خوش اسلوبی سے گزر گئی جمعہ کے دن ہولی، ہندوستانیت ہو گئی سربلند

0

عبیداللّٰہ ناصر

بے یقینی ڈ ر-خوف اور کشمکش کے ماحول میں جمعہ کے دن پڑنے والی ہولی بخیریت گزر گئی۔ اکادکا واقعات ہوئے بھی تو یہ افسوسناک ہوتے ہوئے بھی ناگزیر ہو جاتے ہیں۔ ہولی کے ہڑدنگیوں کے ہاتھوں کچھ اموات بھی ہوئیں جن میں ہندوؤں کے گھر کے چراغ بھی بجھے اور مسلمانوں کے گھر کے بھی، یہاں تک کہ تہوار کے دن اپنا فرض ادا کر رہے کچھ پولیس والے بھی فرض پر شہید ہو گئے۔ اس سال جمعہ کے دن کوئی پہلی بار ہولی نہیں پڑی ہے مگر ہندوؤں اور مسلمانوں نے ہمیشہ خود ہی باہمی رضامندی سے ہولی کے جلوس کا وقت کم کر دیا اور جمعہ کی نماز کا وقت بڑھا دیا مگر اس بار سنبھل کے سرکل افسر انج چودھری جنہیں فلمی پولیس والا ’’سنگھم‘‘ بننے کا بھی شو ق ہے، پہلوانی کا بھی اور ’’ہندو ہردے سمراٹ‘‘بننے کا بھی، اپنی حد سے تجاوز کرتے ہوئے بیان جاری کر دیا کہ ہولی سال میں ایک بار پڑتی ہے اور جمعہ کا دن باون بار آتا ہے، اس لیے مسلمان ا گر رنگوں سے پرہیز کرنا چاہتے ہیں تو وہ گھر میں ہی جمعہ کی نماز ادا کریں۔ ان کے اس بیان پر سبکدوش پولیس افسروں سمیت سبھی نے ناراضگی ظاہر کی، خود سنبھل کے ضلع مجسٹریٹ اور کپتان پولیس نے انہیں مزید کوئی بیان جاری کرنے سے روک دیا، مگر یوگی نے ان کی حمایت کی جو کوئی نئی یا انہونی بات نہیں ہے، ان کے دل و دماغ میں مسلم دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہے، اس سے قبل وہ جسٹس یادو کے بھی مسلم دشمن بیان کی حمایت کر چکے تھے۔ حالانکہ ہندوستان کے چیف جسٹس نے ان کی سرزنش کی تھی۔ بہر حال ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ سیا ستداں سیاسی فائدے کے لیے چاہے جتنا زہر بوئیں، وقتی سیاسی فائدہ بھی اٹھا لیں لیکن وہ ’’ہندوستانیت‘‘کی روح کو مار نہیں سکتے ہیں۔ اسی ماحول میں متھرا کے بانکے بہاری مندر کے ذمہ داروں کے بیان کی بھی دل کھول کرتعریف کرنی پڑے گی، فرقہ پرست شر پسند عناصر نے دباؤ ڈالا کہ وہ ٹھاکر جی کی مورتی کو پہنایا جانے والا کپڑا مسلم درزیوں سے نہ لیں مگر انہوں نے صاف انکار کرتے ہوے کہہ دیا کہ برسہا برس سے یہ کپڑے مسلم درزی ہی فراہم کرتے آئے ہیں اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا، مندر مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کرے گا۔یہ ان مٹھا دھیشوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو مذہبی لبادہ اوڑھ کر نفرت کی کھیتی کرتے ہیں –
سبھی مذہبوں کے تہواروں پر آپس میں خوشیاں بانٹنے کا یہ سلسلہ ہندوستان کی شناخت رہا ہے،لیکن ہندوستان کی یہ شناخت نظربد کا شکار ہو گئی ہے اور ہر گزرتے ہوئے ماہ و سال میں حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ مگر اس سال تو حد ہی ہو گئی کہ اتر پردیش کے کئی شہروں میں مسجدوں کو ترپالوں سے ڈھکنا پڑا۔ اس ملک کے لیے اس سے زیادہ شرمناک منظر اور کچھ نہیں ہوسکتا۔یہ عمل صرف ہندوستان کی شناخت کو ملیا میٹ نہیں کر رہا ہے بلکہ یہ ہندو مذہب کی اصل شناخت سرو دھرم سنبھاؤ(ہر مذہب کی عزت)،واسودھیو کٹمبکم(ساری دنیا ایک کنبہ ہے)،باہمی رواداری، امن پسندی پر امن بقائے باہم کو بھی شرمندہ کر رہا ہے۔ کوئی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ ہندو مذہب دنیا کا سب سے زیادہ لبرل مذہب ہے جو ہر نظریہ، ہر سوچ و فکر کو سمو لینے کی بے مثال صلاحیت رکھتا ہے، اس میں کسی بھگوان کو ماننے والا بھی ہندو ہوتا ہے اور اسے نہ ماننے والا بھی، پوجا پاٹھ کرنے والا بھی ویسا ہی ہندو ہوتا ہے اور نہ کرنے والا بھی اتنا ہی ہندو ہوتا ہے لیکن آر ایس ایس نے اس کی شناخت بگاڑ دی ہے۔ بقول آنجہانی وزیراعظم وی پی سنگھ ’’ہندو مذہب ایک نرم ملائم زرخیز مٹی جیسا ہے جس میں ہر طرح کے گل بوٹے کھلتے ہیں، مگر آر ایس ایس اس مٹی کو تپا کر اینٹ بنا رہی ہے جس سے مسلمانوں کا سر پھوڑا جا سکے۔ آر ایس ایس صرف ہمارے آئین کی ہی مخالف نہیں ہے وہ ہندو مذہب کی اصل شناخت کی بھی دشمن ہے۔‘‘

ہندوستان میںیعنی ’’مودی یگ‘‘کے آغا ز سے بہت کچھ بدل گیا ہے جس کی سب سے بڑی مار مسلمانوں پر پڑ رہی ہے۔ در اصل مودی کی شناخت ہی گجرات کے مسلم کش فساد اور گجرات میں ان کی حکومت کی کھلی مسلم دشمنی سے ہے۔آر ایس ایس کی سو سال کی محنت، لگن اور جہد مسلسل سے مسلمانوں کے خلاف بویا گیا زہر کا بیج ایک تناور درخت بن گیا ہے، سونے پرسہاگہ اسے ایسی سرکار کی سرپرستی مل گئی جس نے میڈیا اور عدلیہ سمیت سبھی آئینی اداروں پر آکٹوپس جیسی گرفت بنا لی ہے، مودی کی دیکھا دیکھی ہر سیاسی لیڈر کو لگنے لگا کہ آج ہندوستانی سیاست میں آگے بڑھنے کا سب سے کامیاب تیر بہ ہدف نسخہ مسلم دشمنی ہے اور پھر جیسے اس کی مقابلہ آرائی شروع ہو گئی۔ ویسے تو اس میدان میں ایک سے ایک دھرندھر کھلاڑی کودے، یہاں تک کہ نام نہاد سیکولر پارٹیوں سے اپنی برسوں پرانی وابستگی اور وہاں ملنے والے عہدوں، ترقیوں وغیرہ کو بھول کر بھگوا بریگیڈ میں شامل ہو گئے لیکن ان سب سے آگے نکل گئے اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ، جن کا پس منظر پہلے ہی جارحانہ فرقہ پرستی سے عبارت رہا ہے اور اب انہوں نے کھلے عام ’ٹھونک دو‘، ’مٹی میں ملا دو‘ جیسے احکام دے کر اترپردیش کی سرزمین کو قتل گاہ بنا دیا۔ ویسے تو اس کا شکار بہت سے غیر مسلم بھی ہوئے لیکن سب سے زیادہ اور آبادی کے تناسب سے سر فہرست مسلمان ہی ہیں۔ یوگی کی اس بارے میں تعریف کی جانی چاہیے کہ وہ اپنی کھلی فرقہ پرستی، جانبداری کو چھپاتے نہیں بلکہ تمام آئینی اصولوں اور آئین ہند سے وفاداری اور اس پر عمل کرنے کی حلف کو بالائے طاق رکھ کر کھل کے فرقہ وارانہ کارڈ کھیلتے ہیں اور کھل کر مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہیں، مسلمانوں کے مکانوں پر بلڈوزر چلوا کر انہوں نے اپنی امیج بلڈوزر بابا کی بنا لی اور یہ ان کا برا نڈ بھی بن گیا، اترپردیش سے باہر بھی یہ برانڈ سنگھی ہندوؤں میں اتنا مقبول ہوا کہ دوسری ریاستوں کے بی جے پی کے وزراے ا علیٰ بھی اس کی ہی نہیں بلکہ کھلے عام فرقہ وارانہ کارڈ کھیلنے، جانبداری کرنے، لمپٹ کٹر ہندو نوجوا نوں کو کھل کر مسلمانوں سے دشمنی نکالنے کی چھوٹ دینے کی تقلید کرنے لگے۔آج بی جے پی کی سرکار والی ریاستوں میں مسلمانوں کی جان و مال، عزت و آبرو کچھ بھی محفوظ نہیں ہے، بقول ممبرپارلیمنٹ عمران مسعود: مسلمان گھر میں رہے تو سنگھی لمپٹ مار دیتے ہیں اور گھر سے باہر نکلے تو پولیس مار دیتی ہے۔‘مسجد یں، درگاہیں، خانقاہیں، مدرسے، وقف کی املاک کچھ بھی محفوظ نہیں ہے، کہیں بھی، کبھی بھی مسلمانوں کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے اورپولیس الٹے انہی کو ملزم بنا کر جیل میں ٹھونس سکتی ہے۔ نازی جرمنی میں یہودیوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا تھا وہ سب آج ہندوستان میں ان ریاستوں میں ہو رہاہے جہاں بی جے پی کی حکومتیں ہیں۔ در اصل آر ایس ایس کے ڈاکٹر منجے، ہٹلر اور اس کی یہودیوں کی نسلی تطہیر اور مسولینی کی نوجوانون کو لمپٹ بنانے کی پالیسی سے بہت متاثر تھے، انہوں نے اسپین سے مسلمانوں کے انخلا کی تاریخ کو بھی بہت دلچسپی سے پڑھا تھا۔ پہلی گول میز کانفرنس میں شرکت کے بعد سے جرمنی جا کر وہ ہٹلر سے مل کر اس سے کچھ سیکھنا چاہتے تھے مگر یہ ملاقات نہیں ہو سکی مگر اٹلی جا کر انہوںنے مسولینی سے ملاقات کرکے کافی کچھ سیکھا اور پھر ہندوستان واپس آ کر نازی پارٹی اور فاشسٹ پارٹی کا معجون مرکب آر ایس ایس کی داغ بیل ڈالی۔

ہندوستان میں گزشتہ دس برسوں میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس سے عالمی برادری میں گوتم، گاندھی، نہرو کے ہندوستان کی جو امیج بنی تھی اور جو آج بھی ہندوستان کی شناخت ہے، اس کو گہرا دھچکہ لگا ہے۔امریکی وزارت خارجہ کی دیگر ملکوں میں مذہبی آزادی پر نظر رکھنے والی کمیٹی نے ہندوستان کے حالات اور اقلیتوں کے ساتھ سلوک پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے اس پر مسلسل نگرانی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ جمہوریت، مذہبی اور شخصی آزادی، میڈیا کی آزادی وغیرہ میں ہندوستان کی عالمی رینکنگ نچلی ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، یہاں تک کی جینوسائڈ واچ نام کی تنظیم نے چار پانچ سال پہلے آگاہ کردیا تھا کہ دنیا میں نسل کشی کے جو دس مراحل ہوتے ہیں، ہندوستان ان میں سے 8مراحل پا ر کر چکا ہے۔مگر ان سب سے بے فکر بی جے پی کے لیڈران سیاسی فائدہ کے لیے آئین ہند ہی نہیں بلکہ خود ہندو مذہب کی شاندار روایت کو پامال کر رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آر ایس ایس جس مذہب کی پیروی کروا رہا ہے، وہ ہندو مذہب ہے ہی نہیں، اسی فرق کو راہل گاندھی بار بار اجاگر بھی کر رہے ہیں کہ سنگھ پریوار کے ہندوتو سے اصل ہندو مذہب کا کوئی تعلق نہیں ہے۔کٹر ہندو فرقہ پرست عناصر خو شیوں اور رنگوں کے تہوار ہولی پر مسجدوں کو ترپالوں سے ڈھک کر بھلے ہی خوشیاں منا لیں، بھلے ہی وہ یہ سوچ کر خوش ہوں کہ انہوں نے مسلمانوں کو ایک اور ذہنی اذیت پہنچا دی، ان کو ہندوؤں کے سامنے سر جھکا نے پر مجبور کر دیا، اپنے پیروں پر ان کی ناک رگڑوا دی لیکن دراصل انہوں نے اصل ہندو مذہب اور ہندوستان میں کثرت میں وحدت کی شاندار روایت کو سر بازار رسوا کیا ہے، تاریخ ان کے اس جرم کو کبھی معاف نہیں کرے گی، انہوں نے ہمیشہ کے لیے اپنی گردنوں میں ذلت کا طوق ڈال لیا ہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS