19سال بعد باعزت بری،کون لوٹائے گا 19سال؟: وسیم اکرم تیاگی

0

وسیم اکرم تیاگی

انگریزی میں ایک مشہور کہاوت ہے “Justice delayed is justice denied” یعنی انصاف میں تاخیر انصاف سے محروم ہونے کے مترادف ہے۔ آسان الفاظ میں کہیں تو انصاف میں تاخیر انصاف نہیں بلکہ ناانصافی ہے۔ ہندوستان میں ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں جہاں عدالت سے انصاف کے حصول کے لیے شہریوں نے طویل لڑائی لڑی ہیں۔ گزشتہ21جولائی کو ممبئی ہائی کورٹ سے 19 سال بعد ’انصاف‘ پانے والے12نام نہاد ’دہشت گرد‘ شاید یہ بات نہ کہہ سکیں کیونکہ انہوں نے خود کو بے قصور ثابت کرنے کے لیے تقریباً دو دہائی تک طویل جنگ لڑی، تب عدالت نے انہیں بری کیا۔ دراصل 11 جولائی 2006 کو ممبئی کی لوکل ٹرینوں میں سلسلہ وار دھماکے ہوئے تھے۔ یہ دھماکے سات مقامات پر ہوئے جن میں 209 افراد جاں بحق ہوئے تھے، جب کہ 714 افراد زخمی ہوئے تھے۔ 19 سال بعد 21 جولائی کو آئے بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے نے تمام ملزمان کو بری کر دیا ہے۔ یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ انسداد دہشت گردی اسکواڈ(اے ٹی ایس) نے 20جولائی2006 سے 3اکتوبر2006 کے دوران ملزمان کوگرفتار کیا تھا۔ اسی سال نومبر میں ملزمان نے عدالت کو تحریری طور پر معلومات فراہم کیں کہ ان سے زبردستی اقبالیہ بیان لیے گئے۔ اے ٹی ایس کی چارج شیٹ میں 30ملزمان بنائے گئے تھے۔ ان میں سے13کی شناخت پاکستانی شہریوں کے طور پر ہوئی۔11ستمبر2015کو اسپیشل مکوکا کورٹ نے 13ملزمان میں سے12کو قصوروار قرار دیا اور پانچ کو پھانسی اور سات کو عمر قید کی سزا سناتے ہوئے ایک ملزم کو بری کر دیا تھا۔ لیکن بامبے ہائی کورٹ نے مکوکا کورٹ کے فیصلے کو پلٹتے ہوئے تمام ملزمان کو بری کر دیا ہے۔

بامبے ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے نے ایک بار پھر سیکورٹی تحقیقاتی ایجنسیوں کے کام کرنے کے انداز پر سوال اٹھائے ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا سیکورٹی ایجنسیوں میں کام کرنے والے افسران تعصب کا شکار نہیں ہیں؟ کیا یہ اتفاق ہے؟ کہ سیکورٹی ایجنسیوں نے جن لوگوں کو ان بم بلاسٹ کا ملزم بنایا، وہ سب ایک ہی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ سیکورٹی ایجنسیوں کے ذریعہ ملزمان کی گرفتاری کے وقت ایک جیسی ہی کہانیاں گڑھی گئی ہیں اور وہ کہانیاں عدالت میں انصاف کی کسوٹی پر کھری ہی نہیں اتر پائیں۔ اس طرح کے دہشت گردانہ واقعہ کے بعد سیکورٹی ایجنسیوں نے کچھ اردو نامی تنظیموں پر الزام لگایا اور پھر کچھ نوجوانوں کو گرفتار کرکے ان کے تار پاکستان سے جوڑ کر اپنی ’ذمہ داری‘ ادا کرلی۔ان نام نہاد ’دہشت گردوں‘ کے بری ہونے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ بلکہ عام شہریوں کو دہشت گردی کے الزام میں پھنسا کر ان کی زندگی کے بیش قیمتی وقت کو برباد کرنے کا ایک طویل سلسلہ ہے، ایک طویل تاریخ ہے۔

یہاں ہندوستان کی تین ریاستوں میں ہوئے بم دھماکوں کے تین واقعات کا ذکر ضروری ہے۔گجرات کے گاندھی نگر میں واقع اکشردھام مندر پر 2002 میں ہوئے دہشت گردانہ حملے میں 32 افراد ہلاک اور 80 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ اس حملے کے بعد6 افراد کو قصوروار ٹھہرایا گیا تھا، جن میں سے 4نے11سال جیل میں گزارے تھے۔ سپریم کورٹ نے بعد میں ان سب کو بری کر دیا۔ ان ہی میں سے ایک مفتی عبدالقیوم تھے، انہوں نے اپنی بے گناہی پر ’’11سال سلاخوں کے پیچھے‘‘ کے نام سے مشہور کتاب بھی لکھی۔ اس کتاب میں ان کے ساتھ ہوئی زیادتی کا ذکر ہے۔

13مئی2008کو جے پور میں دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا تھا۔ بم دھماکے کے اس واقعہ میں73لوگوں کی جانیں گئی تھیں۔ اس معاملے میں نچلی عدالت نے20ستمبر 2019کو سیف، سیف اللہ رحمن، سرور اور سلمان کو پھانسی کی سزا سنائی تھی لیکن29مارچ2023کو راجستھان ہائی کورٹ نے چاروں ملزمان کو بری کر دیا۔ یہ تین ایسے معاملات ہیں جن میں نچلی عدالتوں نے ملزمان کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزائیں سنائی تھیں، لیکن ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے نچلی عدالتوں کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے قصوروار قرار دیے گئے افراد کو باعزت بری کیا تھا۔ یہاںنچلی عدالتوں کی ’انصاف‘ کرنے کی نیت مشتبہ نہیں لگتی؟ دہشت گردی کے ایسے سنگین معاملات میں جن ملزمان کو نچلی عدالت قصوروار ٹھہراتی ہے، وہی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں باعزت بری ہوتے رہے ہیں۔

باعزت بری! عدالت میں اس ایک لفظ کو ثابت کرنے کے لیے سیکورٹی ایجنسیوں اور میڈیا ٹرائل کے ذریعہ دہشت گرد بنائے گئے بے گناہوں نے طویل جدوجہد کی ہے۔ یہاں امریکی مصنف میلکم فیلی کے ذریعہ لکھی گئی کتاب “The Process is the Punishment” کا ذکر کرنا مناسب ہے۔ دی پروسیز اِز دی پنیشمنٹ یعنی عدالتی عمل ہی سزا ہے۔ سوچئے! ممبئی دھماکوں کے ملزمان کو خود کو بے قصور ثابت کرنے کے لیے دو دہائی تک طویل جنگ لڑنی پڑی ہے۔ جے پور دھماکے کے ملزمان کو خود کو بے قصور ثابت کرنے کے لیے14سال طویل قانونی جنگ لڑنی پڑی ہے۔ اکشردھام مندر دھماکے کے ملزمین کو خود کو بے قصور ثابت کرنے کے لیے11سال طویل قانونی جنگ لڑنی پڑی ہے۔ ایسی درجنوں مثالیں ہیں، جب بے گناہ ہونے کے باوجود شہریوں نے اپنی زندگی کے10، 15،20حتیٰ کہ 25سال جیل کی کال کوٹھری میں گزارے ہیں۔

ان ملزمان کے بری ہونے نے ایک نہیں کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ دھماکے کے متاثرین کو انصاف نہیں ملا۔ دوسرا اس بم دھماکے کے الزام میں اپنے ہی بے قصور شہریوں کی زندگی کو جیل کی کال کوٹھری میں تباہ کرنے کا گناہ جانچ ایجنسیوں نے اپنے سر لیا ہے۔پھر سوال یہ ہے کہ دھماکے کے اصل مجرم کون ہیں؟ اصل دہشت گرد کون ہیں؟ کیونکہ جنہیںمجرم اور دہشت گرد بتا کر ملک کے سامنے لایا گیا، جھوٹی کہانیاں گڑھ-گڑھ کر جن کا میڈیا ٹرائل کیا، ان نام نہاد دہشت گردوں کو تو عدالت بری کرچکی ہے۔ پھر اصل مجرم کون ہیں؟ یہ سوال صرف ممبئی ٹرین دھماکے سے متعلق ہی نہیں بلکہ اکشردھام مندر دھماکے کے بارے میں بھی ہے کہ قصوروار کون ہیں؟ صرف اکشردھام مندر دھماکہ ہی نہیں، سوال یہ بھی ہے کہ جے پور دھماکے کے مجرم کون ہیں؟ اس کے علاوہ درجنوں ایسے واقعات ہیں جن میں تمام ملزمان کو عدالت نے بری کر دیا ہے۔

بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے پر اوڈیشہ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس، جسٹس ایس مرلی دھر نے سیکورٹی ایجنسیوں کے کام کرنے کے انداز اور نیت دونوں پر ہی سنگین سوال اٹھائے ہیں۔ جسٹس مرلی دھر نے کہا، ’’اس معاملے میں جان بوجھ کر جانبدارانہ تحقیقات کی گئی، بے قصور لوگوں کو جیل بھیجا گیا اور جب وہ برسوں بعد باہر آتے ہیں تو ان کی زندگیوں کو نئے سرے سے شروع کرنے کے امکان نہیں رہتے، یہ 12 لوگ 17 سال سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے، ان کی پوری جوانی اور ان کی زندگی کا سب سے اہم حصہ ضائع ہوچکا ہے۔ ایسے معاملات میں جہاں عوامی جذبات اُبھرتے ہیں، وہاں پولیس افسر گمراہ کیے جاتے ہیں اور پھر میڈیا ٹرائل کے ذریعہ قصور طے کردیے جاتے ہیں۔ پریس کانفرنسیں پہلے ہوتی ہیں، ثبوت بعد میں تلاش کیے جاتے ہیں۔‘‘

کیا کسی نے سوچا ہے کہ دہشت گردی کے مقدمات میں ملزمان بنائے گئے لوگ اور ان کے اہل خانہ کس ذہنی اذیت سے گزرتے ہیں؟ فیملی تو چھوڑیے، رشتہ داروں اور دوستوں تک کا میڈیا ٹرائل ہوتا ہے۔ الزامات عائد کیے جاتے ہیں اور جس طرح میڈیا نے ’ذرائع‘ کا حوالہ دے کر کیسی کیسی کہانیاں بنائی ہیں، اس سے بھی سبھی واقف ہیں۔ اب میڈیا کی اخلاقیات پر بھی سوال ہے۔ جن اینکرز/چینل، اخبارات نے عدالت کے فیصلے سے پہلے ہی ان بے قصوروں کو دہشت گرد کہہ کرلکھ کر تشہیر/ نشر کیا تھا، کیا عدالت کے فیصلے کے بعد وہ اپنے اس ’گناہ‘ کی اخلاقی ذمہ داری لے کر ان بے گناہوں سے معافی مانگیں گے؟ بے قصور ثابت ہونے تک مجرم سمجھے جانے کے تصور نے کتنے ہی بے قصور افراد سے ان کے ’اپنوں‘ سے دور کیا ہے۔ عدالت کو ایسے معاملات میں صرف مکمل انصاف دینا چاہیے، جن افسران نے شہریوں کو جھوٹے الزام میں پھنسایا ہے، انہیں سزا بھی دینی چاہیے۔ اور جن شہریوں نے بے قصور ہوتے ہوئے بھی جیل کی سلاخو ںکے پیچھے زندگی کا ایک طویل عرصہ گزارا ہے، انہیں اس کا معاوضہ ملنا چاہیے، معاوضہ کی یہ رقم انہیں پھنسانے والے افسران سے وصول کرنی چاہیے۔

(مضمون نگار صحافت سے وابستہ ہیں، یہ ان کے ذاتی خیالات ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS