77واں یوم جمہوریہ مزید خوش تر ہونے کی امید: خواجہ عبدالمنتقم

0

خواجہ عبدالمنتقم

ہمیں ا ور تمام اہل وطن کو یہ قوی امید ہے کہ اگرچہ یہ سال بھی اس نقطۂ نظر سے خو ش ترہے کہ آج پریاگ راج میں خوشی خوشی مہا کمبھ منایا جا رہا ہے جسے نہ صرف ہمارے ملک کے لوگ بلکہ ہمارے حلیف اور حریف ممالک کیا بلکہ پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ سنگم میں بڑا پرسکون اور خوشی کا ماحول ہے اور ہر طرح کی سہولیات دستیاب ہیں۔اگر یہی ماحول برقرار رہا تو آئندہ سال تمام مذاہب کے تہوار اسی طرح منائے جائیں گے اور کسی کے ساتھ کوئی تعصب نہیں برتا جائے گا اور اگر بھارتیہ نیائے سنہتا کی مذہب سے متعلق مابعد محولہ دفعات پر ایمانداری سے عمل کیا گیا تو ملک کا ماحول خوش تر کیا مزید خو ش تر ہوجائے گا اور سرکار بھی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ملک میں اسی طرح کا ماحول قائم رہے اور سب کو ضرورت پڑنے پر اسی طرح کی سہولیات ملیں اور ملتی رہیں۔

آج چند لوگ، جن کا تعلق اکثریتی فرقے سے ہے اقلیتوں کے مذاہب کو اپنا دشمن سمجھنے لگے ہیں اور وہ مذہب اور قوم پرستی کے بیچ ایک حد فاصل کھینچ کر مختلف فرقوں کے درمیان کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ڈاکٹر طاہر محمود نے ویانا میں منعقد بین الا قوامی مسیحی و اسلامی گول مذاکرات کے دوران ہزارۂ نوکے اوائل میں مندوبین کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بات کہی تھی کہ مذہبی میلانات کے سبب اقلیتوں کے ساتھ امتیاز اور ناانصافی ایک مستقل نظام بن کر رہ گیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں یہ مثال بھی دی: ایک مسلم لڑکی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے ’’میرے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے جو خود کو برطانوی محسوس نہ کرتا ہو اور میرے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے جو مسلم محسوس نہ کرتا ہو۔میں ایک برطانوی مسلمان ہوں۔‘‘ لیکن اس کی بات کوئی نہیں سنتا۔جب ایک برطانوی مسلمان لڑکی ایسے جذبات کی حامل ہے تو بتائیے کہ کیا ہندوستانی مسلمان جو یہیں پیدا ہوا اور اسی ملک کی مٹی میں دفن ہوکر ابدی نیند سوگیا، اس کے ساتھ چند لوگوںکے تعصبانہ برتاؤ کا کوئی جواز ہے؟ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ اسی طرح سے ہندوستان کے عیسائی اور مسلمان چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں ’’ہمارے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے کہ جو عیسائی اور مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ ہندوستانی محسوس نہ کرتا ہو۔‘‘ سرسید احمد خاں نے1883 میں پٹنہ میں جو تقریر کی تھی، اس میں انہوں نے بھی یہ کہا تھا: ’’جس طرح ہندوؤں کی شریف قومیں اس ملک میں آئیں، اسی طرح ہم بھی اس ملک میں آئے۔۔۔ پس اب ہم دونوں ایک ہی ہوا میں سانس لیتے ہیں۔۔۔ مقدس گنگا جمنا کا پانی پیتے ہیں۔۔۔ایک ہی زمین کی پیداوار کھاتے و استعمال کرتے ہیں۔ مرنے جینے میںدونوں کا ساتھ ہے۔۔۔ یہاں تک کہ ہم دونوں آپس میں ملے کہ ہم دونوں نے مل کر ایک نئی زبان اردو پیدا کرلی جو نہ ہماری زبان تھی نہ ان کی۔۔۔ ہم دونوں کے اتفاق اور باہمی ہمدردی اور آپس کی محبت سے ملک کی اورہم دونوں کی ترقی وبہبود ممکن ہے اور آپس کے نفاق، ضد،عداوت اورایک دوسرے کی بدخواہی سے ہم دونوں برباد ہونے والے ہیں۔۔۔جو لوگ اس نکتے کو نہیں سمجھتے اور دونوں فرقوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے میں مصروف ہیں، وہ خود اپنے پاؤں پرکلہاڑی ماررہے ہیں۔

بھارتیہ نیائے سنہتا کی مذہب و قومی یک جہتی سے متعلق جرائم کی نسبت
دفعات کا متن

دفعہ298:-کسی طبقے کے مذہب کی بے عزتی کی نیت سے عبادت گاہ کو ضرر پہنچانا یا ناپاک کرنا۔ جو کوئی کسی عبادت گاہ یا کسی ایسی چیز کو جسے اشخاص کا کوئی طبقہ متبرک سمجھتا ہو، تباہ کرے، نقصان پہنچائے یا ناپاک کرے اس نیت سے کہ اس سے اشخاص کے کسی طبقے کے مذہب کی توہین ہو یا یہ جانتے ہوئے کہ اشخاص کے کسی طبقے میں سے ایسی بربادی، نقصان یا ناپاکی کو اپنے مذہب کی توہین سمجھے جانے کا امکان ہے، اسے دونوں میں سے کسی بھی قسم کی دوسال تک کی سزائے قید یا جرمانے کی سزا یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
مذہب یا مذہبی اعتقاد کی بے حرمتی کرکے کسی طبقے کے مذہبی جذبات کی توہین کی نیت سے عمداً اور بدنیتی سے کیے گئے افعال

299:-جو کوئی بھارت کے شہریوں کے کسی طبقے کے مذہبی جذبات کی بے حرمتی کی عمداً اور بدنیتی سے بذریعہ الفاظ خواہ کہے گئے یا تحریری یا اشاروں سے یا واضح اظہار سے یا الیکٹرانک ذرائع سے یا دیگر طور پر اس طبقے کے مذہب یا مذہبی اعتقاد کی بے حرمتی کرے یا بے حرمتی کا اقدام کرے، اسے دونوں میں سے کسی بھی قسم کی تین سال تک کی سزائے قید یا جرمانے کی سزا یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔

مذہبی مجمع میں خلل ڈالنا

300:- جو کوئی بلاارادہ کسی ایسے مجمع میں خلل ڈالے جو جائز طور پر مذہبی عبادت یا مذہبی رسوم کی انجام دہی میں مصروف ہو، اسے دونوں میں سے کسی بھی قسم کی ایک سال تک کی سزائے قید یا جرمانے کی سزا یا دونوں سزائیں دی جائیںگی۔
قبرستانوں وغیرہ میں مداخلت بے جا کرنا

301:- جو کوئی کسی شخص کے جذبات کو مجروح کرنے یا کسی شخص کے مذہب کی توہین کی نیت سے یا یہ علم ہوتے ہوئے کہ کسی شخص کے جذبات کے مجروح ہونے یا کسی شخص کے مذہب کی توہین کا امکان ہے،کسی عبادت گاہ یا مزار میں یا کسی ایسی جگہ میں جو آخری رسوم کی انجام دہی کے لیے یا مردوں کے باقیات کو رکھنے کے مقام کے طور پر رکھی گئی ہو، مداخلت بے جا کرے یا کسی انسانی لاش کی بے عزتی کرے یا آخری رسوم کی انجام دہی کے لیے اکٹھے ہونے والے کسی شخص کو پریشان کرے، اسے دونوں میں سے کسی بھی قسم کی ایک سال تک کی سزائے قید یا جرمانے کی سزا یا دونوں سزائیں دی جائیںگی۔

مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی بالعمدنیت سے الفاظ وغیرہ زبان سے نکالنا

302:- جو کوئی کسی شخص کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی بالعمد نیت سے اس شخص کی سماعت میں کوئی لفظ کہے یا کوئی آواز نکالے یا اس شخص کی بصارت میں کوئی اشارہ کرے یا کوئی چیز رکھے، اسے دونوں میں سے کسی بھی قسم کی ایک سال تک کی سزائے قید یا جرمانے کی سزا یا دونوں سزائیں دی جائیںگی۔
قومی یکجہتی کے لیے مضر اتہام، گفتار

دفعہ 197 میں بھی دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ یہ التزام کیا گیا ہے کہ کو ئی جھوٹی یا گمراہ کن جانکاری دے یاشائع کرے جس سے بھارت کے اقتدار اعلیٰ، اتحاد اور سالمیت کو خطرہ پیدا ہو جائے یا بذریعہ الفاظ خواہ کہے گئے یا تحریری یا اشارات یا واضح اظہار یا دیگر طور پر یہ تہمت لگائے یا شائع کرے کہ اشخاص کی کوئی جماعت کسی مذہبی، لسانی یا علاقائی گروہ یاذات یافرقے کی رکن ہونے کی بنا پر بھارت کے آئین پر بھروسہ نہیں کرسکتی اور اس کی وفادار نہیں ہوسکتی یا ایسی بات کہے، سمجھائے، مشورہ دے، پھیلائے یا شائع کرے کہ اسے بھارت کے شہری کے طور پر تسلیم نہیں کیا جائے گا یا حقوق سے محروم رکھا جائے گا وہ مستوجب سزا ہوگا۔

(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS