پروفیسر اسلم جمشید پوری
قرآن مجید ایسی کتاب ہے جو رہتی دنیا تک قائم اور باقی رہنے والی کتاب ہے۔ یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جسے حفظ کیا جاسکتا ہے۔حافظ حضرات اسے زبر،زیر، پیش، جزم، تشدید کے ساتھ حفظ کر لیتے ہیں۔اس کے علاوہ دنیا کی کوئی اور کتاب نہیں ہے جسے جوں کا توں ازبر کیا جا سکے۔دراصل یہ قرآن پاک کا کرشمہ اور معجزہ ہے کہ یہ حفاظ کے دل میں حرف بہ حرف سما جا تا ہے۔
اس کی شان نزول کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ یہ رمضان کے مہینے میں اللہ کے محبوب،آخری نبی حضرت محمدؐ پر تھوڑا تھوڑا اترا۔اس کی سب سے پہلی آیت،اقرا باسمِ ربک۔۔۔ غار ِ حرا میں حضرت جبرائیل ؑ لے کر آئے۔ انہوں نے حضورؐ سے کہا،پڑھو اپنے رب کے نام سے۔حضرت محمدؐ نے حضرت جبرائیل ؑ سے کہا کہ میں بالکل پڑھا لکھا نہیں ہوں۔حضرت جبرائیلؑ نے حضورؐکے سینۂ مبارک کو بھینچا۔ ایسا انہوں نے تین بار کیا، ہر بار حضورؐسے پڑھنے کو کہا۔حضورؐ نے معذرت کی۔تیسری بار سینہ دبانے کے بعد حضورؐ سے پھر پڑھنے کو کہا توآپؐ وہ الفاظ دہرانے لگے،جو جبرائیل ؑ اپنی زبان سے ادا کر رہے تھے۔پوری آیت میں پڑھنے پر زور، اللہ کی خوبیوں اور احسانات کا ذکر تھا۔یہ نبوت کا اعلان بھی تھا اور قرآن مجید کے باضابطہ نزول کی ابتدا بھی تھی۔ پوراقرآن مجید 23سال میں آسمان ِبالا سے روئے زمین پر وقت ضرورت نازل ہوا۔مختلف آیات اور رکوعات کی شکل میں قرآن مجید اتارا گیا۔
یوں تو چار آسمانی کتب مانی جا تی ہیں۔ زبور حضرت دائود ؑ پر توریت موسیٰؑ پر،انجیل حضرت عیسیٰؑ پر اور قرآن مجید اللہ کے محبوب نبی آخر الزماں حضرت محمدؐ پر نازل ہوئی۔بہت سے نبیوں کو صحیفے دیے گئے۔ سب کا ایک ہی مقصد تھا کہ عبادت کے لائق صرف اللہ ہے،اسی نے کائنات کی ہر شئے بنائی ہے، وہی زندگی دیتا ہے اور وہی مارتا ہے۔ وہ ایک ہے، پاک ہے، اس کا کوئی ہمسر نہیں،وہ ازل سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔اسے کبھی زوال نہیں آئے گا،اس کے علاوہ سب کچھ فانی ہے۔قرآن مجید اور دوسری تمام کتابوں اور صحیفوں میں اس نے انسان کویہ سب سکھایا ہے۔مگر افسوس اس کا انکار کر نے والے بہت سے لوگ ہیں۔قرآن مجید کو چھوڑ کر باقی تمام آسمانی کتابوں اور صحیفوں کی اصل عبارت میں خلط ملط ہوگیا ہے۔ کتربیونت کر دیا گیا۔ اضافہ و کمی کر دی گئی۔ قرآن مجید کا حرف حرف، یہاں تک کہ زبر، زیر، پیش، جزم، تشدید، وقفہ تک نہ بدلا ہے نہ قیامت تک بدلے گا، قرآن جن اعراب کے ساتھ پندرہ سو سال قبل اترا تھا،ویسا ہی آج بھی ہے اور قیامت تک ویسا ہی رہے گا۔
قرآن مجید میں لکھا ہے کہ اللہ واحد ہے۔ اس نے سورج، چاند، ستارے، بنا ستونوں کا آسمان، دن رات، ندی پہاڑ، میدان، خشکی، تری، جاندار، بے جان، جاندار میں سے بے جان اور بے جان میں سے جاندار،اندھیرا اجالا۔ صبح شام، انسان، حیوان، حشرات الارض، چوپایہ، پرندے، فرشتے،جنت، جہنم غرض جو کچھ زمین و آسمان کے درمیان ہے،وہ سب اسی نے بنایا ہے۔قرآن مجید ایک نظام زندگی ہے۔ بڑوں کا احترام اور چھوٹوں سے شفقت، میاں بیوی کے رشتے کا تقدس،معاملاتِ زندگی،ہر حال میں سچ بولنا،بے ایمانی نہیں کرنا،ملازمت میں پورا وقت دیتے ہوئے ادارے کا وفادار ہونا، روزی روٹی کو حلال کرنا، وقت کا خیال رکھنا،حلال کمانا اور اپنے بیوی بچوں کو حلال کھلانا،امانت میں خیانت نہ کرنا، حرام باتوں اور چیزوں سے بچنا، غلط کام نہ کرنا،اللہ کے نام والے ذبیحہ کا گوشت کھانا،چوبیس گھنٹے کی زندگی اللہ کے مطابق اور حضورؐ کے طریقوں پر گزارنا،سیاست میں عوام کے مفاد کو اپنے ذاتی مفاد پر تر جیح دینا، زندگی فقیرانہ ہو کام خواہ شاہانہ ہوں۔ قرآن مجید نے ہمیں زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ بتایا، ہر چھوٹی بڑی بات سکھائی۔ زکوٰۃ اور نماز ادا کرنے کی بارہا تاکید کی۔
قرآن مجید در حقیقت اللہ اور اس کے محبوب محمدؐ کے درمیان کی گفتگو ہے۔اللہ نے اپنے محبوب کو گزشتہ زمانے کے واقعات، قوموں، نافرمانوں، تباہیوں، رسولوں اور پیغمبروں کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ آسمانی کتابوں اور صحیفوں کے بارے میں بتایا۔حضورؐ کو جب کوئی سچویشن پیش آتی تواللہ پاک وحی کے ذریعہ قرآن مجید کی کوئی آیت نازل کرتا اور وہ پریشانی، مصیبت اور مسائل حل ہوجاتے۔ قرآن مجید میں ازل سے اب تک رونما ہوئے واقعات اور ابد تک واقع ہونے والے حادثات اور واقعات کا ذکر ہے۔ قرآن مجید اللہ پاک کی بندگی سکھاتا ہے۔قرآن مجید کو عملی طور پر دیکھنا ہو تو حضورؐ کی زندگی میں دیکھنا چاہیے۔
قرآن مجید سیاسی زندگی میں بھی ہماری بہتر رہنمائی کرتا ہے۔حکمراں کو کیسا ہونا چاہیے ؟عوام کے حقوق و فرائض کیا ہیں۔؟کیا حلال ہے اور کیا حرام؟بیت المال کا تصور اسلام نے دیا۔بیت المال کیا ہے ؟یہ حکومت کا خزانہ ہوتا ہے جس کی ذمہ داری وزیرمالیات کی ہوتی ہے۔آج جو فنانس منسٹری ہے،یہ بیت المال کی ہی ترقی یافتہ شکل ہے،مگر کیا حقیقت میں یہ ترقی ہے؟ کیا وزیراعظم اور وزرا کا کردار ایسا ہے ؟ کیا ایمانداری ان کو چھو کر بھی گزری ہے؟یہ سبھی اپنے مفاد کو عوام پر تر جیح دیتے ہیں۔ آئے دن کے ریل حادثے، پلوں کا گرنا، ایئر کرافٹ کا تباہ ہونا،بادلوں کا پھٹنا،زمین کا درکنا،ایئر پورٹ کی چھتوں کا گرناوغیرہ ہوتا رہتا ہے۔کیا ان میں خاص لوگ مارے جاتے ہیں؟عوام کا ہی جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے۔پہلے بھی قحط اور قدرتی آفات آتی تھیں،سب مل کر (سرکار اور عوام)ان کا مقابلہ کرتے تھے۔
قرآن مجید کے بر حق ہونے کی شہادت یوں تو دنیا دیتی ہے مگر خود قرآن مجید میں اس کے برحق ہونے کی شہادت بار بار آئی ہے۔قرآن مجید کی ترتیب حضورؐکے دست ِ مبارک میں ہوئی بعدمیں حضرت ابو بکرصدیقؓ اور حضرت عثمانؓ کے زمانے میں ترتیب و تدوین ہوئی۔ تیس پارے بنائے گئے۔ مختلف سورتیں ترتیب سے مختلف پاروں میں رکھی گئیں۔ قرآن مجید میں کل ایک سو چودہ(114 )سورتیں ہیں۔ ترتیب کے اعتبار سے پہلے پارے کی پہلی سورت الحمدللہ رکھی گئی اور آخری سورت قل اعوذ برب الناس۔پہلے پارے کا نام الف لام میم ہے اور آخری پارے کا عمّایتسا ء لون ہے۔پورے قرآن مجید میں چودہ سجدے ہیں،جو قرآن مجید پڑھنے اور سننے والے پر واجب ہوتے ہیں۔ کوئی بھی قرآن مجید کو غلط نہیں پڑھ سکتا۔اِقراء کو کوئی اَقراء نہیں پڑھ سکتا۔قرآن مجید کا معجزہ یہ بھی ہے کہ اس کی حفاظت کا ذمہ خدا نے خود اپنے ذمے لیا ہے۔قرآن مجید قیامت تک رہے گا۔دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب تک قرآن مجید ہے،تب تک دنیا ہے۔
قرآن مجید آخری آسمانی کتاب ہے جو آخری نبی حضرت محمدؐ پر نازل ہوئی۔اب قیامت تک نہ کوئی نبی آئے گا، نہ آسمانی کتاب۔اس پر ایمان لانا بھی اسلام کا ایک جز ہے۔ لہٰذا قرآن مجید رہتی دنیا تک کے لوگوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے۔یہ بھی غلط فہمی ہے کہ قرآن مجید صرف مسلمانوں کے لیے ہے۔جس طرح حضورؐ عالم انسانیت کے لیے ہیں،اسی طرح قرآن مجید بھی قیامت تک انسانوں کے لیے رشد و ہدایت ہے۔قرآن مجید میںہی لکھا ہے،کلُّ نفس ذائقۃ الموت، یعنی ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔اس پر ہر مذہب والوںکاایمان ہے۔سب کو یقین ہے کہ ایک دن سب کو مرنا ہے۔
[email protected]