یوکرین پرروس کے حملہ کا اثر اسرائیل پر براہ رات پڑ رہا ہے۔ اسرائیل پوری دنیا سے مظلوم یہودیوں کو لاکر مقبوضہ فلسطین میں بسا رہا ہے اور یوکرین میں یہودیو کی کافی آبادی رہتی ہے اور تمام طبقات اور فرقوں کی طرح یہودی بھی اس جنگ کی زد میں آرہے ہیں۔ جنگ شروع کرنے سے پہلے ہی اسرائیل نے اعلان کردیا تھا کہ یہودیوں کے لئے اس کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ اسرائیل نے خصوصی انتظامات کرکے بہت سے یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین میں بسانے کے لئے زبردست کام کیا۔ اسرائیل کا پورا انتظامیہ ہوائی جہازوں کی خصوصی پروازیں کرکے اسرائیل میں یوکرین کے یہودیوں کو لارہا ہے۔ اس وسیع تر مقصد کے حصول کے لئے اسرائیل نے روس کے ساتھ بھی تال میل کیا اور روسی قیادت کی کڑوی کسیلی باتیں بھی برداشت کیں۔ روس اوراسرائیل کے درمیان زبردست کشیدگی بھی ہوئی مگراسرائیل کی حکومت بڑی مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے مشن میں مصروف رہی۔
بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق روس کے حملہ کے بعد سے تادم تحریر 31ہزار یہودی اسرائیل کی سرزمین پر اترچکے ہیں۔ 24؍فروری سے لے کر 31؍جولائی تک اسرائیل میں 12175یوکرین میں رہنے والے یہودی آچکے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روس سے بھی بڑی تعداد میں یہودیوں کواسرائیل منتقل کیا جارہا ہے۔ روس سے اسرائیل میں منتقل ہونے والے یہودیوں کی تعداد 18891ہے۔ اسرائیل نے اپنے آپ کو نمائندہ یہودی ریاست کا درجہ دینے اور دنیا بھر کے یہودیوں کو اپنی سرپرستی کا احساس دلانے کے لئے ایک اصول وضع کر رکھا ہے اور اس کو قانونی حیثیت دے رکھی ہے۔ Israel’s Law of Return کے تحت دنیا کے کسی بھی کونے میں رہنے والا یہودی اسرائیل کی شہریت پر اپنی دعویداری کر سکتا ہے۔ بشرطیکہ اس کے اجداد میں کوئی ایک اسرائیل کا شہری ہو۔ اس طرح کے کسی بھی یہودی کو اسرائیل شہریت دینے میں تامل نہیں کرتا ہے۔اسرائیل کے محکمہ ایمیگریشن کے اعدادوشمار کے مطابق روس کے یوکرین پر حملہ کے بعد ان دونوں ملکوںکے مقبوضہ فلسطین میں بسنے والے یہودیوں کی تعداد میں اس سال غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ 2019 میں ان دونوں ملکوں سے صرف 9774 یہودی اسرائیل آئے تھے۔ جبکہ اس سال جنگ پھوٹ پڑنے کے بعد دونوں ملکوں سے آنے والے یہودیوں کی شرح میں 318 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ذرائع کا کہناہے کہ اسرائیل آنے والے یہودی ہی نہیں ہوتے دوسرے طبقات بھی ہوتے ہیں مگر غیریہودیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے۔ یوکرین سے آنے والے لوگوں میں غالب اکثریت تقریباً 63 فیصد عورتوں کی ہے۔ جبکہ روس سے آنے والے یہودی ’مہاجرین‘ میں عورتوںاور مردوںکا تناسب ملاجلا ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ روس سے منتقل ہونے والے یہودیوں میں سب سے بڑی تعداد روسی زبان بولتی ہے۔ اسرائیل کے محکمہ داخلہ کے اعدادوشمار کے مطابق مقبوضہ فلسطین میں 1.3ملین یہودی روسی زبان بولتے ہیں جو اس کی مجموعی آبادی کا 15فیصد حصہ ہیں۔ سابق سوویت یونین سے ٹوٹ کر علیحدہ ہونے والی ریاستوں میں یہودیوں کی بڑی تعداد رہتی ہے۔ اسرائیل میں 2020 میں منتقل ہونے والے یہودیوں کی تعداد 25497 تھی جس میں 2021 میں 30فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس مجموعی تعداد میں نصف تعداد سوویت یونین کی انہی ریاستوں سے منتقل ہوئی تھی۔ ان میں سب سے بڑا تناسب روس اوریوکرین کے ’مہاجرین‘ کا ہے۔ جبکہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر امریکہ اور فرانس سے منتقل ہونے والے لوگ بالترتیب 14-14فیصد ہیں۔ اس پوری صورت حال میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ بدترین وبا کورونا وائرس کے دوران بھی اسرائیل نے مقبوضہ فلسطین میں یہودیوں کو آباد کرنے کے وسیع تر منصوبے کو بالکل ترک نہیں کیا۔ خیال رہے کہ کوروناوائرس سے ایک سال قبل 2019 میں اسرائیل میں 33247 یہودیوں کو بسایا گیا تھا۔ یوکرین پر حملہ کے بعد اسرائیل اور روس کے درمیان تعلقات میں بڑی کڑواہٹ آئی ہے اور اس تلخی کا اثر زندگی کے دیگر شعبوں پر بھی پڑ رہا ہے۔ اسرائیل کے سفارت خانے اوروزارت خارجہ یہودی رضاکار اداروں کے ساتھ مل کر روس سے یہودیوں کی منتقلی کے انتظامات کرتی ہے اور روس یوکرین بحران کے بعد اسرائیل نے مسلسل یوکرین کا ساتھ دیا ہے اور عوامی سطح پر روس کی پالیسیوں کی مذمت کی ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ روس کے یہودیوں کو اسرائیل منتقلی میں مقامی حکام مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔اسرائیل کے رضاکار ادارے Jewish Agency ، 90سال سے اپنی غیرمعمولی خدمات انجام دے رہی ہے۔ اس ایجنسی کا بنیادی مشن پوری دنیا کے یہودیوں کو اسرائیل لانا اور اسرائیل کے یہودیوں کو دنیا بھر میں کام کرنے کے مواقع، سہولیات اور اخلاقی سہولت فراہم کرنا ہے۔ یہ تنظیم 65ملکوں میں سرگرم ہے اوراس تنظیم کا کہنا ہے کہ 2021 میں اسرائیل میں 28601 افراد کو باقاعدہ بسایا گیا ہے۔
مگرروس کے حکام کا کہنا ہے کہ یہودی ایجنسی کے رضاکار اپنے کام انجام دینے میں اس کے قواعد اور ضوابط کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ روس کی وزارت انصاف کا کہنا ہے کہ روس میں کام کرنے والی یہودی ایجنسی کی شاخ کو تحلیل کرنے کے لئے قانونی چارہ جوئی شروع کردی ہے۔ اسرائیل کا الزام ہے کہ روسی حکام ان پر اسرائیل کی نکتہ چینی کی وجہ سے انتقامی کارروائی کر رہے ہیں۔ اسرائیل نے دھمکی دی ہے کہ اس طرح کے اقدام دونوں ملکوں کے آپسی تعلقات کو پراگندہ کرسکتے ہیں۔
دراصل روس اوراسرائیل مغربی ایشیا کے خانہ جنگی زدہ ملک شام میں الگ الگ گروپوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ روسی حکمراں اوراسرائیل بشارالاسد کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ اسرائیل کئی مرتبہ شام میں شام کی فوج کے ٹھکانوں پر حملے کرچکا ہے اور باقاعدہ باغیوں کی اخلاقی و دیگرحمایت کر رہا ہے۔ خیال رہے کہ اسرائیل شام کے انتہائی سرسبز اور شاداب علاقے جولان کی پہاڑیوں پر ایک طویل عرصہ سے قابض ہے اور اس نے مقبوضہ جولان پہاڑیوں کو اپنے علاقوں میں شامل کرکے وہاں زراعتی اور ترقیاتی سرگرمیاں شروع کردی ہیں۔ جولان پہاڑیوں کواپنے اقتدار اعلیٰ کے خطے میں شامل کرنے کے اسرائیل کے قدم کی مسلسل نکتہ چینی کے باوجود اسرائیل اپنے عزائم پر قائم ہے۔ ظاہر ہے کہ اسرائیل کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔ شام میں اسرائیل اور امریکہ قومی مداخلت جاری رکھے ہوئے ہیں اور بشارالاسد کے لئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ اسرائیل روس، امریکہ، ترکی اور کئی عرب ممالک بھی شام میں مداخلت کئے ہوئے ہیں مگر اسرائیل نے شام کی جولان کی پہاڑیوں کے اتنے بڑے حصہ پر قبضہ کرلیا ہے اور تمام تر بین الاقوامی قوانین ، اقوام متحدہ، سیکورٹی کونسل، انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے اداروں اور عالمی عدالت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے محض طاقت کے زورپر وسیع علاقے پر قبضہ جمالیا ہے۔
بہرکیف اسرائیل کے صدر اسحاق ہرروگ روس میں یہودیوں کے مفادات کے لئے اپنے روسی ہم منصب سے اور دیگرحکام کے رابطے میں ہیں۔ فی الحال روس بظاہر یہودی ایجنسی کے خلاف کارروائی نہیں کر رہا ہے مگر محکمہ انصاف اپنے طریقہ سے قانونی چارہ جوئی کر رہا ہے۔ اس ر وقت روس میں 600000 اسرائیلی منتقل ہوسکتے ہیں۔ یعنی ان کے اجداد اسرائیل میں ہیں۔ اسرائیل میں منتقل ہونے والے افراد کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اوریہودی روس سے اسرائیل میں منتقل ہونا چاہتے ہیں۔
mrm
صیہونی ریشہ دوانیوں کے سامنے بے بسی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS