محمد فاروق اعظمی
ہندوستان میں مذہبی اورلسانی اقلیتوں کے ساتھ ظلم وبربریت کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہاہے۔ کہیں چرچ جلائے جارہے ہیں تو کہیں مسجدیں اور درگاہیں مسمار کی جارہی ہیں۔بابری مسجد کی شہادت کاداغ لیے انصاف کی آرزومیں برسوں عدالت کی خاک چھاننے کے بعد مسلمانوں کو انصاف کے نام پرجو ملا، اس سے پوری دنیا واقف ہے۔ اس غم کا بار ابھی ہلکا بھی نہیں ہواتھا کہ بنارس کی گیان واپی مسجد اور کرناٹک کی عید گاہ کا قضیہ عدالت تک جاپہنچا۔ بھارتیہ جنتاپارٹی کی حکمرانی میںتسلسل کے ساتھ ہونے والے یہ واقعات و واردات اقلیتوں خاص کر مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرکے انہیں ہمہ وقت ایک بے نام سی خوف زدگی میں مبتلا کرچکے ہیں۔ ہر آن یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں کوئی انہونی نہ ہوجائے۔ انفرادی سطؑح پر ممکن ہے کہ احساس زیاںمیں وہ شدت نہ ہو لیکن اجتماعی سطح پر عدم تحفظ اور خوف مسلمانوں کو اپنا بھرپور احساس کرارہاہے۔
خبر ہے کہ گجرات کے داہود اسمارٹ سٹی کی انتظامیہ نے صدیوں پرانی ایک مسجد اور تین درگاہیں مسمار کردی ہیں۔ اتوار 21مئی 2023 کو آنے والی اس خبر کے مطابق یہ قدیم مسجد اور درگاہیں شہری سہولتوں کی فراہمی میں رکاوٹ تھیں، اس وجہ سے داہود کی شہری انتظامی نے انہیں منہدم کرڈالا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ داہود شہر مرکزی حکومت کی جانب سے ’ اسمارٹ سٹی‘ بنانے کیلئے منتخب کیا گیا اور داہود اسمارٹ سٹی پروجیکٹ کے نفاذ میںیہ مسجد اور درگاہیں سد راہ تھیں۔ ہر چند کہ مسجد ٹرسٹ کی جانب سے مسجد سے متعلق اراضی کے دستاویزات پیش کیے گئے لیکن وہ کہتے ہیں کہ
بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت
نہیں کام آتی دلیل اور حجت
وہی ہوا،داہو دکی شہری انتظامیہ نے مسجد ٹرسٹ کی جانب سے پیش کیے جانے والے اراضی دستاویزات کو مسترد کردیا۔ ٹرسٹ نے مسجد کا اراضی ریکارڈپیش کرنے کیلئے جمعہ تک کا وقت مانگا تھا۔ انتظامیہ نے یہ درخواست تسلیم بھی کرلی تھی لیکن جمعہ کو پیش کیے جانے والے اراضی ریکارڈ انتظامیہ کے معیار پر پورے نہیں اترے۔ ٹرسٹ نے انتظامیہ کو یہ بتایا کہ مسجد ان کی اراضی کے ایک حصے پر 1926 سے موجود تھی اور زمین خود 1953 میں رجسٹرڈ ہوئی تھی۔لیکن ان کی کوئی دلیل کام نہیں آئی۔
داہود کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس بلرام مینا، جو اسمارٹ سٹی پروجیکٹ کے نفاذ کیلئے ضلعی سطح کے پینل کا حصہ ہیں، کا کہنا ہے کہ ٹرسٹ نے ریکارڈ پیش کیاوہ قابل بھروسہ نہیں تھا۔جمعہ کی شام سب ڈویژنل مجسٹریٹ، تعلقہ افسراور مقامی بلدیہ کے چیف آفیسر کے ساتھ مسجد کے اراکین کے درمیان ایک میٹنگ بھی ہوئی تھی اور کہا جا رہاہے کہ اس میٹنگ کے بعدٹرسٹ کے اراکین نے مسجد اور درگاہوں کو خالی کردیاتھا۔ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس بلرام میناکا دعویٰ ہے کہ انہیں انہدام کی کارروائی میں کہیں سے کوئی رکاوٹ نہیں پیش آئی۔ مسلمان اپنی مسجد اور درگاہ خالی کرچکے تھے، ہمیں احاطہ کے اندر داخل ہونے کی ضرورت ہی نہیں پڑی اور باہر سے ہی عمارت پر بلڈوزر چلادیا گیا۔ موقع پر پولیس اب بھی تعینات ہے مگر کہیں سے کوئی احتجاج، رکاوٹ یا پریشانی نہیں کھڑی ہوئی ہے۔
صبح کی اولین ساعتوں میں داہود شہری انتظامیہ پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ نہایت ’ پرامن طریقہ‘ سے اور ’ خوش اسلوبی‘ کے ساتھ مسجد و درگاہوں کو مسمار کے اپنے فرض سے سبکدوش ہوئی۔ انہدام کی کارروائی صبح 4.30 بجے پولیس کی بھاری نفری کے درمیان شروع ہوئی، تقریباً 450 پولیس اہلکاروں کو صبح 4.30 بجے انہدام کیلئے دو سطحی حفاظتی انتظامات کے تحت تعینات کیا گیا تھا۔ حکام کے مطابق خانہ خداکو ’پرامن‘ طریقہ سے اور’ خوش اسلوبی‘ کے ساتھ مسمار کیا گیا۔
افسوس تویہ بھی ہے کہ اس معاملہ میں داہود کے مسلمانو ں کو عدالت سے بھی مایوسی ہی ہاتھ لگی تھی۔مسجد ٹرسٹ نے اس معاملہ میںگجرات ہائی کورٹ میں بھی درخواست دی تھی لیکن گجرات ہائی کورٹ میں موجودہ موسم گرما کی تعطیلات کی وجہ سے درخواست سرکاری طور پر درج نہیں ہو سکی ہے۔ٹرسٹ نے گجرات ہائی کورٹ میں دی گئی اپنی درخواست میں کہا ہے کہ گجرات میونسپلٹی ایکٹ کے تحت مبینہ تجاوزات کیلئے قریبی دکانوں کو نوٹس جاری کیے گئے تھے۔ یہ دکانیں 15 مئی کو گرائی گئی تھیں۔ تاہم حکام نے کوئی پیشگی اطلاع فراہم کیے بغیر درخواست گزار ٹرسٹ کی اضافی دکانوں کو گرانے کی کارروائی کی۔مسجد کمیٹی کے ایک رکن نے کہا کہ انتظامیہ کی طرف سے انہیں گزشتہ پیرکے روز مطلع کیا گیا تھا کہ جمعہ تک دستاویزات پیش کرنے ہوں گے ورنہ نماز جمعہ کے بعد مسجد مسمارکردی جائے گی۔ ہائی کورٹ نے بھی ہمیں ریلیف نہیں دیا۔ چنانچہ جمعہ کی سہ پہر ہمیں کہا گیا کہ اپنا سامان ہٹا دیں۔لہٰذا ہم نے مسجد کی انہدامی کارروائی سے قبل اپنا کچھ اہم سامان ہٹادیا تھا۔ حیرت کی بات تو یہ بھی ہے کہ مسجد وقف جائیداد تھی، اس لیے اس طرح کی کارروائی کرنے سے پہلے وقف بورڈ کی منظوری لی جانی چاہیے تھی لیکن ایسا کچھ نہیں کیاگیا۔
ایک صدی پرانی مسجد اور تین درگاہوں کی قربانی لے کر داہود شہر، ہندوستان جنت نشان کے نقشہ پرکون سا منفرد مقام حاصل کرے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن انتظامی حکام کی اس حرکت نے ہندوستان پر مذہبی اور لسانی اقلیتوں پر مظالم کے الزامات کو ایک اور ثبوت ضرور فراہم کردیا ہے۔پوری دنیایک زبان ہوکر آج کہہ رہی ہے کہ ہندوستان میں اقلیتیں غیر محفوظ ہیں، ان کی مذہبی آزادی ختم کی جارہی ہے۔ جمہوریت کے بجائے ہندوستان آمریت و اکثریت کی حکمرانی کی جانب بڑھتا جارہا ہے لیکن مودی حکومت دنیا کے ان الزامات کو نظرانداز کرتی آئی ہے۔ ابھی حال کے دنوں میں ہی مسلسل چوتھے سال بھی ایک آزادانہ تحقیقاتی کمیشن نے مذہبی آزادی کے معاملے میں نریندر مودی کی قیادت والی ہندوستانی حکومت کو ’بلیک لسٹ‘ کرنے کی سفارش کی ہے۔تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ہندوستان میں اقلیتوں کی حالت لگاتار ابتر ہوتی جارہی ہے۔ حکمراں طبقہ کی جارحانہ قوم پرستی اب اکثریت کی حکومت میں بدل گئی ہے اور اقلیتوں کو جارحیت اور ہراسانی کا سامناہے، ان کیلئے جائے پناہ روز بہ روز تنگ ہوتی جارہی ہے۔
[email protected]