ہیومیو پیتھی : طریقۂ علاج یا محض تسکین کا سامان

0

اختر جمال عثمانی بارہ بنکی
10 اپریل کو ہر سال عالمی یومِ ہومیو پیتھی منایا جاتا رہا ہے۔ یہ دن ہومیو پیتھی کے موجد ڈاکٹر سیموئیل ہانیمین کا یومِ پیدائیش ہے۔ ہومیوپیتھی کی بنیاد اٹھارویں صدی ڈاکٹر سیمو ئیل ہانیمین نے رکھی تھی۔ ہومیو پیتھی طریقۂ علاج کا مختصر تعارف اس طرح سے ہے۔ ہومیو پیتھی کا بنیادی اصول ہے زہریلی چیزوں ، زہروں ، دھاتوں ، نباتاتی مادوں وغیرہ سے ویسی ہی ملتی جلتی یا اسی طرح کی بیماریوں کو دور کرنے کے لئے استعمال کیا جائے جس طرح کی بیماریوں کی علامات یہ اشیاء خود پیدا کر سکتی ہیں ،اسی لئے اس طریقہ علاج کو ہومیوپیتھی یا علاج بالمثل کہا جاتا ہے۔ ہومیو پیتھی کے اصول کے مطابق کسی بھی دوا کا اثر انسان کے دفاعی نظام پر ہوتا ہے اور وہ دوا کے خلاف حرکت میں آتا ہے۔ کثیر مقدار میں دی گئی دوا کا مقابلہ کرنے میں دفاعی نظام ناکام رہتا ہے اور مرض کی علامتیں ظاہر ہونے لگتی ہیں لیکن دوا کی انتہائی قلیل مقدار دفاعی نظام کو متحرک کر دیتی ہے اور علامتیں معدوم ہونے لگتی ہیں۔ ہومیو پیتھک دوائوں میں پوٹینسی بڑھانے(potentisation) کے لئے بار بار Dilution کا عمل دھرانا پڑتا ہے اس لئے 3C ، یا 3X کی پوٹنسی حاصل ہونے کے بعد دوا کے محلول میں اصل دوا کا ذرہ تک نہیں ملتا بلکہ صرف اس دوا کا سایہ یا یاد ہی باقی رہتی ہے ۔ اس طرح دوا کا جیسے جیسے پوٹینسی کا نمبر بڑھتا ہے یا ہومیو پیتھی کی زبان میں طاقت اونچی ہوتی جاتی ہے، اس میں اصل دوا کی مقدار ختم ہوتی جاتی ہے۔ہومیو پیتھی میں مرض کے نام کے بجائے علامتوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ کیس ٹیکنگ کے دوران معالج کو ہر علامت پر توجہ دینی ہوتی ہے علامتوں کے مطابق دوا کا انتخاب کرنا ہوتا ہے ، اس کے لئے ڈاکٹر جیمس ٹیلر کینٹ ، ڈاکٹر ولیم بورک وغیرہ نے بڑی جانفشانی سے ریپریٹری (ہر دوا کی تفصیلی علامات) تیار کی ہیں۔ چونکہ علامتوں کی بنیاد پر کسی ایک دوا کا انتخاب بہت محنت اور عرق ریزی کا کام ہے اس لئے کمبنیشن یا ملتی جلتی علامتوں سے متعلق کئی دوائوں کے مرکبات رائج ہوئے یہ مرکبات علامتوں کے بجائے مرض کے مطابق بنائے گئے۔ حالانکہ اب اس دور میں علامتوں کی بنیاد پر دوا کا انتخاب کوئی مسئلہ نہیں رہا راڈار اوپسradar opus سمیت بہت سے سو فٹ ویر موجود ہیں جو علامتوں کے مطابق نہایت قلیل وقت میں ساری رپرٹریز اور میٹریا میڈیکا سے متعلق دوا کا انتخاب سامنے لا دیتے ہیں۔ مسئلہ ہے معالجوںکی خود اعتمادی کا۔ہومیو پیتھک طریقہ علاج کی مخالفت کی بنیاد شروع میں پیشہ ورانہ چپقلش پرتھی۔ لیکن میڈیکل سائنس میں لگاتار ہو رہی نئی تحقیقات اور ایجادات نے نئے چیلنج سامنے لا دئے ہیں۔ جراحی suegery کو لیکر ایلوپیتھی کو پہلے سے ہی فوقیت حاصل ہے ۔اب ہومیو پیتھی کے مخالفین نہایت مضبوط دلیلوں کے ساتھ اس پر حملہ ٓآور ہیں۔ کئی ممالک میں اس پر پابندی لگانے کی مانگ کی جا رہی ہے یا اس کو با قاعدہ طریقہ علاج ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ امریکہ میں ہومیو پیتھک دوائوں کی پیکنگ پر یہ ہدایت لکھنا ضروری ہے کہ’ یہ پرودکٹ کسی بھی بیماری کے علاج، شفاء یا تشخیص کے لئے نہیں ہےThis product is not intended to treat, cure, prevent or diagnose any deseas عام طور سے پوٹنسی کا مذاق ا ڑایا جاتا ہے کہ جس دوا میں متعلقہ دوا کا ایک بھی ذرہ (molecule) تک نہ ہو اس سے شفایابی کیوں کر ممکن ہے۔ دوسرے ہومیوپیتھک دوائوں کا اس طرح ٹرائل نہیں ہوتا جیسے کہ ماڈرن میڈیسن کے معاملے میں ہوتا ہے کہ لاکھوں لوگ اس ٹرائل میں شامل کئے جاتے ہیں اور دوا کی کارکردگی پر لگاتار نظر رکھی جاتی ہے مہینوں اور برسوں اعداد و شمار جمع کرنے کے بعد اور قابل اطمینان ثابت ہونے پر دوا عام طور پر دستیاب ہوتی ہے اسکے با وجود بھی بد اثرات سامنے آنے پر اس کے استعمال پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ہومیو پیتھک دوائوں کی پرونگ میں ذاتی تجربات اور مشاہدات کو کافی سمجھا جاتا ہے۔ حال ہی میں کئے گئے کچھ کلینکل ٹرائل کے نتائج کو لے کر یہ دعویٰ کیا گیا کہ ہومیو پیتھی کا اثرپلاسبو plasebo یا نقلی دوا کے برابر ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ اپنے ہومیو پیتھی پر عقیدے کو لے کر لوگ ہومیو پیتھی علاج کرتے رہتے ہیں ،وقت گزرنے کے ساتھ مرض پیچیدگی اختیار کر لیتا ہے اور لاعلاج بن جاتا ہے۔ پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر ہومیو پیتھی علاج شافی نہیں ہے تو دنیا بھر میں کروڑوں لوگ اس کے قائل کیوں ہیں۔ اور بہت سی ایسی مثالیں ہیں کہ لا علاج مریض شفایاب ہوئے ہیں تو اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ انسان کا مدافعاتی نظام مریض کو ٹھیک کرتا ہے اور دوسرے نیورو بائیلوجیکل ری ایکشن (neurobiological reaction) کہ جس میں دماغ جسم کو مطلع کرتا ہے کہ دوا پہونچ گئی ہے ۔ اور جسم ردعمل کے اظہار میں شفاء کی طرف مائل ہوتا ہے۔اور شفا کے لئے شاباشی ہومیو پیتھ کو ملتی ہے۔ ہومیو پیتھی میں کچھ اصطلاحات تقریباََ دو صدیوں سے رائج ہیں جیسے دوا کی ’اونچی طاقت‘ (high potency) ’وائٹل پاور r powe (vital ،)روبرکس( (rubrics)، مائنڈ ‘ (mind) میازم miazm)) وغیرہ لیکن سائنسی بنیاد پر ان کو سمجھ پانا مشکل ہے۔ یہ کمبنیشن چونکہ مرض کے مطابق بنائے جاتے ہیں اور ان میں ایک مرض سے متعلق آٹھ دس تک یعنی تقریباََ ساری دوائیں شامل رہتی ہیںاس لئے دوا کے انتخاب کے مسئلے سے بھی دو چار نہیں ہونا پڑتا ہے۔ لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ایک امید کی کرن نظر آتی ہے اور وہ ہے مالیکولر امپرنٹنگ ٹیکنولوجی molecular imprinting technology))۔ غالب امکان ہے کہ ہومیو پیتھی میں پوٹینسی بنانے میں یہی نظریہ کام کرتا ہے۔ ہومیوپیتھک ادویات کی تاثیر کو ابھی طبی سائینس کی روشنی میں حتمی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکا ہے۔ ہومیوپیتھک ادویات سنجیدہ امراض یا انفیکشن کی حالت میں جدید طریقہ علاج کے متبادل نہیں ہیں۔ اگرچہ ہومیوپیتھک دوائوں کو بذات خود نقصان دہ نہیں سمجھا جاتا لیکن بیماریوں کی سنگین حالت ، یا ایمرجنسی میں ان پر انحصار خطرناک ہو سکتا ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ پھر بھی قائم ہے کہ ہومیوپیتھی ایک باقاعدہ طریقہء علاج ہے یا محض تسکین کا ساماں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS