نہ وزیر داخلہ کو بیان دیناپڑے ۔لیکن یہ سنگین صورتحال ایسی نہیں ہے کہ پوراملک شیرمادر کی طرح ہضم کرلے ۔یہ حزب اختلاف کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت سے سوال کرے، سوال کا جواب نہ ملے تو احتجاج کرے ۔اس احتجاج کو ہنگامہ آرائی اور بدنظمی بتاکر ارکان کی اجتماعی معطلی غیر جمہوری، غیر پارلیمانی اور کسی بھی مہذب معاشرہ کیلئے باعث شرم ہے ۔اگر ایوان میں حزب اختلاف حکمرانوں سے سوال نہ کرکے، ان کے ہر قول و فعل پر آمنا و صدقنا کہے تو پھر یہ جمہوریت نہیں بلکہ آمریت کہلاتی ہے۔
جمہوری نظام حکومت میں ایسی آمریت اور مطلق العنانی کی اس سے بدترین مثال اب تک کسی نے نہیں دیکھی تھی۔ ایوان کواجتماعی طورپر حزب اختلاف سے پورے اجلاس کیلئے خالی کرا لیا جانا انتہائی غیرمعمولی واقعہ ہی نہیں بلکہ یہ کھلی آمریت اور مطلق العنانی ہے، اس سے اس الزام کو بھی تقویت ملتی ہے کہ حکومت پارلیمنٹ کو اپوزیشن سے پاک دیکھنا چاہتی ہے ۔ ہندوستانی جمہوریت کی یہ نئی پستی حکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی کے اس خواب کی تعبیرہے جو وہ پہلے دن سے دیکھ رہی ہے ۔نریندر مودی جب پہلی بار اقتدار میں آئے تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ کانگریس سے پاک ہندوستان چاہتے ہیں۔ ان کی قیادت میں دس برسوں کے دوران آج ملک ایک ایسے موڑ پر پہنچ گیاہے، جہاں سے اب وہ مکمل طور پر اپوزیشن سے پاک سیاسی میدان کا خواب بھی دیکھنے لگے ہیں۔ اپوزیشن سے پاک ایوان میں درجن بھر سے زیادہ بل پاس کراکر قانون بنانے کا یہ عمل اس خواب کی تعبیر کی سمت ایک اور قدم کہاجاسکتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS