وزیراعظم نریندر مودی نے پیر 12 مئی کی شب رات 8 بجے قوم سے خطاب کرتے ہوئے تقریباً بیس دن کی طویل خاموشی توڑی۔ مگر اس خطاب میں نہ وہ وضاحتیں تھیں جن کی قوم کو شدید ضرورت تھی نہ وہ شفافیت جس کی بین الاقوامی سطح پر توقع کی جا رہی تھی۔ جب ملک ایک جانب سرحدی جھڑپوں، پاکستان کی تازہ حملہ آوری اور دوسری جانب امریکہ و چین کی درپردہ مداخلت جیسے نازک حالات سے دوچار ہو، تب وزیراعظم کی خاموشی خود ایک سوال بن جاتی ہے۔ ایسے میں قوم سے یہ خطاب اس امید کے ساتھ سنا گیا کہ شاید اب ان تمام اندیشوں کا ازالہ ہو مگر خطاب کے اختتام پر مزید ابہام اور تشویش جنم لے چکی تھی۔
6 اور 7 اپریل کو جس ’’آپریشن سندور‘‘ کو عسکری کامیابی قرار دے کر اسے بی جے پی کی انتخابی مہم کا محور بنانے کی کوشش کی گئی وہی آپریشن ہفتہ 11 مئی کی شام جنگ بندی کے مبہم اعلان پر منتج ہوا۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز یہ کہ 12 مئی کو مودی کے خطاب سے قبل امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جنگ بندی کا کریڈٹ لیتے ہوئے کہا کہ یہ ان کی ثالثی کا نتیجہ ہے جبکہ ہندوستان کی دیرینہ خارجہ پالیسی یہ رہی ہے کہ کشمیر یا ہند-پاک تنازع میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت قابل قبول نہیں۔
ایسے میں قوم بجا طور پر یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ اگر ہندوستان نے فیصلہ کن عسکری برتری حاصل کی جیسا کہ مودی جی نے دعویٰ کیا تو پھر اس قدر عجلت میں جنگ بندی پر کیوں آمادہ ہونا پڑا؟ وزیراعظم کے خطاب میں اس کی کوئی ٹھوس وضاحت نہیں دی گئی۔ انہوں نے نہ امریکہ کا نام لیا، نہ ٹرمپ کے بیانات کو رد کیا اور نہ ہی یہ بتایا کہ پاکستان کی حالیہ دراندازیوں کے بعد ہندوستان کی حکمت عملی کیا ہوگی۔
اگرچہ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج جنگ کا وقت نہیں ہے، آج دہشت گردی کا وقت بھی نہیں ہے، مگر جس لہجے میں یہ بات کہی گئی وہ نہ صرف غیر یقینی اور دفاعی تھا بلکہ عالمی برادری کو کوئی مضبوط پیغام دینے میں بھی ناکام رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب دشمن ملک براہ راست حملہ کرے اور اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی طاقتیں تماشائی بنی ہوں تب محض الفاظ کافی نہیں ہوتے تب عمل کی گھنٹی بجنی چاہیے۔
مزید ستم یہ کہ وزیراعظم نے پہلگام میں 22 اپریل کو ہوئے دہشت گردانہ حملے کے باوجود پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانے سے گریز کیا۔ ایک طرف دہشت گردی کو قومی یکجہتی کا امتحان بتایا جا رہا ہے، دوسری طرف عوامی نمائندوں کو اعتماد میں لینے سے احتراز کیا جا رہا ہے۔ یہ طرز عمل جمہوری شفافیت کی نفی ہے۔
بی جے پی داخلی سیاست میں اس فوجی کارروائی کو انتخابی ہتھیار بنانے کی تیاری کر رہی ہے۔ 10 دن کی ترنگا یاترا، بی جے پی کے وزرا کی ہنگامی میٹنگز اور میڈیا پر مسلسل بیانیہ سازی اس بات کا ثبوت ہیں کہ حکومت جنگ جیسے نازک موقع پر بھی قومی مفاد کے بجائے جماعتی مفاد کو فوقیت دینے کی روش سے باز نہیں آئی۔ فوج کی قربانیاں اور عسکری کامیابیاں کسی سیاسی جماعت کا انتخابی اثاثہ نہیں بلکہ پورے ملک کا فخر ہیں اور انہیں ووٹ بٹورنے کے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنا شرمناک سیاسی تنزلی کی علامت ہے۔
ایئر مارشل اے کے بھارتی کا بیان کہ ہم ابھی بھی حالت جنگ میں ہیں، نقصان اس کا ایک حصہ ہے، اگرچہ فوجی نکتہ نظر سے درست ہو سکتا ہے لیکن اس کا سیاسی ترجمہ یہ ہے کہ اصل تصویر ابھی پوری قوم سے چھپائی جا رہی ہے۔ رافیل طیارے کے نقصان، پاکستانی حملوں کی تازگی اور عالمی ثالثی کی موجودگی،‘ ان سب پر خاموشی دراصل عوامی اعتماد کو کمزور کرتی ہے۔
اپنے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ ہندوستان نے میڈ ان انڈیا ہتھیاروں کی کامیابی دیکھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر واقعی ہم نے عسکری محاذ پر سبقت حاصل کی ہے تو پاکستان کی ہٹ دھرمی کیوں ختم نہیں ہو رہی؟ اور اگر سفارتی محاذ پر ہم مضبوط ہوتے تو کیا امریکہ ہمیں تجارتی بندش کی دھمکی دیتا؟ کیا چین پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوتا ؟ کیا ایلون مسک جیسے تجارتی مفاد رکھنے والے افراد پاکستانی بیانیے کی توثیق کرتے؟
وزیر اعظم کے خطاب میں ’’اتحاد ہی سب سے بڑی طاقت ہے‘‘ جیسی خوبصورت باتیں اگرچہ سامعین کو وقتی سکون ضرور دیتی ہیں مگر حقیقت میں ان الفاظ کا وزن تبھی محسوس ہوگا جب سیاسی وابستگیوں سے بلند ہو کر قومی مفاد، سفارتی وقار اور جمہوری صداقت کو اہمیت دی جائے۔ اگر واقعی ہندوستان کو عالمی سطح پر ایک باوقار، خود مختار اور طاقتور ملک کے طور پر کھڑا کرنا ہے تو صرف فوجی قوت نہیں بلکہ سفارتی بلوغت، داخلی یکجہتی اور سیاسی سچائی بھی ناگزیر ہے۔
ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ قومیں صرف بندوق سے نہیں، سچائی، تدبر اور دیانت سے بھی سر بلند ہوتی ہیں۔ اور جب راہبر ہی تذبذب کا شکار ہو جائے تو قافلہ منزل تک نہیں پاتا بلکہ گرداب میں پھنستا چلا جاتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہندوستان محض ہتھیاروں پر ناز کرنے کے بجائے، عقل و حکمت کے ساتھ اپنی سمت کا تعین کرے ورنہ تاریخ کے صفحات پر سفارتی پسپائی کی یہ داستان قوموں کیلئے عبرت بن جائے گی۔