شاہد زبیری
اب جبکہ سنبھل مسجد کے تنازع پر ذیلی عدالت کی کارروائی پر سپریم کورٹ نے روک لگادی ہے اور ذیلی عدالتوں کو بھی تاکید کی ہے کہ وہ اس معاملہ میں کوئی بھی کارروائی نہ کریں جب تک ہائی کورٹ سے کوئی واضح ہدایت نہ ملے ۔یہ روک عارضی راحت ہے لیکن یہ معاشرہ میں دیر پا فرقہ وارانہ ہم آہنگی، امن ، سکون ،چین اور راحت کی ضمانت نہیں ہے۔ ا س لئے کہ سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر جوڑ 1991کے عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ کی بابت اپنے فیصلہ سے فتنہ کے جوبیج بو گئے ہیں اس کے خطرناک نتائج ایک کے بعد ایک سامنے آرہے ہیں سنبھل اور اجمیر کی درگاہ کے بعد اب اجمیر کا ڈھائی دن کا جھونپڑا اور بدایوں کی جامع مسجد کا بھی پٹارہ کھل گیا ہے ۔ کہا جاسکتا ہے کہ اس لیے ایسا جب تک سپریم کورٹ چندر چوڑ کے مذموم فیصلہ کی غلطی کا ازالہ نہیں کرے گا اوراس فیصلہ کو نہیں پلٹے گا تب تک یہ فتنہ سر اٹھاتا رہے گا۔چندر چوڑ کے گیان واپی مسجد کے سروے کرائے جا نے کے فیصلہ سے1991کے عبادت گاہوں کا پارلیمنٹ کاقانون بے معنی اور بے اثر ہو گیا ہے۔
سروے کا حکم گیانواپی مسجد معاملہ میں ذیلی عدالت کے جج مہیش شرما نے دیا تھا جس کے خلاف مسلمان سپریم کورٹ گئے تھے اور اس وقت کے لائق فائق چیف جسٹس ڈی وائی چندر جوڑ نے نہ صرف سروے کے حکم پر اپنی مہر لگادی دی تھی بلکہ یہ فرمان بھی سنادیا تھا کہ1991کا ایکٹ کسی عبادت گاہ کے سروے سے نہیں روکتا پھر۔1991کے تاریخ سازقانون کی منشاء اور مقصد کو سبو تاژ کرنے والے چندر جوڑ کے فیصلہ کے بعد جیسا ہو نا چاہئے تھا وہی ہو رہا ہے ۔اب اور نہ جا نے کتنے سنبھل بننے والے ہیں کون جانے سرکاری مشینری سرکاری آقائوں کے اشاروں پر کتنے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتاردے اور جیتی جاگتی بستیوں کو قبرستانوں، شمشانوں اور زندانوں میں تبدیل کردے چونکہ سابق چیف جسٹس چندر جوڑ اپنے فیصلہ سے پورے ملک میں نفرت کی بارودی سرنگیں بچھا گئے ہیں۔معلوم نہیں انہوں نے ہندوستان جنت نشان کو جہنم بنا نے کیلئے یہ حرکت کس عہدے اور منصب کیلئے کی ہے یا کس کے دبائو میں کی ہے لیکن تاریخ اس کیلئے ان کو کبھی معاف نہیں کرے گی ۔ سروے کے فیصلہ نے نفرت کی جو بارود ی سرنگیں بچھائی ہیں اس کے دھما کے شروع ہو گئے ہیں بنارس ، کاشی اور اب سنبھل کی شاہی مسجد سے اجمیر کی درگاہ اور ڈھائی دن کے جھونپڑے سے بدایوں کی جامع مسجد تک ان دھماکوں کی گونج صاف سنائی دے رہی ہے ۔سپریم کورٹ کے حالیہ روک سے سنبھل کی ضلع انتظامیہ اور پولیس کے اس دعوے کی قلعی تو کھل ہی گئی کہ ذیلی عدالت کو یہ اختیار ہے کہ وہ ایسے معاملہ میں دوسرے فریق کو سنے بغیر بھی آڈر دے سکتی ہے ۔ آزاد میڈیا رپورٹ کے مطابق 5 مسلم نوجوانوں کی ہلاکت کے بعد بھی پولیس کے انتقام کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی ہے بڑی تعداد میں مسلمان مردوں سمیت پردہ نشین خواتین تک کو گرفتارکیا جا چکا ہے۔جو غریب مسلمان لاٹھی اور گولی سے زخمی ہوئے ہیں اور سنبھل کے ضلع کے سرکاری اسپتال میں داخل ہیں پولیس پر الزام ہے کہ وہ ان زخمیوں پر بھی دبائو بنا رہی ہے کہ وہ 15-20 ایسے آدمیوں کے نام بتائیں جن کو وہ جا نتے ہیں ۔تشدد کے دوران جو لوگ اپنی جان بچا کر گلیوں سے بھاگے ان کو پکڑنے کیلئے پولیس کے جوانوں نے حسب عادت مسلم گھروں پر جو قہر ڈھایا ہے جس طرح غریب اور مزدوروں کے گھروں کے دروازوں کی توڑپھو ڑ کی ہے، چوکھٹیں اکھاڑی ہے،گھروں کے سامان کو تہس نہس کیا ہے، گھروں میں موجود لڑکیوں کے ساتھ بدسلوکی گندی گندی گالیوں کے ذریعہ دبائو بنائے ہیں وہ آزاد میڈیا کے ریکارڈ پر آگئے ہیں۔ یوگی حکومت اپنے ان گناہوں کو چھپانے کیلئے ہی تو اپوزیشن لیڈروں کو سنبھل نہیں جا نے دے رہی ہے ۔ زیادہ دن نہیں گزرے ابھی گزشتہ ماہ اکتوبر میںبہرائچ میں پولس کی موجودگی میں غنڈوں نے مسلم گھروں میں گھس کر مار پیٹ کی ، مکانوں دکانو ں کو جلا یا وہاں پولیس نے نہ لاٹھی چارج کیا اور نہ ہی گولی چلائی جبکہ یوپی کی بدنامِ زمانہ پولیس سنبھل میں پورا قہر بر پاکر رہی ہے آخر انصاف کا یہ دوہرا معیار کیوں؟کانگریس کے ایم پی عمران مسعود نے بہرائچ اور سنبھل کے فساد کی مثال دیتے ہوئے غلط نہیں کہا کہ مسلمان گھر میں رہے تو فسادی گھروں میں گھس کر مار تے ہیں سڑکوں پر آئے توپولیس نہیں چھوڑتی۔ انہوں نے صاف کہا کہ جو پانچ مسلم نوجوان مارے گئے وہ طمنچہ کی گولی سے نہیں ایس ایل آر کی گولی سے ہلاک کئے گئے، کیونکہ طمنچہ کی گولی آر پار نہیں ہوتی ایس ایل آر کی گولی پار نکل جاتی ہے ۔اب یہی کھیل خواجہ کی نگری اجمیرمیں اور بدایوں میںکھیلے جا نے کی سازش رچی گئی ہے ۔کیا اس کوThe Places Of Worship Act 1991 کی خامی مانیں جو کانگریس سرکار نے جان بوجھ کر چھوڑ دی ہے جس کی بنیاد اس پورے قانون کی دھجیاں اُڑائی جا رہی ہیں یا اس کیلئے چندر چوڑ کی ڈور کہیں اور سے ہلائی گئی تھی کہ انہوں نے بنارس کی گیانواپی مسجد کے سروے کی اجازت ذیلی عدالت کو دے دی اور سروے پر روک نہیں لگائی اس لئے کہ اس معاملہ میںکانگریس سرکار کی نیت پر تو جلدی سے سوال کھڑا نہیں کیا جاسکتا اگر نیت صحیح نہ ہوتی تو ایسا ایکٹ پاس ہی سرکار کیوں کرتی اور کیوں عدالتوں کو اس ایکٹ کے ذریعہ اس بات کا پابند بناتی کہ1947کے وقت جو عبادت گاہ جیسی تھی اس کو ویسا ہی مانا جا ئیگا بابری مسجد کے استثنیٰ کے ساتھ اور کوئی عدالت کسی ایسے کیس کی سماعت نہیں کرے گی جس سے ایکٹ کی خلاف ورزی ہو اور اس ایکٹ سے پہلے جو ایسے کیس عبادت گاہوں سے متعلق عدالتوں میں زیر سماعت ہیں ان پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے پابندی کی مہر لگا دی تھی۔ آخر ایسی کیا ضرورت آن پڑی تھی کہ یہ دیکھا جا ئے کس مسجد یامندر یا کسی دوسری عبادت گاہ کے نیچے کیا ہے اور اگر یہ معلوم بھی ہو جائے تو ایکٹ کی رو سے اس عبادت گاہ کا جو مقصد اس کی جو شناخت جو شکل صورت 1947کے وقت تھی وہ تبدیل تو نہیں کی جا سکتی ہے ۔ پھر کیوں چندر چوڑ نے گڑے مردے اکھاڑنے کیلئے ملک کی صدیوں پرانی مذہبی روا دارای کی روشن روایات ،فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور خیر سگالی کے جذ بات اور باہمی اخوت اوریگا نگت کی وراثت پر تیشہ چلائے جا نے کی اجازت دیدی ؟ کیاآکسفورڈ میں قانون کی تعلیم حاصل کر نے والے چندر چوڑ نہیں جانتے تھے کہ یہ پتہ لگنے کے بعد کہ مسجد کے نیچے مندر کے باقیات ہیں یا مندر کے نیچے بودھ مٹھ کے نشانات اور علامات ہیںملک پر اس کے کیا اثرات پڑیں گے کیا ان کو نہیں معلوم تھا کہ جب یہ پتہ چلے گا کہ فلاں مسجد کے نیچے مندر کے باقیات ہیں کیا اس کے بعدفسطائی طاقتیں خاموش بیٹھیں گی اور اقتدار کیلئے اس کا سیا سی استعمال نہیں کریں گی جیسا کہ وہ کرتی ہی ہیں۔
چندر چوڑ کو سب معلوم تھا انہوں نے مودی سرکار کے حق میں ایک سے زائد ایسے فیصلے دیے ہیں جو باشعور حلقوں کی نظر میں قابل تنقید اور قابل ملا مت ہیں، قانونداں بھی چندرچوڑ کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرر ہے ان فیصلوں میںسب سے زیادہ خطرناک فیصلہ اگر ہے تو وہ 1991کے عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ کو بے معنی اور بے اثر کر نے والا مساجد کے سروے کی اجازت دیے جا نے کا فیصلہ ہے جس نے اس نئے فتنہ کو جنم دیا ہے جس کے ثمرات سامنے آرہے ہیں جس کا براہ ست فائدہ مودی حکومت کو پہنچ رہا ہے اور مودی حکومت کی شہہ پا کر ہی نت نئے ناموں سے ہندو فسطائی طاقتیں ملک بھر میں فرقہ پرستی اور جارحیت کا ننگا ناچ کھیل رہی ہیں اب اڈانی کو جاری امریکی کریمنل کورٹ کا نوٹس ہو یا ریزرویشن یاکا سٹ کی بنیاد پر مردم شماری کا معاملہ یا مہاراشٹر اسمبلی کے انتخابات اور یوپی کے ضمنی انتخاب میں پولیس کا سیاسی استعمال ان پر بحث کی بجا ئے مساجد کے نیچے مندر کھوجنے پر بحث جاری ہے جس کا دروازہ چندر چوڑ صاحب کھول گئے ہیں ۔ سول سو سائٹی بھی خاموش ہے۔ سول سوسائٹی کے ایک حلقہ کے دانشوروں کو اب بھی وزیر اعظم نریندر مودی سے امیدیں ہیں جس نے ملاقات کیلئے وقت مانگا ہے ان میں وہ مسلم دانشور بھی شامل ہیںجنہوں نے سنگھ کے موہن بھاگوت سے بھی ایسی ہی امیدیں باندھی تھیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ کیکر کے درخت سے کبھی شہد نہیں ٹپکتا ۔ بہر کیف 1991کے ایکٹ اور ہندوستانی سماج کو چندر چوڑ کے فتنہ سے ہو نے والے نقصانات سے کیسے بچایا جا ئے سوال یہ ہے ؟ بقول فیض احمد فیض :
بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں