سروج کمار مشر
وبا کی پہلی لہر سے بے پٹری ہوئی معیشت ابھی پٹری پر لوٹنا شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ دوسری لہر قہر برپانے لگی۔ اس مرتبہ کی لہر کہیں زیادہ وسیع اور تیز ہے۔ روزانہ انفیکشن کے معاملہ ساڑھے تین لاکھ کے پار نکل گئے ہیں اور مرنے والوں کے روزانہ کے اعدادوشمار بھی 3ہزار کے نزدیک پہنچ چکے ہیں۔ ایسے میں انفیکشن سے نمٹنے کے لیے حکومتوں کو فی الحال لاک ڈاؤن جیسی ہی سخت پابندیوں کے علاوہ کوئی متبادل نظر آبھی نہیں رہا۔ اس لیے زیادہ تر ریاستوں نے پھر سے سخت پابندیاں اور جزوی لاک ڈاؤن جیسے طریقوں کا سہارا لینا شروع کردیا ہے۔ کہنے کو فی الحال کاروبار اور صنعتی سرگرمیوں کو اس سختی سے الگ رکھا گیا ہے۔ لیکن جب وسیع پیمانہ پر لوگوں کی آمدورفت پر ہی پابندی لگ جائے گی تو معیشت اس سے کیسے مبرا رہ سکتی ہے!بھلے اس مرتبہ معاشی سرگرمیاں قائم رکھنے کی ہر ممکن کوششوںکے دعوے ہورہے ہوں، لیکن سخت پابندیوں کے سبب معیشت کے کئی شعبہ خاص طور سے غیررسمی شعبہ بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ معیشت پر کیا اور کتنا اثر ہونا ہے، اس کا اندازہ لگانے کے لیے ہمارے پاس تجربہ اور اعدادوشمار دستیاب ہیں۔
ماہرین معیشت کا ماننا ہے کہ موجودہ مالیاتی سال کی دوسری سہ ماہی تک معیشت میں گراوٹ رہے گی۔ لیکن کورونا کی دوسری لہر گزرنے کے بعد تیسری سہ ماہی میں ڈیمانڈ میں اضافہ ہوگا۔ جون کے بعد ٹیکہ کاری کی تیز رفتار بھی دو نمبروں کی شرح حاصل کرنے میں مددگار ہوگی۔ لیکن دو نمبروں کی شرح نمو کے لیے ٹیکہ کاری ایک بڑی شرط ہے۔
دو ماہ سے زیادہ کے لاک ڈاؤن کے سبب مالیاتی سال 2020-21میں ہندوستان کی معیشت کھائی میں چلی گئی تھی۔ تب پہلی سہ ماہی میں شرح نمو صفر سے 24.4فیصد اور دوسری سہ ماہی میں صفر سے 7.50فیصد نیچے درج کی گئی تھی۔آہستہ آہستہ معاشی سرگرمیاں بحال ہونے کے بعد تیسری سہ ماہی میں شرح نمو صفر سے اوپر(0.5فیصد) آئی اور چوتھی سہ ماہی میں اس کے اور اوپر اٹھنے کا تخمینہ ہے۔ اس کے اعدادوشمار ابھی آنے ہیں۔ وبا کی دوسری لہر کو قابو کرنے کے لیے ملک گیر لاک ڈاؤن تو نافذ نہیں ہے، لیکن مختلف ریاستوں میں نافذ سخت پابندیوں اور انفیکشن کے خوف کے سبب جو ماحول بن گیا ہے، اس سے معاشی سرگرمیوں کے دروازے پھر بند ہونے لگے ہیں۔ ہوابازی، آٹوموبائل، سیاحت، مال، سپا، ہوٹل، ریہڑی پٹری جیسے چھوٹے بڑے شعبوں کے کاروبار ایک مرتبہ پھر سے ٹھپ ہونے کے دہانے پر ہیں۔ گھریلو ہوائی مسافروں کی تعداد میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ وزارت شہری ہوابازی کے اعدادوشمار کے مطابق 20اپریل کو 1,55,207مسافروں نے گھریلو اڑانوں میں سفر کیا۔ اس کے پہلے 19اپریل کو یہ اعدادوشمار 1,69,971 مسافروں کا تھا اور 17اپریل کو گھریلو ہوائی مسافروں کی تعداد 1,82,189تھی۔ جب کہ فروری کے آخر میں گھریلو ہوائی مسافروں کی ایک دن کی تعداد 3,13,000تھی جو گزشتہ مئی میں اڑانوں کی بحالی کے بعد مسافروں کی سب سے زیادہ تعداد تھی۔
وبا کی دوسری لہر کا آٹو انڈسٹری پر بہت برا اثر پڑا ہے۔ کئی کارخانوں میں پروڈکشن ایک مرتبہ پھر ٹھہر سا گیا ہے۔ ملک میں بننے والی کل گاڑیوں کا ایک چوتھائی حصہ اکیلے مہاراشٹر میں بنتا ہے، لیکن وہاں ان دنوں سخت پابندیاں عائد ہیں اور کارخانہ عام دنوں کے مقابلہ میں 50-60فیصد صلاحیت کے ساتھ ہی چل رہے ہیں۔ اس سے 100سے 125کروڑ روزانہ کا نقصان ہورہا ہے۔ مریضوں کے لیے آکسیجن کی زبردست ڈیمانڈ کے سبب اسٹیل پلانٹس کو ہونے والی سپلائی اسپتالوں کی جانب موڑ دی گئی ہے۔ اس سبب اسٹیل کارخانوں میں بھی پیداوار بند ہوگئی ہے۔
پابندیوں کے سبب غیرمنظم شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) کے تازہ اعدادوشمار کے مطابق ہندوستان کی 90.7فیصد افرادی قوت غیرمنظم شعبہ میں کام کرتی ہے، لہٰذا اس شعبہ کے متاثر ہونے سے بڑی تعداد میں لوگوں کے بے روزگار ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اسی طرح شہروں اور میٹرو سٹیز میں خریداروں کے بڑے ٹھکانوں کے بھی برے دن لوٹ آئے ہیں۔ پورے ملک میں مال کاروبار 90فیصد تک لوٹ آیا تھا، لیکن وبا کی دوسری لہر کے سبب اپریل میں اس سیکٹر کے کاروبار پر پھر سے گرہن لگ گیا۔ ہر ماہ 15ہزار کروڑ روپے کی کمائی کرنے والے اس سیکٹر کی کمائی مقامی پابندیوں کے سبب کم ہوکر آدھی بھی نہیں رہ گئی ہے۔ معیشت کی غیریقینی صورت حال کے سبب صارفین کا اعتماد بھی متزلزل ہے۔ ریفینیٹو- اپساس کے ماہانہ پرائمری کنزیومر سینٹی مینٹ انڈیکس (پی سی ایس آئی) کے مطابق، صارفین کے اعتماد میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران 1.1فیصد کی کمی آئی ہے۔ صارفین کے جذبہ میں کمی سے ڈیمانڈ کم ہوتی ہے اور ڈیمانڈ کم ہونے سے پروڈکشن متاثر ہوتا ہے اور بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ گوگل موبلیٹی ڈیٹا کے مطابق ریٹیل اور تفریحی سرگرمیوں میں 7اپریل تک ہی 24اپریل کے مقابلہ میں 25فیصد کی کمی آچکی تھی۔ جب کہ اس وقت ریاستوں میں پابندیاں نافذ نہیں ہوئی تھیں۔ آج مہاراشٹر، گجرات اور دہلی سمیت کئی ریاستوں میں سخت پابندیاں عائد ہیں۔ اس وجہ سے ضروری خدمات کو چھوڑ کر باقی سرگرمیاں بند ہیں۔ توجہ دینے والی بات یہ ہے کہ اکیلے مہاراشٹر اور گجرات مل کر ملک کی جی ڈی پی میں 22سے 25فیصد کا تعاون کرتے ہیں۔ ان دونوں ریاستوں میں معاشی سرگرمیوں میں رخنہ ہونے سے ملک کی معیشت کو ہونے والے نقصان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔معیشت کی صحت ناپنے کا سٹیک پیمانہ بے روزگاری کی شرح ہوتی ہے۔ سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی(سی ایف آئی ای) کے اعدادوشمار کے مطابق 23 اپریل کو ملک کی بے روزگاری کی شرح 7.74 فیصد ہوگئی، جو مارچ میں 6.52فیصد تھی۔ اپریل میں بے روزگاری کی شرح میں مسلسل اضافہ کا رجحان برقرار ہے اور ماہ کے آخر تک یہ 8فیصد سے اوپر جاسکتی ہے۔ یعنی تب ہم اگست 2020کی حالت میں پہنچ جائیں گے، جب بے روزگاری کی شرح8.35فیصد تھی۔ اس کے بعد کے مہینوں میں دسمبر(9.06فیصد) کو چھوڑ کر یہ 6سے 7فیصد کے درمیان قائم رہی۔ یعنی ہم نے اگست سے مارچ تک 8مہینوں میں جو حاصل کیا تھا، وہ ایک ماہ کے دوران ہاتھ سے نکل چکا ہے۔
ریٹنگ ایجنسیوں اور بروکیج کمپنیوں نے شرح نمو کے اپنے اندازے کم کرلیے ہیں۔ موڈیز نے ہندوستانی معیشت کے سامنے نگیٹو ساکھ کے خطرہ کا خدشہ ظاہر کیا ہے، یعنی معاشی سرگرمیاں سست ہونے سے لین دار نہ قرض لینے کی حالت میں رہیں گے اور نہ ادا کرنے کی حالت میں۔ علامات واضح ہیں، کیوں کہ بینکنگ نظام میں اضافی رقم بڑھتی جارہی ہے۔ بینکوں کے ذریعہ ریزرو بینک(آر بی آئی) میں جمع جو رقم31مارچ کو 38کھرب روپے تھی، وہ 18اپریل تک بڑھ کر 55.5کھرب روپے ہوگئی۔ یعنی بینکوں کے ذریعہ قرض دینے یا لین داروں کے ذریعہ قرض لینے کی رفتار میں غیرمتوقع کمی آئی ہے۔ موڈیز نے کہا ہے کہ اگر انفیکشن کی حالت کنٹرول نہیں ہوپائی تو مالی سال 2021-22میں 13.7فیصد شرح نمو کے اس کے اندازہ کو حاصل کرپانا ہندوستان کے لیے مشکل ہوسکتا ہے۔ حالاں کہ ایجنسی کا اندازہ ابھی بھی دو نمبروں کی شرح نمو کا ہے۔ فچ نے بھی اپنی شرح نمو کو کم کردیا ہے۔ نومورا، جے پی مورگن، یو بی ایس اور سٹی ریسرچ جیسی بروکریج کمپنیوں نے بھی ہندوستان کے لیے اپنی شرح نموکے اندازے کم کردیے ہیں۔ لیکن دو نمبروں کی شرح پر سبھی متفق ہیں۔ ماہرین معیشت کا ماننا ہے کہ موجودہ مالیاتی سال کی دوسری سہ ماہی تک معیشت میں گراوٹ رہے گی۔ لیکن کورونا کی دوسری لہر گزرنے کے بعد تیسری سہ ماہی میں ڈیمانڈ میں اضافہ ہوگا۔ جون کے بعد ٹیکہ کاری کی تیز رفتار بھی دو نمبروں کی شرح حاصل کرنے میں مددگار ہوگی۔ لیکن دو نمبروں کی شرح نمو کے لیے ٹیکہ کاری ایک بڑی شرط ہے۔ اگست تک 30کروڑ اور دسمبر تک 50کروڑ لوگوں کو ٹیکہ لگانے کا ہدف ہے۔ لیکن ٹیکہ کاری کی موجودہ رفتار مایوس کن ہے۔ 11اپریل تک ٹیکہ کاری کی شرح محض 36لاکھ روزانہ ہے۔ جب کہ یہ ٹیکہ لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لیے جتنا ضروری ہے، معیشت بچانے کے لیے بھی اتنا ہی ضروری ہے۔
(بشکریہ: جن ستّا)