بے یار و مددگار لاش

0

✍️محمد اسعد محسن زین

آج میں اپنے خلاف معمول دل اداس ہونے کی وجہ سے نیند سے بیدار ہوتے ہی موبائل اپنے ہاتھ میں لیا اور سیدھا گیلری کا رخ کیا،کئی دن بیت چکے تھے تصاویر دیکھے ہوئے
میں نے بالکل اسکرین کے سامنے ایک تصویر دیکھی جو دل دہلا دینے والی تھی،ایک بے حس انسان کے احساس کو بیدار کر دینے کا مادہ اپنے اندر سموئے ہوۓ تھی،یک درد و الم سے بے پرواہ انسان کے اندر بھی درد و الم کو سرایت کر دینے والی تھی، احساس کو زندہ کر دینے والی تھی۔

یک بچہ چیخ و پکار مچاۓ ہوۓ تھا،وہ کسی ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے درپئے تھا ، وہ کسی کی حق تلفی کی بات کر رہا تھا،وہ کسی کے ساتھ ظلم و بربریت کا ننگا ناچ ہونے پر درد بھری آواز میں کچھ کہ رہا تھا،کسی کی روح کے ساتھ کھلواڑ ہونے پر بات کر رہا تھا،وہ کسی کے ساتھ بے انصافی ہونے پر چیخ رہا تھا۔

وہ کہ رہا تھا کہ اُس انسان کی کیا غلطی تھی،جو غربت و افلاس کے مارے لوگوں کی مدد کر رہا تھا،کسی کے ساتھ ہوۓ ظلم و بربریت پر روک تھام کر رہا تھا،کسی کی عزت و ناموس کی حفاظت کر رہا تھا،کسی کی جان و مال کے تحفظ میں محو عمل تھا حق و انصاف کی آواز بلند کر رہا تھا،کسی کی حق تلفی کیے جانے پر اسے حق دلانے کے لیے رواں دواں تھا،کسی کو دو وقت کی روٹی دینے کی کوشش کر رہا تھا،کسی کو جھگڑا لڑائی نہ کرنے کی سیکھ دے رہا تھا ، کسی کو بھیک نہ مانگ کر اپنی محنت کی کمائی کھانے کی ترغیب کر رہا تھا تو یہ بھی کوئی جرم تھا صاحب؟

آخر انہیں ان جرائم کے باعث جیل کے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا تھا یا مذہب کے آڑ میں اس کی لاش کے ساتھ بھی کوئی سازش رچی جا رہی تھی،کیا انسانیت اتنی بے بس و لاچار ہو گئ ہے کہ مردہ جسم پر بھی مشق ظلم و تعدی کی جاۓ؟

نہیں ابھی انسانیت اتنی بھی لاچار نہیں ہوئی کہ کوئی سانس لینا چھوڑ دے اور زندگی بے وفائی کے گل کھلا دے پھر بھی اس کے ساتھ اس نوعیت کا رویہ اختیار کیا جائے،اگر وہ مجرم بھی تھا پھر بھی قانون اس کے ساتھ استہزاء کی اجازت قطعی طور پر نہیں دیتا،بلکہ بتقاضائے بشریّت اگر کوئی انسان موت کے بھینٹ چڑھ جاۓ تو اس کی برائیوں کو نہیں بل کہ اس کے محاسن اور خوبیاں لوگوں کے سامنے بیان کی جائیں ،اس کی لاش اور مردہ جسم کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیا جائے نہ کہ شدت و سختی سے پیش آیا جاۓ

ہاں وہ بچہ کوئی اور نہیں بل کہ وہ بے روح و جان جسم کا ایک لوتا وارث تھا،وہ غیر متحرک جسم کے جگر کا ٹکڑا اور اس کی دھن دولت اور عزت و آبرو کا محافظ تھا،وہ اپنے پیارے والد پر ہوتے ہوئے ظلم کے خلاف مقتل میں تنہا لڑنے پر بضد تھا،وہ اکیلا اس ظلم پر برابر آواز اٹھاۓ جا رہا تھا،وہ اکیلا مردہ جسم کے ساتھ کھلواڑ اور ناچ ہونے کے روک تھام پر لگا ہوا تھا۔

وہ اپنے والد محترم کے محبوب اور چہیتے لوگوں سے استغاثہ اور فریاد کیے جا ر ہا تھا، اور با آواز بلند یہ کہے جا رہا تھا کہاں گۓ وہ لوگ جس کے لۓ میرے باپ نے اپنی زندگی داؤ پر لگادی ،
لیکن کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں تھا،شاید اس دوران سبھوں کو سانپ سونگھ گیا تھا،انسانیت مات کھا چکی تھی،انسانیت کی روح پرواز کر گئ تھی،انسانیت لوگوں کے پاؤں تلے دب کر جاں بحق ہو چکی تھی،شاید وفادار جیسے الفاظ لغات سے مٹ چکے تھے،لوگوں کے تصورات سے بھی وفا نامی پرندہ پرواز کر کے کسی سیر و سیاحت کے کھلے نل گو آسمان میں اونچی اڑان بھر رہا تھا،شاید وفاداری اب ان لوگوں میں نہ بچی تھی جن کے لۓ اس شخص یک مدت خون پسینے بہایا تھا۔

آخر میرا باپ اتنا بد نصیب تھا جو اسے دو گز زمیں بھی اپنے آبائی وطن کی ملنے سے رہی،میرا باپ اتنا بڑا مجرم بھی نہیں تھا جو اس مردہ لاش کے ساتھ بھی وفاداری نہ کی جا سکے،میرے باپ کے کس جرم میں اس کی لاش کو بھی بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا،عقیدت و محبت کی آہیں بھرنے والوں کی آنکھیں آج اندھی اور بے بصیرت ہو گئ،ان کی آنکھوں کی روشنی آج سلب کر لی گئ،انہیں میرے باپ کا مردہ جسم نظر نہیں آتا؟

جس محنت و لگن کے ساتھ میرے باپ نے قوم و ملت اور ملک و وطن کی خدمت کی تھی آج سب کرے دھرے پر آپ عشاق کی کرم فرمائیوں نے پانی پھیر دیا،آج میرے باپ کی لاش سوالات کے بوچھار اور انبار چھوڑ گئ ہے

کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لۓ
دو گز زمیں بھی مل نہ سکی کوۓ یار میں

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS