روایت ہے کہ بعض غیر مسلم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ موسیٰ عصا اور ید بیضا لائے۔ عیسیٰؑ اندھوں کو بینا اور کوڑھوں کو اچھا کرتے تھے۔ دوسرے پیغمبر بھی کچھ نہ کچھ معجزے لائے تھے آپ فرمائیں آپ کیا لائے ہیں اس پر آپ نے سورہ آل عمران کی 189 سے 195 تک کی آیتیں تلاوت فرمائیں اور ان سب سے کہا میں تو یہ لایا
’زمین اور آسمان کا مالک اللہ ہے اور اس کی قدرت سب پر حاوی ہے۔ زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات و دن کے باری باری سے آنے میں ان ہوشمند لوگوں کیلئے بہت نشانیاں ہیں جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے ، ہرحال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں۔ (وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں) ’پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے۔ پس اے رب! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے، تو نے جسے دوزخ میں ڈالا اسے در حقیقت بڑی ذلت و رسوائی میں ڈال دیا، اور پھر ایسے ظالموں کا کوئی مدد گار نہ ہوگا۔ مالک! ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا جو ایمان کی طرف بلاتا تھا اور کہتا تھاکہ اپنے رب کو مانو۔ ہم نے اس کی دعوت قبول کرلی، پس اے ہمارے آقا! جو قصور ہم سے ہوئے ہیں ان سے در گزر فرما، جو برائیاں ہم میں ہیں انہیں دور کردے اور ہمارا خاتمہ نیک لوگوں کے ساتھ کر۔ خدا وندا! جو وعدے تو نے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے کئے ہیں ان کو ہمارے ساتھ پورا کر اور قیامت کے دن ہمیں رسوائی میں نہ ڈال، بے شک تو اپنے وعدے کے خلاف کرنے والا نہیں ہے‘۔ (سورہ آل عمران: 189 تا 194)
محبت دنیا کے ان اندھوں کا ذکر کرنے کے بعد جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کیلئے اسی قسم کی کٹ حجتیاں پیدا کر رہے تھے جن کی تفصیل اوپر بیان ہوئی اب یہ ان ارباب بصیرت کا بیان ہو رہا ہے جو اللہ کو ہر جگہ اور ہر حال میں یاد رکھتے ہیں اور زمین و آسمان کی خلقت پر برابر غور کرتے رہتے ہیں۔ فرمایا کہ یہ ذکر و فکر خود بخود ان کو اس نتیجے تک پہنچا دیتا ہے کہ یہ عظیم کارخانہ بے غایت و بے مقصد نہیں ہو سکتا، اور جب بے غایت و بے مقصد نہیں ہوسکتا تو لازم ہے کہ یہ محض اتنے ہی پر تمام نہ ہو جائے جتنا ظاہر ہو رہا ہے بلکہ ضروری ہے کہ ایک دن ایسا آئے جس میں گنہگار اور نیکوکار دونوں اپنے اپنے اعمال کا بدلہ پائیں اور اس دنیا کی خلقت میں جو عظیم حکمت پوشیدہ ہے وہ ظاہر ہو۔ آسمان و زمین کی خلقت اور رات اور دن کی آمد و شد میں جو نشانیاں ہیں ان کی طرف یہاں صرف اجمالی اشارہ ہے۔ ان کی تفصیل پورے قرآن میں پھیلی ہوئی ہے۔ قرآن نے بڑی وضاحت کے ساتھ گونا گوں پہلوؤں سے آفاق کی ان نشانیوں کو نمایاں کیا ہے جو شہادت دیتی ہیں کہ اس کائنات کے پیچھے صرف ایک عظیم طاقت ہی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ عظیم حکمت بھی ہے۔ صرف بے پناہ قدرت ہی نہیں ہے بلکہ بے پایاں رافت و رحمت بھی ہے۔ صرف بے اندازہ کثرت ہی نہیں ہے بلکہ اس کثرت کے اندر نہایت حیرت انگیز توافق و توازن بھی ہے۔ یہ چیز ظاہر کرتی ہے کہ اس دنیا کا پیدا ہونا نہ تو کوئی اتفاقی سانحہ ہے نہ کسی کھلنڈرے کا کھیل ہے بلکہ یہ ایک قدیر و حکیم، عزیز و غفور اور سمیع و علیم کی بنائی ہوئی دنیا ہے۔ اس وجہ سے یہ بات اس کی فطرت کے خلاف ہے کہ یہ خیر و شر اور نیک و بد کے درمیان امتیاز کے بغیر یوں ہی چلتی رہے یا یوں ہی تمام ہوجائے۔ اگر ایسا ہو تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ یا تو اس کا کوئی خالق و مالک ہی نہیں ہے، یہ آپ سے آپ کہیں سے آدھمکی ہے اور اسی طرح چلتی رہے گی یا یہ کہ نعوذ باللہ اس کا خالق کوئی کھلنڈرے مزاج کا ہے جو کسی کو گداگر، کسی کو تونگر، کسی کو ظالم اور کسی کو مظلوم بنا کر اس کا تماشہ دیکھ رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں اس قدرت اور اس حکمت کے بالکل منافی ہیں جن کی شہادت اس کائنات کے گوشے گوشے سے مل رہی ہے۔ ایسی علیم و حکیم ہستی کی شان علم و حکمت کے یہ بات بالکل منافی ہے کہ وہ کوئی بے حکمت کام کرے۔
اس طرح اس کائنات کی قدرت و حکمت پر غور کرنے والا شخص نہ صرف خدا تک بلکہ اقرار آخرت تک خود پہنچ جاتا ہے اور جس کا ذہن اس حقیقت تک پہنچ جائے گا ظاہر ہے کہ جزا و سزا کے تصور سے اس کا دل کانپ اٹھے گا اور اس کے اندر شدید داعیہ اس بات کیلئے پیدا ہوگا کہ وہ اس عذاب اور اس رسوائی سے پناہ مانگے جو ان لوگوں کیلئے مقدر ہے جو اس دنیا کو بس ایک کھلنڈرے کا کھیل سمجھتے رہے اور اس طرح انہوں نے اپنی ساری زندگی بالکل بطاعت میں گزار دی۔
یہ ان آیات کا سیدھا سادا مطلب ہوا۔ ان پر مزید غور کیجئے تو چند اور باتیں بھی سامنے آئیں گی اور وہ بھی نہایت قیمتی ہیں۔
ایک یہ کہ قرآن کے نزدیک اولو الالباب صرف وہ لوگ ہیں جو اس کائنات کے نظام پر غور کرکے خدا کے ذکر اور آخرت کی فکر تک رہنمائی حاصل کریں۔ جن کو یہ چیز حاصل نہیں ہوئی وہ اگرچہ آسمان و زمین کی تمام مسافت ناپ ڈالیں اور چاند و مریخ تک سفر کر آئیں لیکن وہ اولوا الالباب نہیں ہیں۔ ان کے سروں پر کھوپڑیاں تو ہیں لیکن ان کے اندر مغز نہیں ہے۔ اگر ان کے اندر مغز ہوتا تو یہ کس طرح ممکن تھا کہ انہیں سب کچھ نظر آجاتا اور یہ تل کی اوٹ میں چھپا ہوا پہاڑ نظر نہ آتا۔ دوسری یہ کہ جہاں تک خدا کا تعلق ہے وہ فکر و نظر کا محتاج نہیں ہے۔ وہ اس کائنات کی بدیہی حقیقت بلکہ ابدہ البدیہیات ہے۔ اس کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی منادی کر رہا ہے۔ ہماری فطرت اس کی شہادت دے رہی ہے۔ انسان کے اندر اگر عقل سلیم ہو تو وہ خدا کو اسی طرح دیکھتی ہے جس طرح سلیم آنکھ سورج کودیکھتی ہے۔ خدا کو پانے کیلئے یہ کافی ہے کہ انسان اس کو یاد رکھے۔ البتہ آخرت کا معاملہ تفکر و تدبر کا محتاج ہے۔ تیسری یہ کہ جہاں تک ذکر الہٰی کا تعلق ہے وہ ہر حال میں مطلوب ہے۔ اس کیلئے قیام و قعود، نرمی و گرمی اور صبح و مساکی کوئی قید نہیں ہے۔ انسان کی مادی زندگی کے بقا کیلئے جس طرح سانس کی آمد و شد ضروری ہے اسی طرح اس کی روحانی زندگی کے بقا کیلئے اللہ کی یاد ضروری ہے اور قرآن کی زیر بحث آیات سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ اولوالالباب کی خاص صفت یہی ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی یاد سے کبھی غافل نہیں ہوتے۔ چوتھی یہ کہ دین میں جس طرح ذکر مطلوب ہے اسی طرح فکر بھی مطلوب ہے۔ اگر ذکر ہوا اور فکر نہ ہو تو بسا اوقات یہ ذکر صرف زبان کا ایک شغل بن کر رہ جاتا ہے۔ اس سے مغفرت کے دروازے نہیں کھلتے۔ اولوالالباب کے ذکر کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ اس کے ساتھ فکر بھی ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کے قدم درجہ بدرجہ حکمت و معرفت میں راسخ ہوتے جاتے ہیں اس لئے کہ یہی فکر، آخرت کے یقین کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ پانچویں یہ کہ اس کائنات میں تفکر سے جس طرح اولوالالباب اس حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں کہ یہ کائنات کسی کھلنڈرے کا کھیل نہیں ہے اس درجہ سے ایک روز عدل کا ظہور ضروری ہے اسی طرح یہ حقیقت بھی ان پر واضح ہو جاتی ہے کہ اس دن حقیقی رسوائی سے وہ لوگ دو چار ہوں گے جو جھوٹی شفاعتوں پر تکیہ کئے بیٹھے ہیں اس لئے کہ اس دن ایسے بد قسمتوں کا کوئی بھی مدد گار نہ ہوگا۔ lmu (تدبر قرآن)
قرآن پاک: ہوشمندوں کیلئے بڑی واضح نشانیاں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS