ڈاکٹر محمد وسیم
فلسطین ایک ایسی جگہ ہے جسے ہمیشہ سے عالمی توجہ حاصل رہی ہے۔یہاں مسجداقصیٰ موجود ہے،جسے بیت المقدس اور یروشلم بھی کہتے ہیں۔مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ یہ دونوں مساجد ایسی ہیں جن کے باقاعدہ نام قرآن پاک کی سورۂ بنی اِسرائیل آیت نمبرایک میں ایک ساتھ آئے ہیں۔ مسجد اقصیٰ میں حضرت محمدمصطفیؐ نے تمام انبیائے کرام کی امامت بھی فرمائی تھی،اسی لیے دنیا کے تمام مسلمانوں کے لیے یہ جگہ مقدس اور انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔یہ سرزمین تین بڑے مذاہب کے ماننے والوں یعنی مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے اہم ہے۔جب دنیا کے مختلف ممالک میں یہودیوں پر ظلم و ستم کیے گئے تو یہودیوں نے اس جانب سفر کیا اور فلسطین کے مسلمانوں نے انسانیت کی بنیاد پر یہودیوں کو پناہ دی،لیکن آہستہ آہستہ یہودی اس سرزمین پر ہی قابض ہوگئے۔عالمی طاقتوں کی بدولت اسرائیل دن بہ دن مضبوط ہوتا گیا،جب اُسے اپنی طاقت اور عالمی حمایت کا یقین ہوگیا تو اس نے عرب کی سرزمین پر ایک یہودی ریاست کا اعلان کر دیا، جسے اقوامِ متحدہ میں منظور کر لیا گیا۔اس طرح14مئی1948کو اسرائیل کو باقاعدہ ایک ملک تسلیم کر لیا گیا۔برطانیہ کی کئی ملکوں میں حکومت تھی،اس وقت برطانیہ نے فلسطینی سرزمین سے اپنی فوجیں واپس بلا لیں اور برطانیہ نے بھی اسرائیل کی آزاد ریاست کا اعلان کردیا،جب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسرائیل کی مخالفت کی جاتی یا آخر میں اسرائیل کے ساتھ فلسطین کے نام سے بھی ریاست قائم کر دی جاتی،لیکن ایسا نہیں ہوا۔عرب ملکوں نے اس تقسیم اور اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ مصر، اُردن، شام، عراق، لبنان اور سعودی عرب نے اسرائیل پر1948 میں حملہ کر دیا۔اسرائیل سے عربوں نے چار جنگیں کیں،لیکن اُنہیں کامیابی نہیں ملی۔امریکہ و دیگر بعض ممالک نے اسرائیل کی مکمل حمایت کی تھی۔اسرائیل مسلسل فلسطینی مسلمانوں کے خلاف ظلم کر رہا ہے اور قبضے کر کے مسلسل یہودی بستیوں کی تعمیر کر رہا ہے۔مسلم ملکوں میں ترکیہ وہ پہلا مسلم ملک تھا جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا،اس کے اسرائیل سے آج بھی اچھے تعلقات قائم ہیں۔اب کئی ایسے مسلم ممالک ہیں، جنہوں نے اسرائیل سے تعلقات قائم کر لیے ہیں۔امریکہ نے کئی بار کوشش کی ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان بات چیت ہو اور تعلقات قائم ہوں،لیکن امریکہ اب تک اس سلسلے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔سعودی عرب نے صاف طور سے یہ کہا ہے کہ اسرائیل سے بات چیت اور تعلقات تبھی قائم ہوں گے جب فلسطین کو مکمل ریاست کا درجہ دیا جائے اور یہودیوں کی بستیوں کو آباد کرنے سے روکا جائے۔سعودی عرب کی فلسطینیوں کی خاطر اسرائیل سے کھلم کھلا دشمنی ہے۔فلسطین کے لیے سعودی بادشاہوں کی بے شمار قربانیاں ہیں۔سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ معاملات قائم کرنے میں فلسطین کے مسئلے کو حل کیا جانا اہم ہے۔سعودی عرب مسلم ممالک میں سرِفہرست ہے جو فلسطینیوں کو نہ صرف اخلاقی،سیاسی بلکہ معاشی تعاون بھی دیتا رہا ہے۔سعودی عرب نے2016 میں اقوامِ متحدہ کی ایجنسی برائے راحت رسانی(فلسطین)کے تحت فلسطینیوں کو148ملین ڈالر کی مدد کی تھی۔عالمی سطح پر بھی تعاون کرنے میں سعودی عرب اس سلسلے میں آگے ہے۔سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے2016 میں جہاں ایک طرف پوری دنیا سے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کو شاہی خرچ پر حج کے لیے مدعو کیا تھاتو وہیں فلسطین سے بھی ایک ہزار عام فلسطینیوں کو شاہی خرچ پر مدعو کیا تھا۔یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور سال2023 میں بھی سعودی حکومت کی طرف سے سیکڑوں فلسطینی مرد و خواتین کو حج کے لیے شاہی خرچ پر بلایا گیا تھا۔ سعودی حکمرانوں کی اہلِ فلسطین سے تاریخی محبت و ہمدردی رہی ہے۔سعودی عرب کے سابق شاہ فیصل نے فلسطین کا ساتھ دیتے ہوئے اسرائیل کی مدد کرنے والے امریکہ کو تیل سپلائی بند کر دی تھی۔سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات پر بات چیت جاری تھی،زمینی حالات کا جائزہ لینے کے لیے سعودی حکومت کی طرف سے ایک وفد فلسطین بھی گیا تھا،محمد بن سلمان اس مسئلے میں بعض شرائط کے ساتھ دلچسپی لے رہے تھے،لیکن7اکتوبر2023کو جب اسرائیل پر حماس نے حملہ کیا اور جوابی کارروائی میں اسرائیل نے فلسطینی شہریوں کو نشانہ بنایا اور مظالم کی انتہا کر دی تو سعودی عرب نے اسرائیل سے بات چیت معطل کرنے کا بیان جاری کیا۔عرب ممالک میں اُردن، عُمان اور بحرین نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کرلیے ہیں۔گزشتہ تین مہینے سے زائد اسرائیلی فوج کی طرف سے غزہ پر حملے جاری ہیں،اسرائیلی فوج کے حملے سے شمالی غزہ میں اب تک25 ہزار سے زائد مسلمان مارے جاچکے ہیں، غزہ کی 23لاکھ کی آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔مصر،اُردن اور سعودی عرب وغیرہ ممالک کی طرف سے جنگ بندی کے لیے تیزی سے کوششیں جاری ہیں۔عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کا اجلاس قاہرہ میں11؍اکتوبر کو اور او آئی سی کا اجلاس 18اکتوبر کو جدہ میں ہوا تھا،جس میں اسرائیلی مظالم کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی تھی۔سعودی عرب کی راجدھانی ریاض میں جی سی سی اور آسیان کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا کہ غزہ میں بڑھتے ہوئے تشدد سے ہم غمگین اور تکلیف میں ہیں۔غزہ کے مسلمانوں کی مدد کے لیے خلیجی ممالک یعنی سعودی عرب، کویت، یو اے اِی، قطر، بحرین اور عمان نے100ملین ڈالرز کی اِمدادی رقم دینے کا اعلان کیا۔غزہ پر اسرائیلی مظالم کی وجہ سے اسرائیل سے بات چیت اور معاہدے کی امید نظر نہیں آ رہی ہے،البتہ جنگ بندی کے بعد اور مستقبل میں بات چیت اور معاہدے کے سلسلے میں بات آگے بڑھتی ہے تو ولی عہد محمد بن سلمان کو سعودی عوام کو بھی مطمئن کرنا پڑے گا،جو تاریخی طور پر اسرائیل کے مخالف ہیں اور فلسطینیوں سے گہری محبت و ہمدردی رکھتے ہیں۔4 لاکھ فلسطینی مسلمانوں کو سعودی عرب نے اپنے ملک میں پناہ دے رکھی ہے۔محمد بن سلمان نے سعودی عرب کی ترقی کے لیے وژن-2030 پیش کیا ہے۔اِس وژن پر عالمی میڈیا میں تجزیے کیے جا رہے ہیں، مختلف خبروں اور تجزیوں کے مطابق محمد بن سلمان نے جو وژن-2030کو ترتیب دے کر پیش کیا ہے،اس میں مسئلۂ فلسطین کا حل بھی شامل ہے۔ اس وژن-2030 کے تحت پورے ملک میں ہر شعبہ میں بڑی تیزی سے کام ہورہا ہے۔ محمد بن سلمان کی زیرصدارت کابینہ کا ایک اجلاس سعودی عرب میں27ستمبر-2023 کو ہوا تھا،جس میں صاف طور سے کہا گیا تھا کہ اسرائیل کو 4جون1967کی حدود میں جانے کا عہد کرنا ہوگا، یعنی اسرائیل کے ذریعے کئی جگہوں پر کیے گئے قبضے کو چھوڑنا ہوگا۔مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم کرنے کے لیے سعودی عرب نے2002 میں ایک اہم تجویز پیش کی تھی،اس تجویز کی عرب لیگ،یوروپی یونین اور امریکہ نے بھی توثیق اور حمایت کی تھی،تجویز میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو مکمل طور پر خالی کر دے،مہاجر فلسطینیوں کو گھر واپسی کا حق دے اور فلسطین کو ایک آزاد اور خود مختار ریاست کا درجہ دے،جس کا دارالحکومت مشرقی بیتُ المقدس ہو۔ اِس مطالبے کی حمایت دنیا کے کئی ممالک نے کی ہے۔ سعودی عرب کے وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے 16جنوری 2024 کو ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کے پینل سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایک مضبوط اور مکمل معاہدہ طے پا جائے جس میں فلسطینیوں کے لیے ریاست کا درجہ شامل ہو تو اِس بنیاد پر سعودی عرب اپنی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کر سکتا ہے،فلسطینی ریاست کے ذریعے ہی فلسطینیوں کے لیے امن قائم ہو سکتا ہے۔مشرقِ وسطیٰ میں اَمن تبھی قائم ہوگا جب فلسطین کے مسئلے کو حل کیا جائے گا۔سعودی عرب کی فلسطینی مسلمانوں کے لیے بے شمار تاریخی خدمات ہیں، اُن خدمات کا مقصد ہے کہ فلسطینیوں کو بھی عزت و وَقار کی زندگی نصیب ہو۔سعودی عرب اب بھی اپنے پُرانے اور مضبوط موقف پر قائم ہے۔ سعودی عرب کے کئی اہم مطالبات ہیں،اُن مطالبات کا واحد مقصد یہی ہے کہ فلسطینی عوام کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے، تاکہ فلسطینی مسلمان عزت،امن،سکون اور خوشی کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔
[email protected]