محمد محتشم مصباحی
(گذشتہ سے پیوستہ )
یہ رپورٹ اپنی نوعیت کی پہلی ایک ایسی رپورٹ تھی جس میں ہندوستانی مسلمانوں کی “پسماندگی” (ایک اصطلاح جو ہندوستانی تعلیمی اور قانونی گفتگو میں تاریخی طور پر بے دخل یا معاشی طور پر کمزور برادریوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جس کا مطلب توہین آمیز نہیں ہے) کو ظاہر کیا گیا تھا۔
ایک اور مسئلہ جس پر بڑی شدت سے روشنی ڈالی گئی کہ مسلمانوں کی کل آبادی ہندوستان میں 14 فی صد ہیں لیکن افسوس کہ ان کی شراکت داری ہندوستانی( bureaucracy )حکومت کا ایک ایسا نظام جس میں زیادہ تر اہم فیصلے منتخب نمائندوں کے بجاے ریاستی حکام کرتے ہیں) میں صرف 2.5 فی صد ہی ہیں۔سچر کمیٹی نے اپنی اس رپورٹ میں یہاں تک ذکر کر دیا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی موجودہ صورتِ حال SC اور ST سے بھی بری ہے اور ان کی حالت کو تھوڑا بہت بہتر بنانے میں سالوں سال لگ جائیں گے بشرطِ کہ تعصب و عناد سے پرے ہو کر ان کی تعمیر و ترقی کے لیے کام کیا جائے ورنہ ان کی حالت دن بہ دن اور بھی خراب ہوتی چلی جائے گی۔
سچر کمیٹی کی اس رپورٹ نے ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ برتے جانے والےعدمِ مساوات کے مسئلے کو پوری قوم کے سامنے من و عن لا کھڑا کر دیا، جس نے ایک ایسے بحث کو جنم دیا جو ابھی تک جاری ہے۔ کمیٹی نے امتیازی سلوک کی شکایات کو حل کرنے اور ایک قانونی طریقۂ کار فراہم کرنے کے لیے مساوی مواقع کمیشن کے قیام کی سفارش کی، بشمول رہائش جیسے معاملات میں۔ کمیٹی کے نتائج کے جواب میں، وزیر خزانہ پی چدمبرم نے قومی اقلیتی ترقی اور مالیاتی کارپوریشن (NMDFC) کے بجٹ میں اضافے کی تجویز پیش کی، نئے فرائض اور توسیع شدہ رسائی کا حوالہ دیتے ہوئے جو ادارہ کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد کرے گا۔
طریقۂ کار:سچر کمیٹی نے رپورٹ تیار کرنے کے لیے 2001 کی مردم شماری کا ڈیٹا استعمال کیا۔ بینکنگ ڈیٹا مختلف ذرائع سے موصول ہوئے جیسے کہ Reserve Bank of India وغیرہ۔ قومی کمیشن برائے پسماندہ طبقات جیسے سرکاری کمیشنوں اور تنظیموں سے بھی تصدیقی ڈیٹا حاصل کیا گیا تھا۔ اخیر میں، اس رپورٹ کی تیاری میں وزارتوں، محکموں، پبلک سیکٹروں، یونیورسٹیوں اور کالجوں سمیت دیگر ذرائع سے بھی ڈیٹا حاصل کیا گیا تھا۔
تنقیدی طوفان:نومبر 2013 میں، گجرات حکومت نے سپریم کورٹ کے سامنے دعویٰ کیا کہ راجندر سچر کمیٹی “غیر آئینی” ہے؛ کیونکہ اس نے صرف مسلمانوں کی مدد کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے پرزور انداز میں حکومت کے اس فیصلے پر سخت نکتہ چینی کی جس میں PMO نے 2005 میں مسلمانوں کے سماجی و اقتصادی حالات کا جائزہ لینے کے لیے سچر کمیٹی قائم کی اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو’نظر انداز‘ کر دیا۔ یہ حلف نامہ مرکز کے اس موقف کے جواب میں داخل کیا گیا ہے کہ یہ اسکیم درست ہے اور موجودہ حکومت گجرات میں مسلمانوں کی بگڑتی ہوئی حالت کے لیے ذمہ دار ہے۔
فیلوشپ کا آغاز:مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ کی شروعات 2009 میں ہوئی تھی تاکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبا و طالبات کو پانچ سالوں تک مالی امداد فراہم کی جائے اور وہ ہر قسم کی ذہنی و جسمانی پریشانی سے دور رہ کر تحقیقی میدان میں نمایاں کردار ادا کریں۔لیکن موجودہ حکومت کا اقلیتی طبقوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ کیا خار ہے، کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ ہم حکومتِ ہند خصوصیت کے ساتھ وطنِ عزیز کے وزیر اعظم سے پرخلوص گزارش کرتے ہیں کہ پھر سے مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ کو بحال کریں اور ہماری تحقیق کی راہوں میں در پیش آنے والی رکاوٹوں کو دور کر کے ہمارے لیے آسانی پیدا کریں نہ کہ اعلیٰ تعلیم کے حصول سے ہمیں محروم کر کے ہمارے سنہرے خوابوں کے محل کو زمین دوز کریں۔ ہمیں یقین ہے کہ وزیرِ اعظم اس طرف ضرور توجہ دیں گے اور ہمارے پژمردہ چہروں پہ دوبارہ خوشیوں کی کرنیں بکھیر کر ہندوستانی مسلمانوں کو ببانگِ دہل یہ پیغام دیں گے کہ “سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس” محض ہمارا ایک چناوی جملہ نہیں تھا بلکہ ایک حقیقت تھی جسے ہم عملی جامہ پہنا رہے ہیں اور یہ کہ “میں ہندوستانی مسلمانوں کو اس طرح دیکھنا چاہتا ہوں کہ ان کے ایک ہاتھ میں قرآن ہو تو دوسرے ہاتھ میں لیپ ٹاپ” میرا دردِ دل تھا جو غیر دانستہ دل کے راستے ہوتا زباں پہ آ گیا تھا۔ ll
مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ کے آغاز کا تاریخی پس منظر!!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS