ہولی اور جمعہ:ہندوستان میں مذہبی ہم آہنگی یا تعصب پرستی؟: عبدالماجد نظامی

0
Holi and Friday: Religious Harmony or Bigotry in India

عبدالماجد نظامی

ہندوستان ایک جمہوری اور سیکولر ملک ہے، جہاں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ آئین ہند ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے، عبادات بجا لانے اور اپنی ثقافت کو برقرار رکھنے کی مکمل آزادی دیتا ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں جب رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں ہندوؤں کا اہم تہوار ہولی آ پڑا اور وہ بھی جمعہ کے دن تو بعض حکومتی اور پولیس حکام کی طرف سے ایسے بیانات سامنے آئے جو ملک کی سیکولر شناخت اور مذہبی ہم آہنگی کے اصولوں کے خلاف تھے۔

ایک پولیس افسر نے مسلمانوں کو گھروں میں جمعہ کی نماز ادا کرنے کا مشورہ دیا، جس کی حمایت خود اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی کی۔ دوسری طرف، کچھ مسلم علما نے وقت میں معمولی تبدیلی کی تجویز دی اور مسجدوں پر ترپال ڈالنے کا عمل شروع کیا تاکہ ہولی کے رنگ مسجدوں کی حرمت کو نقصان نہ پہنچائیں۔ یہ اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ موجودہ حکومت اور انتظامیہ اقلیتوں کو برابر کا شہری تصور کرنے کے بجائے ان پر غیر ضروری پابندیاں عائد کر رہی ہے۔

پولیس کا بنیادی کام شہریوں کے جان و مال اور ان کے مذہبی و ثقافتی حقوق کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔ لیکن جب خود پولیس افسران تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی خاص طبقے پر عبادات کی پابندی لگانے لگیں تو یہ سیکولرازم اور جمہوریت کے لیے ایک خطرناک علامت ہے۔اگر ہولی ایک مذہبی تہوار ہے اور اس کے لیے سڑکوں پر جشن منانے کی مکمل آزادی دی جا رہی ہے تو پھر جمعہ کی نماز، جو مسلمانوں کے لیے ایک اہم فریضہ ہے، اس پر قدغن کیوں لگائی جا رہی ہے؟ کیا پولیس اور حکومت کا کام یہ نہیں کہ وہ دونوں طبقات کے لیے ایسے انتظامات کریں جن سے دونوں اپنے اپنے مذہبی فرائض آزادانہ طور پر انجام دے سکیں؟ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا پولیس افسر کے بیان کی حمایت کرنا ظاہر کرتا ہے کہ ان کی حکومت کا جھکاؤ صرف اکثریتی طبقے کی جانب ہے۔ اگر وہ واقعی ایک منصفانہ اور غیر جانبدار وزیراعلیٰ ہوتے تو وہ مسلمانوں کے مذہبی حقوق کے تحفظ کو بھی یقینی بناتے۔ لیکن بدقسمتی سے بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کی سیاست ہمیشہ سے فرقہ وارانہ خطوط پر استوار رہی ہے اور یہ حکومت ہندو اکثریت کے جذبات کو خوش کرنے کے لیے اقلیتوں کے حقوق کو کچلنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی۔

یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر اس طرح قدغن لگانے کی کوشش کی گئی ہو۔اس سے پہلے اذان پر پابندی کی کوششیں ہوئیں، کئی بی جے پی حکمراں ریاستوں میں لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینے کے خلاف مہم چلائی گئی، حالانکہ مندروں کے بھجن اور گھنٹیوں کے شور پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا۔حجاب تنازع کھڑا کیا گیا، کرناٹک میں حجاب پر پابندی عائد کی گئی، جبکہ بھگوا شال پہننے کی کھلی چھوٹ دی گئی۔بلڈوزر سیاست کو ہوا دی گئی، کئی مسلم بستیوں اور دکانوں کو حکومت نے بغیر کسی قانونی نوٹس کے مسمار کر دیا، جبکہ ہندو دنگائیوں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔

یہ تمام اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ بی جے پی سرکار صرف اکثریتی طبقے کو خوش کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اقلیتوں کے حقوق کی انہیں کوئی پروا نہیں۔اب سوال یہ ہے کہ مسجدوں پر ترپال ڈالنا مسئلے کا حل ہے یا یہ علامتی شکست ہے۔مسجدوں پر ترپال ڈالنا اس بات کا اشارہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے مذہبی مقامات کے تحفظ کے لیے خود ہی اقدامات کرنے پڑ رہے ہیں، کیونکہ حکومت اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔یہ اس بات کی علامت بھی ہے کہ بھارت میں اکثریتی طبقے کی شدت پسندی کو روکنے کے بجائے اقلیتوں کو خود ہی اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے سمجھوتے کرنے پڑ رہے ہیں۔ اگر واقعی حکومت سیکولر اور غیر جانبدار ہوتی تو وہ یہ یقینی بناتی کہ کسی مذہبی مقام پر حملہ نہ ہو اور اقلیتوں کو تحفظ دیا جائے۔ لیکن یہاں حکومت کی ترجیح یہ نظر آتی ہے کہ وہ اکثریتی طبقے کے جذبات کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھائے۔

اس مسئلے کا بہترین حل یہ تھا کہ حکومت اور مقامی انتظامیہ دونوں طبقات کے مذہبی جذبات کو مدنظر رکھ کر ایک متوازن حکمت عملی اختیار کرتیں۔ مثال کے طور پرہولی کے جلوسوں کے مخصوص راستے طے کرتیں، اگر ہولی کے جلوس مخصوص راستوں پر رکھے جاتے، جہاں سے وہ مسجدوں یا مسلمانوں کی بستیوں کے قریب سے نہ گزرتے تو کسی تنازع کی نوبت نہ آتی۔جمعہ کی نماز کے دوران سیکورٹی بڑھائی جاتی، حکومت اگر واقعی سیکولر ہوتی تو وہ نمازِ جمعہ کے وقت سیکورٹی میں اضافہ کرتی تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کو روکا جا سکے، نہ کہ مسلمانوں پر پابندی لگاتیں۔ عوامی آگاہی مہم چلاتیں، حکومت، میڈیا اور سماجی تنظیموں کے ذریعے امن و ہم آہنگی کا پیغام پھیلایا جاتا تاکہ عوام ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے۔

ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ہندوستان کی اصل طاقت اس کی مذہبی اور ثقافتی تنوع ہے، لیکن موجودہ حکومت نے اس تنوع کو ایک کمزوری بنا دیا ہے۔ اکثریتی طبقے کو اقلیتوں کے خلاف بھڑکانا، نفرت کی سیاست کو ہوا دینا اور اقلیتوں کے مذہبی حقوق کو محدود کرنا کسی بھی جمہوری ملک کے لیے خطرناک رجحان ہے۔
اگر بھارت کو واقعی عالمی سطح پر ایک عظیم ملک بننا ہے تو سب سے پہلے اسے اپنے اندرونی حالات کو بہتر بنانا ہوگا۔

مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی پالیسی سے نہ بھارت ترقی کر سکتا ہے، نہ ہی یہ حکمت عملی دیرپا ثابت ہوگی۔
اقلیتوں کے مذہبی جذبات کو کچلنے سے وقتی طور پر ایک سیاسی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے، لیکن اس کا نتیجہ ہمیشہ منفی نکلے گا۔
بی جے پی حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ملک صرف اکثریتی طبقے کا نہیں، بلکہ ہر مذہب، ہر ذات اور ہر طبقے کا ہے۔
اگر ہندوستان کو واقعی ایک عظیم قوم بننا ہے تو اسے سب کے لیے مساوی حقوق، آزادی اور تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا۔ ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی ملک میں مذہبی تعصب کو بڑھاوا دیا گیا تو اس کا زوال ناگزیر ہو گیا۔

(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
editor.nizami@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS