یوگیندر یادو
اگر مرزا غالب کہیں نرملا سیتارمن کی پریس کانفرنس سن رہے ہوتے تو وہ ضرور نادانی میں پوچھ بیٹھتے ’’دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟‘‘ بہن جی، آخر کسر کس بات کی ہے؟ سمجھ کی کمی ہے؟ پیسے کا ٹوٹا ہے؟ یا کہ نیت ہی نہیں ہے؟ اگر ملک کی معیشت کی حالت اور سرکاری پیکیج کو سمجھنا ہو تو معاشیات کی پیچیدہ زبان اور سرکاری اعدادوشمار کے ’مایاجال‘ کو چھوڑ فلم مرزا غالب کے اس گانے کا سہارا لینا ہوگا۔
ملک کورونا وبا کے اندھے کنویں سے نکلنے کے بعد اب معاشی بحران کی کھائی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ معیشت کا نظام مریض کی طرح کراہ رہا ہے، وزیرمالیات کی شکل میں ڈاکٹر سامنے کھڑی ہیں، لیکن مریض کی مرہم پٹّی اور دوا کے بجائے اس پر اعدادوشمار کے پھولوں کی برسات کررہی ہیں، میٹھے الفاظ سے اس کی حوصلہ افزائی کررہی ہیں، اسے ورزش کرنے کی صلاح دے رہی ہیں، جم کو بہتر بنانے کا وعدہ کررہی ہیں۔ مریض حیرت زدہ ہے۔ عوام حیران ہیں، پریشان ہیں، بہت کنفیوژڈ ہیں۔ غالب کے الفاظ میں ’ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار، یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟‘‘ مشتاق یعنی بہت خواہش مند یا بے چین،بیزار کا مطلب لاتعلق یا لاپروا ہے۔ مجبور لوگوں کی بے چینی اور مغرور حکومت کی بے حسی آج ہماری معیشت کا سیاسی سچ ہے۔
اس ماجرے کو سمجھنا آسان نہیں ہے۔ شاید وزیرمالیات نرملا سیتارمن کے ذریعہ اعلان کیے گئے کورونا راحت پیکیج کا مقصد عوام کو اندیشہ میں رکھنا ہی ہے۔ پوری زندگی کی کمائی جوڑ کر عام آدمی ایک دو کروڑ کے اعدادوشمار تو سمجھ لیتا ہے لیکن اس سے بڑے اعدادوشمار سر کے اوپر سے نکل جاتے ہیں۔ ٹی وی دیکھنے والے کو ڈھائی سو کروڑ اتنا ہی بڑا لگتا ہے جتنا کہ ڈھائی ہزار کروڑ یا پھر ڈھائی لاکھ کروڑ۔ درباری میڈیا کی مدد سے وزیرمالیات چونی، اٹھنی کی برسات کرکے ٹی وی پر پیٹ بھردیتی ہیں، کراہتے ہوئے مریض کو افیم کی گولی مل جاتی ہے۔ جان تو نہیں پھر حکومت پر ووٹ نثار کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔
وزیرمالیات راحت اور دوا کو چھوڑ کر باقی سب کچھ کر رہی ہیں۔ اگر چھ ماہ کے لیے اضافی راشن کے ایک اچھے اعلان کو چھوڑ دیں تو گزشتہ سال اعلان کیے گئے پیکیج کی طرح اس راحت پیکیج میں بھی حکومت نے اپنی جیب میں ہاتھ نہیں ڈالا ہے۔ خود پیسہ دینے کے بجائے سرکار بینکوں سے لون دلوا رہی ہے۔ اس پیکیج میں نئے پرانے دعوے ہیں، پرانے اعلانات کو دہرایا گیا ہے، بغیر ذرائع بتائے اخراجات کے وعدے ہیں، آنے والے برسوں میں ہونے والے اخراجات کہیں زیادہ ہیں۔ معیشت کو جو چاہیے اسے چھوڑ کر سب کچھ ہے۔
ایسے میں ہمیں اعدادوشمار کے جنجال سے باہر نکل کر معیشت کے سیدھے سپاٹ سچ کا سامنا کرنا ہوگا۔ معیشت کا مرض ہر کوئی جانتا ہے۔ نوٹ بندی سے معیشت کو جو جھٹکا لگا اس سے ابھی تک ابھر بھی نہیں پائی ہے۔ جی ایس ٹی کو جلدبازی میں نافذ کرنے سے معیشت کو مزید جھٹکا لگا۔ گزشتہ سال لگے لاک ڈاؤن نے تو کمر ہی توڑ دی، رہی سہی کسر دوسری لہر نے پوری کردی۔ کل ملاکر نتیجہ یہ ہوا ہے کہ معاشی ترقی کی گاڑی تقریباً ٹھہر گئی ہے۔ لوگوں کی آمدنی بڑھنے کے بجائے کروڑوں کنبے خط افلاس کے نیچے دھکیل دیے گئے ہیں۔ بے روزگاری کا مسئلہ خوفناک شکل اختیار کرچکا ہے، بالخصوص شہروں میں۔ گزشتہ سات سال سے مہنگائی قابو میں تھی، اب وہ بھی بے قابو ہونے لگی ہے۔
غالب پوچھیں گے: ’’آخر اس مرض کی دوا کیا ہے؟‘‘ جواب مشکل نہیں ہے۔ بیمار معیشت کو آج راحت اور پھر علاج کی ضرورت ہے۔ کم سے کم آدھی آبادی کو کھانے کی ضرورت ہے، راشن میں اناج، دال اور تیل کی ضرورت ہے۔ کروڑوں بے روزگاروں کو روزگار کے مواقع کی ضرورت ہے۔ چھوٹے دکان داروں کو دھکے سے ابھرنے کے لیے مدد کی ضرورت ہے۔ بڑے تاجروں اور صنعت کاروں کو بھی دوبارہ شروعات کے لیے سبسڈی اور چھوٹ کی ضرورت ہے۔ خریداروں کی جیب میں پیسہ نہیں ہے اس لیے حکومت کو کسی طرح سے معیشت میں پیسہ لگانے کی ضرورت ہے۔
لیکن وزیرمالیات راحت اور دوا کو چھوڑ کر باقی سب کچھ کررہی ہیں۔ اگر چھ ماہ کے لیے اضافی راشن کے ایک اچھے اعلان کو چھوڑ دیں تو گزشتہ سال اعلان کیے گئے پیکیج کی طرح اس راحت پیکیج میں بھی حکومت نے اپنی جیب میں ہاتھ نہیں ڈالا ہے۔ خود پیسہ دینے کے بجائے سرکار بینکوں سے لون دلوا رہی ہے۔ اس پیکیج میں نئے پرانے دعوے ہیں، پرانے اعلانات کو دہرایا گیا ہے، بغیر ذرائع بتائے اخراجات کے وعدے ہیں، آنے والے برسوں میں ہونے والے اخراجات کہیں زیادہ ہیں۔ معیشت کو جو چاہیے اسے چھوڑ کر سب کچھ ہے۔
شاید ایسے میں غالب پوچھتے: ’’دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے‘‘ لیکن یہ ان کی اپنی نادانی ہوتی۔ جو بات مجھ جیسے معاشیات کے آدھے ادھورے جانکار/ماہر کو سمجھ آجاتی ہے، کیا وہ بات حکومت کے افسران کو اور خود وزیرمالیات کو سمجھ نہیں آتی؟ سرکاری لوگ بتائیں گے کہ وزیرمالیات نادان تو نہیں ہیں، لیکن مجبور ہیں۔ کیا کریں، حکومت کے پاس پیسہ ہی نہیں ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں بتائیں گے کہ حکومت کے پاس پیسے کیوں نہیں ہیں۔ یہ چھپا جائیں گے کہ جب اتفاق سے پٹرول کی قیمتیں کم ہوگئی تھیں اس وقت حکومت نے مستقبل کے لیے کوئی فنڈ کیوں نہیں بنایا؟ کورونا بحران سے پہلے ہی ریزرو بینک سے بچا ہوا پیسہ کیوں بٹور لیا؟ جب حکومت کی حالت پتلی تھی تب بڑی کمپنیوں کو ٹیکس کی چھوٹ کیوں دی؟ آج بھی اس بحران کا سامنا کرنے کے لیے حکومت ارب پتی اور بڑی کمپنیوں پر خصوصی ٹیکس کیوں نہیں لگارہی؟
ان کڑوے سوالات کا سامنا کرنے پر بات اصلی ایشو پر آتی ہے۔ ’’ہم کو ان سے وفا کی ہے امید، جو نہیں جانتے وفا کیا ہے‘‘۔ یا پھر ان کی وفا کسی اور کے ساتھ ہے۔ کورونا وبا ملک کے عوام کے لیے بحران کا دور ہے لیکن کچھ دھنا سیٹھوں کے لیے موقع بھی ہے۔ حکومت عام آدمی کے بحران کا حل تلاش کرسکتی ہے یا پھرارب پتیوں کے لیے موقع۔ مسئلہ سمجھ یا وسائل کا نہیں بلکہ سیاسی قوت ارادای کا ہے۔
حکومت کی نیت اپنے آپ نہیں بدلتی۔ وہ تب ہی بدلتی ہے جب لوگ ان کڑوے سوالات کو پوچھنا سیکھیں، اپنے ایشوز کو اپنی زبان سے اٹھانا شروع کریں۔ بقول غالب: ’’میں بھی منھ میں زبان رکھتا ہوں، کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے‘‘۔
(مضمون نگار سیفولاجسٹ اور
سوراج انڈیا کے صدر ہیں)