نئی حکومت سے محتاط حکمرانی کی امید : خواجہ عبدالمنتقم

0

خواجہ عبدالمنتقم

لیجیے 4 جون کا دن آ ہی گیا اورعام انتخابات کے نتائج کا اعلان بھی ہو گیا اور چند دن بعد نئی حکومت قائم ہو جائے گی۔ جمہوری نظام حکومت میں انتخابات کا انعقاد ایک مسابقانہ عمل و روایت ہے نہ کہ رقیبانہ یا حریفانہ فعل اور یہ ملک کے بہتر انتظام و انصرام یعنی گڈ گورننس کے اصولوں میں سے ایک بنیاد ی اصول بھی ہے۔ یہ ایک ایسا موقع ہوتا ہے جب عوام ایک منظم انداز میں اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے چہار طرفہ ماحول کے مدنظراپنے نمائندوں کا حسب دلخواہ انتخاب کرتے ہیں۔ کسی بھی عام مقابلہ جاتی کھیل کی طرح انتخابات میں بھی بادی النظر میں ایک فریق کی جیت ہوتی ہے تو دوسرے فریق کی ہار جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ نہ کسی کی ہار ہے اور نہ کسی کی جیت، یہ تو ایک جمہوری عمل ہے اور اقتدار میں آنے والی نئی حکومت کا امتحان اور بہتر کار کردگی واعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرنے کا موقع نہ کہ فریق ثانی پر چھینٹا کشی،طعنہ زنی،طنز آمیزی یا انتقامی کارروائی کا موقع۔کسی بھی جمہوری نظام میں جیت کے بعد اپنی ناپسندیدہ شخصیات کو بھی پسندیدہ بنا لینا اعلیٰ ظرفی ہے اور ان سے دوری یا ان کا لحاظ نہ کرنا تکبر۔ بقول خواجہ حیدر علی آتش ؔ:
جو اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں
صراحی سرنگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ

اب وقت ہے گڈگورننس کا، ملک کے قرضہ جات میں کمی لانے کا،ترقیاتی منصوبوں کو آگے بڑھانے کا، Gross Domestic Product(GDP )یعنی مجموعی گھریلو پیداوار میںاضافے کے لیے کوشاں ہونے کا،خط افلاس کے عالمی انڈیکس میں بہتر درجہ بندی کا، سب کو بر وقت سرکاری خدمات کی دستیابی کا، الیکشن کے دوران کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کا، سماجی، اقتصادی و ماحولیاتی پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے مجموعی ترقی میں عوام کی شرکت اور پائیدار ترقی (sustainable development) کا، اقلیتوں سے متعلق فلاحی اسکیموں جیسے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے متعلق مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ اسکیم و دیگر وظائف کی بحالی کا، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان(این سی پی یو ایل) کی زیر موقوفی اسکیموں کی بحالی اور ان پر عمل درآمدگی کا،سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹوں کو عملی جامہ پہنانے کا، وقف جائیدادوں پر ناجائز قبضہ ہٹانے اور ان کی بازیابی کا، تمام عبادت گاہوں کی حفاظت کے لیے 1991 کے عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق قانون پر ایمانداری سے اس طرح عمل کرنے کا جس سے کسی فریق کے جذبات بر انگیختہ نہ ہوں،باقی اقتصادی، سماجی و قانونی معاملات میں جیسے ریزرویشن، عدلیہ کا احترام، سوشل میڈیا پر نظر رکھنے کا، نفرت آمیز تقاریر اور غیر شائستہ و غیر پارلیمانی زبان استعمال نہ کرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے طے کردہ خطوط پر ایماندارانہ عمل درآمد کرنے کا،فسادات کو روکنے سے متعلق قانون بنانے کا،، صاف پانی کی فرا ہمی اور ماحولیاتی تحفظ دستیاب کرانے کا،بے روزگاری جیسے مسائل حل کرنے کا۔اس وقت گلوبل وارمنگ اور شدید آفات پر قابو پانا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اب گلوبل وارمنگ جغرافیائی دہشت گردی کی شکل اختیار کرچکی ہے۔گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجۂ حرارت میں شدید اضافہ آج پوری دنیا کے لیے ایک باعث تشویش امر ہے جس کے نتائج ہم سب بھی شدید گرمی کی شکل میں بھگت رہے ہیں اور اگر عالمی درجۂ حرارت کو 2سینٹی گریڈ سے نیچے نہیں رکھا گیا تو نہایت خطرناک ماحولیاتی تبدیلیاں وجود میں آسکتی ہیں اور دنیا کے بہت سے ممالک کو مختلف قسم کے خطرات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

مزید یہ کہ اب وقت ہے کہ سب کو مل جل کر ملک کی تعمیر نو میں حصہ لینے کا، حال و مستقبل کے تقاضوں کو پورا کرنے کی نیت سے کسی اثر و رسوخ کے بغیر میلان طبع یا جانبدارانہ فکر و عمل سے پہلوتہی کرتے ہوئے اور ایسی عوام دوست پالیسی اورقوانین بنانے کا جن پرعمل درآمدگی کے بعد پچھتانا نہ پڑے، طویل مدتی قانونی کارروائی کے بعد مجرمین کے بے گناہ ثابت ہونے پر معقول معاوضہ دینے کا، اقلیتی طبقات کے دل و دماغ سے احساس محرومی دور کرنے کا، انتخابی تشہیر کے دوران مختلف مذاہب کے عقائد، ر سم و رواج، دیوتاؤں کی شان میں گستاخی، ثقافتی اقدار، آبادی، کھان پان، نظام تعلیم و طرز تعلیم کی بابت تکلیف دہ تبصرہ و غیر شائستہ زبان کے استعمال پر قدغن لگانے کا، پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات قائم کرنے و برقرار رکھنے کا، دیگر ممالک کو ہمارے اندرونی معاملات میں دخل اندازی سے رو کنے اور یہ کوشش کرنے کا کہ ملک میں ایسے حالات نہ پیدا ہوں کہ انہیں ہمارے داخلی معاملات میں دخل دینے کا موقع ملے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب نئی حکومت کے آئینی عہدیداران،خواہ ان کا تعلق فی الحال کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو، اپنا عہدہ سنبھالتے وقت جو انہوں نے حلف لیا ہے، اس کی پاسداری کریں اور ملک کے عوام کی خدمت اور فلاح و بہبود کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیں اور حتی المقدور آئین اورقوانین کو برقرار رکھیں۔

باقی اقتصادی، سماجی و قانونی معاملات میں جیسے ریزرویشن، عدلیہ کا احترام، سوشل میڈیا پر نظر رکھنا، نفرت آمیز تقاریر اور غیر شائستہ و غیر پارلیمانی زبان استعمال نہ کرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے طے کردہ خطوط پر ایماندارانہ عمل درآمد،فسادات کو روکنے سے متعلق قانون، اقلیتوں کو دی جانے والی سہولیات کی بحالی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی،قومی اقلیتی کمیشن کو آئینی درجہ دینے اور اقلیتی تعلیمی اداروں کے قومی کمیشن کو مزید فعال بنانے، نئی قومی تعلیمی پالیسی، مدارس و دیگر اقلیتی و عوام دوست امور وغیرہ کی بابت مثبت و بر وقت فیصلے لینے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ سماج کا ہر طبقہ مطمئن رہے۔ سب سے اہم ضرورت ہے ذاتی مفادات کے مقابلے میں قومی مفادات کو ترجیح دینے کی اور قانون کی حکمرانی پر آنچ نہ آنے دینے کی۔ایک کافی پرانے معاملے لکشمی نارائن گپتا بنام کلکٹرشیوپور(اے آئی آر56 19مدھیہ بھارت 163) میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ قانون کی پیروی و اتباع انفرادی و اجتماعی طور پر ہر شخص پر لازم ہے خواہ وہ شہری ہو یا حکومت۔ سپریم کورٹ نے کتنے ہی فیصلوں میں قانون کی بالادستی کے اصول کو بھارت کے آئین کے بنیادی ڈھانچے کا ایک حصہ مانا ہے۔ بچن سنگھ بنام ریاست پنجاب والے معاملے(اے آئی آر 1982 ایس سی 1325) میں سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ قانون کی بالادستی میں من مانے ڈھنگ سے کام کرنے کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کوئی بھی حکومت جو ان نظائر اور قانون کی بالادستی میں یقین رکھتی ہے،اس پر عمل کرتی ہے اور کسی بھی طرح کی جانبداری سے کام نہیں لیتی تو اسے کوئی بھی اقتدار سے محروم نہیں کر سکتا لیکن 140 کروڑ آبادی والے ملک میں اتنی ایمانداری و دیانتداری سے حکومت چلانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔دراصل میدان سیاست دشت خار سے کم نہیں۔ سنا ہے کہ مجنوں کو بھی اتنا ہوش تھا کہ وہ بھی پیر رکھتا تھا مگر خارمغیلاں دیکھ کر۔

(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS